Skip to content

تھیلاسیمیا

آج سرراہ چلتے چلتے اُس بابا جی سے ملاقات ہوئی تو میں نے اس کے بیٹے کے بارے میں پوچھا کہ اب اس کے بیٹے کی طبیعت کیسی ہے۔ پچھلے ماہ ہی میں نےبابا جی کو اپنے بیٹے کے لئے خون ڈھونڈتے دیکھا تھا۔
بابا جی نے ایک مغموم مسکراہٹ کے ساتھ بتایا ، ” ڈاکٹر صاحب وہ تودس دن ہوئے اللہ کو پیارا ہوگیا”۔ مجھے ایک جھٹکا لگا مگر یہ بات غیر متوقع نہ تھی، کیونکہ اس کے بیٹے کو تھیلاسیمیا کی بیماری تھی اور وہ جس حالت میں ہسپتال آیا تھا، اس کا زیادہ دن رہ جانا بھی غنیمت تھا۔
پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 70،000 مریض اس مرض میں مبتلا ہیں اور ہر سال 6000 کے قریب بچے اس مرض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ اکثر مریض اس مرض کا علاج کروا نہیں سکتے اور اسی مرض میں مبتلا رہ کر اس دارِ فانی سے کُوچ کر جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں پانچ اعشاریہ چار فیصد آبادی تھیلاسیمیا کی کیرئیر ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر یہ لوگ صحت مند نظر آتے ہیں، مگر حقیقت میں ان کے جینز میں یہ بیماری پوشیدہ ہوتی ہے اور آگے چل کر یہ بیماری ان کی اولاد میں ظاہر ہو سکتی ہے۔ قدیم مصری تہذیب میں یہ تناسب چالیس فیصد تک تھا، یعنی ہر دس میں سے چار لوگ تھیلاسیمیا کے مریض تھے۔ آج کل دنیا میں سب سے زیادہ تھیلاسیمیا کے مریض مالدیپ میں پائے جاتے ہیں، اور یہ کُل آبادی کا اٹھارہ فیصد ہیں۔ اس کے بعد قبرص اور پھر دوسرے ممالک۔
تھیلا سیمیا خون کی ایک موروثی بیماری ہے جس میں خون میں موجود ہیموگلوبن کی ناقص شکل موجود ہوتی ہے۔ یہ ناقص شکل خون اور ہیموگلوبن سے متعلق تمام بنیادی کام نہیں کر سکتی جس میں آکسیجن کا پورے جسم تک پھیلانا بھی شامل ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مریض میں بنیادی شکایات انیمیا کی ہوتی ہیں، بہت زیادہ کمزوری، جسم کی پیلاہٹ اور نقاہت بچے کے والدیں کو اس طرف متوجہ کرتی ہے اور تحقیقات کے نتیجے میں اس مرض کا پتہ چلتا ہے۔
ایک صحت مند انسان میں ہیموگلوبن کا ایک مالیکیول دو الفا اور دو بیٹا چین سے مل کر بنتا ہے۔ ان میں سے ایک بھی الفا یا بِیٹا چین ناقص ہوا تو ہیموگلوبن اپنا کام نہیں کرے گی۔
اگر الفا چین ناقص ہے تو تھیلاسیمیا کو الفا تھیلاسیمیا کہتے ہیں اور اگر بِیٹا چین ناقص ہے تو اسے بِیٹا تھیلاسیمیا کہتے ہیں۔ ان دونوں کی پھر مختلف اقسام ہیں جنھیں مرض کی شدت کے مطابق مائینر اور میجر کا لاحقہ لگا کر ممیز کیا گیا ہے۔
لفا تھیلاسیمیا کے بارے میں کچھ معلومات اس ربط سے مل سکتی ہیں۔ اس فائل کو دیکھنے کے لئے آپ کے پاس کوئی بھی پی ڈی ایف سافٹویئر ہونا چاھئے۔
بِیٹا تھیلاسیمیا کے بارے میں کچھ معلومات اس ربط سے مل سکتی ہیں۔
زیادہ تکنیکی تفصیلات بتا کر آپ کا وقت ضائع نہیں کر سکتا ، مگر اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ اس نقص کے ساتھ پیدا ہونے والے بچے، اپنی ساری عمر خون کے محتاج رہتے ہیں۔ ہر ماہ کم از کم ایک مرتبہ انھیں اُن کے بلڈ گروپ کے لحاظ سے خون چاہئے۔ اور یہ خون اُسی طرح ان کی زندگی کی گاڑی چلاتا ہے، جس طرح پیٹرول آپ کی گاڑی کو۔
ساری زندگی خون کے لگنے سے اور بھی پیچیدگیاں ہوتی ہیں جن سے نمٹنا مریضوں کےعدم تعاون کی وجہ سے اور مشکل ہوجاتا ہے۔ مسلسل خون لگنے کے نتیجے میں ان مریضوں کے جسم میں آئرن جمع ہونے لگتا ہے، جو کہ عام حالات مں اچھی چیز ہے، مگر ان مریضوں میں بہت زیادہ مقدار میں جسم میں رہ جاتا ہے، اور اس کے نتیجے میں بہت سے بیماریاں بننے لگتی ہیں۔ یہ یاد رکھئے گا کو دونوں الفا اور بِیٹا کی مائنر اقسام اتنی مہلک نہیں ہوتیں جتنی کہ میجر اقسام۔ اور یہ میجر اقسام ہی ہیں جن کو ساری عمر خون درکار ہوتا ہے۔
عدم تعاون کی سب سے بڑی وجہ تو مالی ہےکیونکہ خون کے علاوہ، اس زائد آئرن کو نکالنے کے لئے بھی دوا چاہئے اور وہ دوا باقاعدگی سے استعمال کرنی ہوتی ہے۔ اس کا نا م ڈیفیراکسامین ہے۔ یہ دوا آئرن کو جسم کے خلیوں سے علیحدہ کر کے پیشاب کے ذریعے باہر نکال دیتی ہے۔ یہ دوا کھائی بھی جا سکتی ہے اور پمپ کے ذریعے جسم میں داخل کی جا سکتی ہے۔۔ یہ مؤخر الذکر طریقہ سب سے بہتر ہے۔ مگر بہت سے لوگ اپنی غربت کی وجہ سے یہ پمپ جو کہ 3500 سے لیکر 5000 تک کی مالیتوںمیں دستیاب ہے، خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ پھر صرف پمپ خریدنا ہی تو نہیں ہے، اس کے بعد ساری عمر انجکشن بھی تو لگانے ہیں۔
ایک انجکشن کی قیمت 85 روپے ہے، مگر میرے علم میں ایسے لوگ بھی آئے ہیں کہ جو اس انجکشن کو 900 روپے میں فروخت کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خون تو کوئی نہ کوئی رضاکار دے ہی دیتا ہے، بچے کو خون لگ جاتا ہے اور ایک ماہ تک بے فکری رہتی ہے، مگر اس خون کے نتیجے میں جوآئرن جسم میں داخل ہوتا ہے وہ دوا کے نہ ہونے کی وجہ سے نکل نہیں پاتا ،اور بچہ مختلف امراض میں مبتلا ہوجاتا ہے جن میں تِلی کا بڑھنا ، ذیابیطس، دل کے امراض وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
اگر ایک تھیلاسیمک مریض کا علاج بہتر ہو سکے تو یہ مریض اپنی طبعی عمر تک زندہ رہ سکتا ہے، مگر ہمارے ملک میں اکثر بچے اپنی زندگی کی دوسری دہائی تک پہنچ نہیں پاتے۔ بہت کم بچے ایسے ہوتے ہیں جو تیسری دہائی میں داخل ہوتے ہیں۔
س مرض سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ ۔
ایک تو خاندان میں شادیاں کرنے سے اجتناب کیا جائے۔
دوسرے اگر یہ اتنا ہی ضروری ہے تو شادی سے پہلے دونوں کا خون کا ایک ٹیسٹ کر لیا جائے تاکہ اگر دونوں میں سے کوئی ایک تھیلاسیمیا مائنر میں مبتلا ہے تو اس کی نشاندہی ہو سکے۔ یہ مائنر والے کیسز آگے ایک میجر کیس کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ اس ٹیسٹ کو ہیموگلوبن الیکٹرو فوریسس کہتے ہیں۔
اگر خاندان میں شادی نہیں بھی ہو رہی تو بھی شادی سے پہلے یہ ٹیسٹ کروانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کسی کی ذرا سی محنت مستقبل میں ایک بیمار بچے کی پیدائش روک سکتی ہے۔ اور پھر ایسے بچوں کے والدین پر کیا ان بچوں کی زندگی میں کیا گزرتی ہے، یہ وہ ہی جان سکتے ہیں۔

512px Autorecessive.svg

یاد رکھئے، پاکستان کی کُل آبادی کا پانچ اعشاریہ چار فیصد حصہ تھیلاسیمیا کا کیرئیر ہے، اور پاکستان کی کُل ٓبادی ۱۷ کروڑ سے زائد ہو چُکی ہوگی۔۔۔

یہ مراسلہ آٹھ مئی ، تھیلاسیمیا ڈے ، کی مناسبت سے لکھا گیا۔

یہ تصویر اس ربط سے حاصل کی گئی۔۔

6 thoughts on “تھیلاسیمیا”

  1. DuFFeR - ڈفر

    یعنی خاندان میں شادیاں کرنے سے اجتناب والی بات صرف اس صورت درست ہے اگر خاندان تھیلیسیمیا کا میجر یا مائینر کیرئر ہو؟

  2. منیر عباسی

    جی ڈفر،
    صرف تھیلاسیمیا ہی نہیں بہت سی اور موروثی بیماریاں ہیں جن سے صرف خاندان میں شادی نہ کر کے بچا جاسکتا ہے۔
    ان کی تفصیلات آپ کو میڈیکل لٹریچر میں مل جائیں گی۔۔

  3. ہمارے کراچی کے ایک بلاگر سلمان اور ان کی بلاگر بہن عائشہ دونوں بہن بھائی اس مرض میں مبتلا ہیں اور اس جنگ کررہے ہیں۔ دونوں بہن بھائی اس کے لئے کافی ایکٹو ہیں اور اس کے بارے میں آگہی پھیلانے کا کام بھی کرتے رہتے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے سلمان نے ٹی وی پر ایک پروگرام میں اس بارے میں ایک چھوٹی سی تقریر بھی کی ہے ِملاحظہ فرمائیں۔

  4. عمر احمد بنگش

    تکنیکی باتوں کو بڑا سہل بیان کیا ہے آپ نے۔ شکریہ

  5. DuFFeR - ڈفر

    اب میڈیکل کی کتابیں ہم کہاں پڑھتے پھریں
    وہ بھی انگریزی میں
    تھوڑی بہت آپ ہی روشنی ڈال دیں نا

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں