Skip to content

تمھیں تو میں دیکھ لوں گا۔۔

کوئی چھے برس ہوتے ہیں اِس بات کو ۔۔

میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی، وہ میرے رُوم میٹ اور کلاس میٹ کے بچپن کے دوست تھے۔ ابتدائی تعارف کے بعد جب گفتگو طویل ہوئی تو مزہ آگیا۔ ان سے بہت کچھ سیکھا، اور مجھےوہ ملاقات اب تک یاد ہے۔ اُن کا ذکر اس لئے درمیان میں آگیا کہ دوران ِ گفتگو، ان کے منہ سے ایک جملہ نکلا جس نے مجھے حیران کر دیا۔ مجھے اُن سے اس قسم کی بات کی توقع نہ تھی ، اس لئے میں نے پوچھ ہی لیا کہ انھوں نے یہ بات کیوں کی۔۔

انھوں نے کہا ‘ہماری نسل، وہ لوگ جو ۸۰ کی دہائی میں سکول داخل ہوئے، کے ساتھ سب سے بڑا ظلم جنرل ضیاء نے کیا، ظلم ایسے کہ، اس نے ہمارا نظام تعلیم اسلامیات کے محور کے گرد گھما دیا، اب ہم ساری عُمر اخلاقیات کے فضائل اور رذیل عادتوں کے نقصانات پڑھ پڑھ کر جب عملی دنیا میں آئے ہیں تو علم ہوا کہ یہاں تو وہ کامیاب ہے جو جھوٹ بولنے، امانت میں خیانت کرنے، دوسروں کا حق مارنے اور اس طرح کی دوسری حرکتوں میں ماہر ہے۔ ہم لوگ تو یہ کام کرنے کا سوچتے ہیں تو ذہن میں آیات اور احادیث گھوم جاتی ہیں جن میں یہ حرکتیں کرنے سے یا تو منع کیا گیا ہے، یا پھر ان کی سزا سنائی گئی ہے، چُنانچہ ہم ایسی حرکتیں کر نہیں سکتے اور پیچھے رہ جاتے ہیں’

اس ساری بات کے پیچھے ایک ایسے ذہن کی اُلجھن ہے جو عملی زندگی میں کامیاب ہونا بھی چاہتا ہے اور یہ بھی چاہتا ہے کہ اُسے اچھے طریقے سے یاد کیا جائے۔ نیک نامی اور ایمانداری ہمارے معاشرے میں دو متضاد چیزیں ہیں، ایماندار شخص کبھی بھی نیک نام نہیں ہو گا، پِیٹھ پیچھے ہمیشہ بُرے الفاظ سے یاد کیا جائے گا، اور اگر کوئی شخص بہت نیک نام ہے تو اس کا مطلب کچھ اور لیا جاتا ہے۔
زیا دہ مشکل نہیں آپ اس تھیوری کو آج سے ٹیسٹ کرنا شروع کردیں۔ آپ حیران ہونگے ، کہ ہمیں روزانہ کتنی مرتبہ اپنے اصولوں پہ سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے، صرف اس لئے کہ کوئی خفا نہ ہو جائے۔
بے شک حکومت کو یا کسی اور کو نقصان ہو، ہم سے فُلاں شخص خفا نہ ہو۔

یہ ساری تمہید ایک طرف، اب میں آپ سے پوچھناچاہتا ہوں کہ اگر آپ کو کوئی شخص زِک دے جائے جو آپ سے کسی بھی صورت ہم پلہ نہ ہو، اور آپ بدلہ لینے کے بھی قابل نہ ہوں تو آپ کیا منتخب کریں گے؟ کتابیں تو یہ کہتی ہیں کہ عفو و درگزر اچھی چیز ہے، اور اللہ نے بھی قرآن مجید میں معاف کرنے والوں کا اچھے پیرائے میں ذکر کیا ہے، مگر آپ اس دِل کی تسلی کے لئے کیا کریں گے جو انتقام چاہتا ہے؟

6 thoughts on “تمھیں تو میں دیکھ لوں گا۔۔”

  1. عنیقہ ناز

    اگر عفو و درگذر پہ ساری زندگی کی کہانی چل سکتی ہوتی تو معاشرے کے لئے مکتلف قوانین کیوں بنائے جاتے. یہ یاد رہے کہ قرآن پاک میں نماز اور روزے سے بحی زیادہ جس چیز پہ زور دیا گیا ہے وہ عدل اور انصاف ہے. عیسائ حضرت عیسی کے اس قول کا پرچار کرتے ہیں کہ کوئ اگر تمہیں ایک تھپڑ مارے تو دوسرا گال اس کے حضور میں پیش کر دو. جبکہ اسلام میں انسانوں کے درمیان ھقوق پہ بہت زیادہ زور دیا گیا ہے. مھض محبت کا نعرہ انسانوں کو قریب نہیں لا سکتا. بلکہ انصاف کا مظاہرہ ان کے درمیان اعتماد کا باعث بنتا ہے. اس چیز کو آپ اپنے گھر میں لگا کر دیکھ لیں. ایک دن میں نہیں تو ایک ہفتے میں پتہ چل جائے گا.
    دل انتقام نہیں چاہتا، اکثر اوقات وہ صرف ایک معصوم سا سوال یہ پوچھتا ہے کہ اس کے ساتھ ایسا کیوں ہوا. میرے ساتھ یہ زیادتی کیوں ہوئ. ھالانکہ میں بھی ان کے جیسا ہی ہوں.

  2. میاں محمد بخش نے کہا تھا
    لسے دا کی زور محمد
    نس جانا یا رونا
    (کمزور کے بس میں کیا ہوتاہےِ؟ بھاگ جانا یا رونا)
    قرآن میں اس مفہوم کی آیت بھی ہے کہ قصاص میں انسان کے لئے زندگی ہے
    تو انتقام تو لینا ہی چاہئے…
    لیکن اگر طاقت نہ ہوتو انتظار کرے بندہ
    اور بھولے نہ اپنے اوپر ہوئے ظلم کو
    تو ایک دن پھر آتا ہے ایسا کہ پوزیشن بدل جاتی ہے پھر
    بندہ اپنییاں ریجاں لائے….

  3. میرا پاکستان

    ایک وقت تھا محلے میں پٹواری، تھانیدار اور بدمعاش کا گھر مشہور ہوتا تھا اب یہ وقت ہے کہ ماسٹر، امام مسجد کا گھر مشہور ہوتا ہے. واقعی وقت بہت بدل گیا ہے اور ہم لوگوں کی اکثریت پٹواری اور تھانیدار کی راہ پر چل پڑی ہے.

  4. افتخار اجمل بھوپال

    جناب ۔ میں نے ساری عمر ميں اگر کبھی اپنے اصول پر سمجھوتا کيا ہے تو وہ کسی کی انسانی ہمدردی کے لئے ۔ اپنے معاملے ميں نے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی مدد اور رحمت سے کبھی ايسا نہیں کیا ۔ درست ہے کہ میں نے مادی نقصان اُٹھایا ليکن اللہ کے فضل سے ہمیشہ سر اُٹھا کر چلتا رہا

  5. DuFFeR - ڈفر

    آپ کی بتائی گئی صورت میں عفو و درگزر سے کام لینا مجبوری ہو گی
    مطلب مفت کا ثواب
    یہ حال ہو گا کہ ایک شیخ صاحب سے ایک کتا روٹی لے کر بھاگ گیا
    شیخ صاحب نے بہت دور تک اس کا پیچھا کیا
    لیکن جب تھک گئے تو رکے اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا کی
    یا اللہ اس روٹی کا ثواب ابا مرحوم کو دینا
    تو دراصل اس کو کہتے ہیں
    مجبوری کا نام شکریہ
    ویسے میں ان کو بھی اکثر معاف کر دیتا ہوں جن پر اختیار بھی ہو
    کہ میرے دماغ میں بھی وہی بات پھنسی ہوئی ہے جس کا آپ کے دوست نے ذکر کیا تھا

  6. میرے خیال میں معاف اسی کو کریں جس سے بدلہ لینے کی طاقت ہو۔
    باقی اپنے دوست کے دوست سے کہیں کہ جسطرح کی زندگی وہ گزارنا چاہتے ہیں اسکے لئے امریکا، یورپ یا آسٹریلیا وغیرہ چلے جائیں، یہاں تو شائد ممکن نہیں۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں