Skip to content

تم اچھے مسیحا ہو، شفا کیوں نہیں دیتے

طب اور مسیحائی کا کافی پرانا ادبی رشتہ ہے۔ اسے معاشرتی بھی کہہ لیں مگر میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ صرف ہمارے معاشرے میں ہی طبیب کو مسیحا کا درجہ دیا جاتا ہے، ممکن ہو اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ میں نے اپنے معاشرے کے سو ا کسی اور معاشرتی رویئے کا مشاہدہ نہیں کیا ہے، مگر  روز مرہ کی بول چال میں کتنی مرتبہ ہی مرتبہ ڈاکٹروں کو مسیحا سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اور یہ اتنی باقاعدگی سے کیا جاتا ہے کہ کبھی کبھی تو مجھے شک ہونے لگتا ہے کہ ہم انسان نہیں فرشتے ہیں۔

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کے معجزات میں  اللہ کے حکم سے بیماروں کوشفا دینا، مُردوں کو زندگی دینا اور مٹی کے بے جان مجسموں میں جان پھونکنا شامل تھے، مگر  اس میں ان کا اپنا کوئی ذاتی عمل دخل نہیں تھا، یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے تھا۔

اور اللہ نے ہر نبی کو اُس کے زمانے کے حساب سے معجزات عطا فرمائے، مثلا موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جادو کا دور دورہ تھا، اُسی مناسبت سے ان کے معجزات بھی تھے۔

بہر کیف اس سے پہلے کہ گفتگو کسی اور طرف بہک جائے، مجھے اپنے موضوع کی طرف آنا پڑے گا۔

 

واقفان حال اس بات سے اتفاق کریں گے کہ میڈیکل کا شعبہ اس وقت پاکستان میں ناگفتہ بہ صورت حال کا شکار ہے، اس کی زبوں حالی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اب اس شعبے کوخود ایک مسیحا کی ضرورت ہے۔

یہ شعبہ اس حال تک کیسے پہنچا ، اس پر ایک لمبی بحث ہو سکتی ہے، مگر میڈیکل تعلیم کی زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے  حکومت پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے میں کوئی حرج نہیں۔   حکومت پاکستان نے ڈاکٹرز کی رجسٹریشن  اور ان کے دیگر امور کے لئے ایک ادارہ پاکستان میڈیکل ینڈ ڈینٹل کونسل کے نام سے بنایا ہے جس کے ذمے میڈیکل تعلیم سے لے کرڈاکٹروں کی سپیشلائزیشن کے امتحانات اور بیرون ملک سے فارغ التحصیل طلبا کے امتحانات کے انعقاد تک کی مختلف ذمہ داریا ں شامل ہیں۔  اسی پی ایم ڈی سی کے ساتھ رجسٹریشن کے بعد ایک ڈاکٹر ملک میں قانونی طور پر اپنے فرائض سر انجام دے سکتا ہے۔

۱۹۶۲ میں پی ایم ڈی سی کے قیا م کے بعد سے اب تک پاکستان میں کل فارغ التحصیل ڈاکٹروں کی تعداد صرف 126472 ہے۔ ان میں تمام میدیکل اور ڈینٹل پریکٹیشنر شامل ہیں اور یہ اعدا و شمار ۳۱ اکتوبر ۲۰۰۹ تک کے ہیں۔ ملک میں کام کرنے والے تمام سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی تعدادپی ایم ڈی سی کی ویب سائٹ کے مطابق 23377 ہے۔  حوالہ

ملک کی موجودہ آبادی کا تخمینہ ۱۷کروڑ کے آس پاس ہے۔

 

یہ تو اجمالی خاکہ تھا ڈاکٹروں کی دستیابی کے بارے میں۔  عددی قلت تو ہے ہی، مگر معیار کا فقدان بھی پایا جاتا ہے اور موجودہ صورتحال میں جب کہ ہمارے پاس نت نئی ٹیکنالوجی کے سبب کسی بھی مرض کی تشخیص کوئی مشکل سبب نہیں رہا، ڈاکٹروں کی غفلت کے سبب مریضوں کو پیش آنے والے واقعات میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔

مثال کے طور پر پاکستان انسٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں ایک مریضہ معصومہ حیدر  کے ساتھ پیش آنے والے واقعے سے آپ کو صورت حال کی سنگینی کا اندازہ ہو جائے گا۔ یہ مریضہ بچے کی ولادت کے سلسلے میں ہسپتال میں داخل ہوئی تھی اور حالات نے ایسا رخ موڑا کہ اب اسے گردہ کی پیوندکاری کروانی پڑی۔

اس صورت حال کا ذمہ دار کون ہے، مکمل غیر جانبدار تفتیش سے ہی معلوم کیا جاسکے گا ، مگر  میرے خیال  میں یہ بہترین وقت ہے کہ ہم ڈاکٹرز مل کر بیٹھیں اور اپنے گریبان میں جھانکیں۔

ہمیں ان بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کرنی ہوگی اور کوشش کرنی ہوگی کہ ہم اپنی پیشہ ورانہ خدمات کا معیار بڑھائیں، کل کو ہمارا اپنا بھی کسی ایسے ڈاکٹر کا مریض بن سکتا ہے۔

 

ملک میں بڑھتی ہوئی بد عنوانی تو ہر جگہ موجود ہے ہی، اس نے اب طب کے پیشے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔  یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، کیونکہ میڈیکل کی مشکل تعلیم کے سبب ہر وہ شخص جس کے پاس میڈیکل کی کوئی بھی ڈگری ہو، کبھی بھی شک کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ، اور یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ کہ اس نے اپنی ہمت اور محنت سے ہی یہ ڈگری حاصل کی ہوگی۔ مگر افسوس اس صورت حال کا فائدہ بھی لوگوں نے اٹھانا شروع کر دیا ہے، مثال کے طور پر یہ رپورٹ ملاحظہ کیجئے۔ اس میں مرکزی کردار  مبینہ طور پر ایک جعلی ڈگری کے سہارے  بحیثیت  ڈاکٹر کام کرتا رہا اور کسی نے پوچھا تک نہیں، بات اس وقت کھلی جب اس کے تین بھائیوں کو تعلیمی صلاحیت نہ ہونے کے باوجود راولپنڈی کے ہسپتال میں بحیثیت ڈاکٹر لیا گیا اور یہ بات ملکی میڈیا میں سامنےآگئی۔سوال یہ اٹھتا ہے، کہ حکومتی قوانین اس طرح کی بد عنوانیاں ختم کرنے میں کتنے مؤثر ہیں؟  ابھی ان دو خبروں کی بازگشت میرے ذہن میں تھی کہ خیر پور سے دو ڈاکٹروں کے خلاف  فرائض میں غفلت اور مریض کی ہلاکت کا مقدمہ درج ہونے کی خبر آ گئی۔ اب  کیا کریں؟

افسوس ناک بات یہ تھی کہ ہسپتال کے ڈاکٹرون نے ڈیوٹیوں کا بائیکاٹ کیا اور ان ڈاکٹروں کے خلاف درج کئے گئے مقدمے کے اخراج کا مطالبہ کیا۔  جو کہ میرےخیال میں قبل از وقت تھا۔

 

یہ صورت حال آپ کے سامنے ہے۔  شائد آپ اس سے زیادہ جانتے ہوں، اور آپ اس سے زیادہ تلخ تجربے سے گزرے ہوں، مگر،  کیا بات صرف ڈاکٹروں کو قصاب اور قسائی کہنے سے ختم ہو جائے گی؟ کیا صرف ان کو گالیاں دینے یا ان کو جیل میں ڈلوانے سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟

 

ہر گز نہیں۔

میں سمجھتا ہوں اس معاملے میں طویل مدتی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔  بد قسمتی سے کوئی حکومت بھی طویل مدتی اقدامات کا سوچ نہیں سکتی کیونکہ ان کے اقتدار میں آتے ہی مڈٹرم الیکشن کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں، ایسے میں جب ان کو اپنے اقتدار کے لالے پڑے  ہوں ، کیسی تعلیم اور کیسی صحت؟

 

اس سلسلے میں میری چند گزارشات درج ذیل ہیں۔

 

  • ۱۔  میڈیکل کی بنیادی تعلیم یعنی ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور اس کے امتحانی نظام کا تو ایک نئے سرے سے انتظام کرنا بے حد ضروری ہے۔  ابھی بھی تین گھنٹے میں چار یا چھے تفصیلی جواب لکھنا پڑتے ہیں جو کہ اس پیشے کو دیکھتے ہوئے ایک فرسودہ سی کوشش ہے۔  وقت کی ضرورت ایم سی کیو قسم کے امتحانات کی ہے جس سے طلبا میں رٹا لگانے کی حوصلہ شکنی ہو اور نفس مضمون سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو۔
  •  

۲۔ ایسا نظام ہو کہ ہر سال فارغ التحصیل ہونے والے ڈاکٹرں کو ایک امتحان کے بعد، اور اس امتحان میں ان کی کارکردگی کی بنیاد پر ہاؤس جاب دی جائے۔  اس سے اقربا پروری اور سفارش کے کلچر کے خاتمے میں مدد ملے گی۔

 

۳۔ سارے ملک میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کا ایک جامع کمپیوٹرائزد ریکارڈ ایک جگہ جمع کیا جائے اور اس تک لوگوں کی رسائی  آسان بنائی جائے۔ اس سے یہ ہوگا کہ جس ڈاکٹر کی ڈگری کے بارے میں شک ہے اس کو بآسانی ایک جگہ دیکھ کر بتایاجاسکے گا کہ   کیا واقعی ایک شخص ڈاکٹر ہے کہ نہیں۔  اس سلسلے میں پی ایم ڈی سی  کی ویب سائٹ پر ایک ربط دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔

 

۴۔ گریجویشن اور سپیشلائزیشن کے بعد بھی ڈاکٹروں کی پریکٹس کرنے کی صلاحیت کو جانچنے کے لئے سالانہ امتحانات کا انعقاد کیا جائے۔ اور اس امتحان میں کامیابی لازمی قرار دی جائے۔ اور جب تک ایک ڈاکٹر پریکٹس کرنا چاہتا ہے، وہ اس قسم کے سالانہ امتحانات  میں کامیاب ہوتا رہے۔

 

۵۔ ڈاکٹروں کی طرف سے فرائض میں غفلت اور اس کے بعدپیدا ہونے والے حالات  سے نمٹنے  کے لئے  ایک ایسا  با اختیار ادارہ ہو جو یہ بات عدلیہ میں جانے سے پہلے ہی ڈاکٹرز کا احتساب کرے اور جرم ثابت ہونے پر ان کی ڈگری چھین لے۔ یہ سزا اس سزا کے علاوہ ہو جو عدلیہ میں جانے پر اس کو ملے گی۔

 

یہ کچھ باتیں تو فرائض کے متعلق تھیں،اور ہم لوگ بد قسمتی سے دوسروں کے فرائض متعین کرنے میں انتہائی سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بات جب حقوق کی آتی ہے تو وسائل کی عدم دستیابی کا بہانہ بنا کر بات  ٹال دی جاتی ہے۔ ڈکٹروں کے فرائض کا تعین کرتے وقت اور ان کو اُن کی مسیحائی کا واسطہ دیتے وقت ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ملک میں اس وقت

ڈاکٹروں کی قلت ہے، اور آبادی اور ڈاکٹروں کی تعداد میں عدم توازن کے سبب یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ان پر کام کا بوجھ زیادہ ہے۔ جب کہ اسی کام کا معاوضہ بہت قلیل۔

 

کیا یہ ناانصافی نہیں کہ ۱۷ سال پڑھنے والے کو معاوضہ دیتے وقت ۱۴ سال تک کے پڑھنے والے کے ساتھ رکھا جائے؟ جب کہ دونوں کے فرائض اور اختیارات میں بہت واضح فرق ہے؟

 

اگر ہم یہ چاہیں کہ ہمارے ڈاکٹر ہمیں معیاری اور پیشہ ورانہ خدمات فراہم کریں تو ہمیں ان کی تعلیمی  حالت کے بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اُن کی معاشی حالت کو بھی بہتر بنانا ہوگا، صرف اسی طریقے سے سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ پریکٹس کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جاسکتی ہے۔  ایک مرتبہ یہ رجحان ٹوٹ گیا، خود بخود ڈاکٹر ہسپتال میں داخل مریضوں کی خدمت کرنا شروع کرد یں گے۔

6 thoughts on “تم اچھے مسیحا ہو، شفا کیوں نہیں دیتے”

  1. ڈاکٹر صاحب آپ کی نیک نیتی اور خود احتسابی کو سلام پیش کرتا ہوں۔۔ کاش تمام پروفیشنل اسی طرح کی سوچ کے ساتھ اپنے پیشے سے ایمانداری کا مظاہرہ کریں تو کئ مسائل پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائیں۔

    آپ کی تجاویز بلاشبہ اہم ہیں اور ڈاکٹروں کے علاوہ کئی دوسرے لوگ جو دلجمعی سے کام کرنا چاہتے ہیں مناسب معاوضہ نہیں دیا جاتا جس سے کام کے میعار پر برا اثر پڑتا ہے۔۔ مشاہرہ صرف ان لوگوں کا ہی اس ملک میں سب زیادہ ہے جن کے ہونے یا نا ہونے سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا بلکہ نا ہونے سے شاید بہتری کا عمل شروع ہوجائے۔

  2. بہت درد مندانہ تحریر لکھی ہے آپ نے۔ واقعی ڈاکٹروں کی پڑھائی بہت سخت ہوتی ہے۔ میری ایک عزیزہ ایم بی بی ایس کررہی ہیں۔ فرماتی ہیں صبح آٹھ سے رات نو بجے تک نان سٹاپ چلنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد جو کچھ ہمارے معاشرے میں ہورہا ہے، ڈاکٹر پیسے کمانا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔ ہمیں ہنرمندوں کی اجرتوں سے لے کر ان کے احتساب تک ساری چیزوں کو پھر سے دیکھنا پڑے گا۔ لیکن دیکھے کون؟ اتنا ویلا کوئی نہیں۔
    .-= دوست´s last blog ..تسیں خوش ہوجاؤ =-.

  3. ہم لوگوں کو جی اپنے علاوہ سب فرشتے چاہییں۔۔۔ ڈاکٹر ہے تو وہ مفت علاج کرے، انجینیر مفت مکان بنائے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ لیکن جو کام ہم خود کرتے ہیں اس میں ہمیں پورے پیسے ملنے چاہیں، زیادہ بھی مل جائیں تو ہرج نہیں۔۔۔
    بہت عمدگی سے آپ نے اپنے پیشے کی مشکلات کو اجاگر کیا ہے۔۔۔
    .-= جعفر´s last blog ..بی سی جیلانی کی ڈائری کا ایک ورق =-.

  4. بہت اچھا نیا مکان بنایا ہے میں بھی پریشان تھی کہ گھر بابو کے گھر کا پتا کیوں بار بار نہیں ملتا ۔۔ ۔۔ ڈاکڑز لوگوں کی بھی بڑی عجیب زندگی ہے ۔۔ اگر کسی مریض کو بچا لیا تو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کی مرضی تھی اور اگر بہت کوشش کرنے کے باوجود مریض اوپر چلا گیا تو کہتے ہیں ، سارا قصور ڈاکٹر کا تھا ۔۔ بیچارہ جائے تو جائے کہاں ۔۔۔ ویسے میرے گھر میں بھی موجود ہیں ۔ ایک عدر میرے مجازی خدا ۔۔۔

  5. راشد :: ذرہ نوازی ہے آپ کی، ورنہ بندہ کس قابل. آپ نے درست کہا کہ مسئلہ صرف ڈاکٹرز کا نہیں ہے، مسئلہ بہت سے دوسرے پروفیشنلز کا بھی ہے، ورنہ یہی لوگ جب ملک سے باہر جاتے ہیں تو سازگار حالات میں ان کی پیداواری صلاحیت دیکھنے کے قابل ہوتی ہے.

    کامی :: کیا آپ کے پاس اردو ایڈیٹر کام نہیں کرتا؟ انگریزی میں کیوں لکھا ؟

    دوست :: ان سب چیزوں کو ابھی سے دیکھ لیا جائے تو بہتر ہے، کیونکہ اب بھی حالات قابو سے باہر نہیں ہوئے. جیسا کہ میں نے عرض کیا، ڈاکٹرز کی تعداد ابھی بھی بہت کم ہے، ابھی سے ہی ان کے احتساب اور ان کے اعزازیوں کا مسئلہ حل کر لیا جائے تو بعد میں کسی بھی حکومت پر ایک دم سے بہت بڑا بوجھ نہیں پڑے گا.

    جعفر:: شکریہ ، اور مجھے تو یوںلگتا ہے کہ آپ کو کسی سے کوئی شکایت ہی نہیں ، سوائے سہراب مرزا کے. 🙂

    تانیہ رحمان صاحبہ :: پسندیدگی کا شکریہ، دعا کریں یہ اب ٹھہر بھی جائے، کیونکہ بقول جعفر کے ، ان پیرہنوں کے بدلنے کی رفتار بہت تیز ہے. 🙂
    آپ تو پھر گھر کی بھیدی نکلیں. … 🙂

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں