Skip to content

بڑے ہو کر کیا بنوگے؟

انٹرویو کے دوران بچے سے پوچھا گیا کہ تم بڑے ہو کر کیا بنوگے؟ جواب ملا ڈاکٹر، دوسرا سوال کیا گیا وہ کیوں؟ جواب دیا گیا دکھی انسانیت کی خدمت کے واسظے، شاباش کی آواز کے ساتھ پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا-

مگر جونہی وہ بچہ ڈاکٹر بن گیا تو وہ جذبہ وہ عزم کہاں غائب ہوگیا؟ جو اب دیہات میں ہونے والے آرڈرز کو منسوخ کروانے کے لئے ہر جائز و ناجائز ذریعہ اختیار کرکے شہر کے سب سے بڑے ہسپتال میں ٹھہرنے کے چکر میں سرتوڑ کوشش کر رہا ہے تاکہ گھر کے پاس رہے اور جلد از جلد قریبی کلینک میں پہنچ سکے-

یہ ہے اقتباس روزنامہ آج پشاور کے 17 دسمبر 2009 میں چھپے ملک ناصر داؤد کے ایک شاہکار تحریر بعنوان “مانسہرہ کے رکن قومی اسمبلی فیض محمد خان کی موت کا ذمہ دار کون؟” سے- آئیے آج اس کالم کے خد و خال پر ایک نظر ڈالتے ہیں-

مضمون میں عزت مآب لکھتے ہیں کہ

فیض محمد خان کو انتہائی تشویشناک حالت میں پمز ہسپتال اسلام اباد پہنچایا گیا جہاں اُن کو آئی سی یو کی بجائے پرائیویٹ وارڈ لے جایا گیا

اب ناصر صاحب کے معلوماتِ عامہ میں اضافہ کرنے کے لئے یہ بتاتا چلوں کہ پرائیویٹ وارڈ میں داخلہ یا تو مریض یا پھر لواحقین کی خواہش پر ہوتا ہے- عام طور پر با اثر افراد ہسپتال پہنچتے ہی ڈیوٹی پر موجود میڈیکل آفیسر سے پرائیویٹ وارڈ کا مطالبہ کرتے ہیں- جو کہ اس کے اختیار میں نہیں ہوتا- اکثر اوقات یہ معاملہ گالم گلوچ، دھونس دھمکی اور مار پیٹ تک جا پہنچتا ہے- یہاں یہ بات بھی بتاتا ضروری ہے کہ پمز ہسپتال کی انتظامیہ نے بھی یہ مؤقف اپنایا ہے کہ مریض کے لواحقین آئی سی یو کی بجائے پرائیویٹ وارڈ پرضد کرتے رہے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے رہے- اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملک صاحب نے تحریر سے پہلے زحمت نہیں اٹھائی کہ کے کسی قریبی بڑے ہسپتال جا کر پرائیویٹ وارڈ میں داخلہ کا طریقِ کار دریافت کرے یا اپنے کسی دوست سے پوچھے- کرتا بھی کیوں جب گھر بیٹھے دو تین اخباری رپورٹوں اور نجی ٹی وی چینلوں کے سامنے بیٹھ کر بآسانی ایک کام بھی ہو سکتا ہے- کالم تو ویسے ہی چھپتا ہے اور لوگ بھی پڑھیں گے- پھر عوام الناس میں خاطرخواہ نیک نامی بھی ہوگی- دنیا کے ساتھ آخرت بھی سنور سکتا ہے-

مزید آگے جا کر ملک صاحب لکھتے ہیں:

سانس کی تکلیف کو رفع کرنے والے آلہ کی عدم دستیابی یا اس کی خرابی بظاہر اس کی موت کا سبب بنی-

کوئی تو پوچھے آلہ کی خرابی یا عدم دستیابی میں اس ڈاکٹر کا کیا قسور ہے جس کے بچپن کے جذبات سے لے کر بڑے ہسپتال میں تعیناتی کا آپ نے پوسٹ مارٹم کیا- زخم دے کر نمک پاشی کا بھی انتظام کیا-

ناصر صاحب کہتے ہیں کہ سرکاری اداروں میں کروڑوں روپے کی آنے والی ادویات کچھ با اثر لوگوں کو مل جاتی ہیں یا پھر یونین کے نمائندے شاید اپنا حصہ وصول کر لیتے ہوں- تو جناب ایک طرف تو معاملہ زیر. بحث عام لوگوں کا نہیں ہے بلکہ چوٹی کے تین سو بیالیس ہستیوں میں سے ایک ہے- اور موت کی وجہ بھی ادویات کی عدم دستیابی نہیں بلکہ یا تو بقول آپ کے پرائیویٹ وارڈ ہے اور یا پھر تنفس کے آلے کی عدم دستیابی- اگر یہ کالم میں مرچ مصالحہ ڈالنے کی کوشش ہے تو میڈیا کی بے لگام آزادی کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے جائز قرار دیتے ہیں- دوسری بات یہ کہ فنڈز اور ادویات پر صرف ہسپتال انتظامیہ کا حق ہے- دکھی انسانیت کے جذبے کو زبان پر لانے والے بچے یا اس کے نتیجے میں تخت شاہی تک رسائی کرنے والے گریڈ 17 کے ڈاکٹر کا اس جگہ داخلہ بھی ممنوع ہے جہان ان فنڈز اور ادویات کی مبئینہ بندر بانٹ ہوتی ہے- انتظامیہ میں زیادہ تر نان میڈیکل سٹاف ملوث ہوتا ہے- ایک یا دو ڈاکٹر بھی اگر ہوں تو وہ بھی نان پریکٹسنگ ہوتے ہیں- ان کی نہ رات کی ایمرجنسی دیوٹی لگتی ہے، اور نہ جلد از جلد قریبی کلینکس کا رخ کرتے ہیں- نہ ہی دیہات میں ان کے آرڈر ہوتے ہیں- یونین کے نمائندوں کی مجھے سمجھ نہیں آئی تاہم اگر اس سے مراد ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹرز ہیں تو ایک ذاتی تجربہ پیش کرتا ہوں کہ اپنے والدین کے اپریشن پر آنے والے اخراجات کے بل پاس کرنے کا مجھے وقت ہی نہ ملا اور سال گذر گیا- صبح وارڈ، پھر او پی ڈی پھر اپریشن تھیٹر، درمیان میں اگر پانچ دس منٹ ملے تو کلرک غائب- اگر شکایت کروں تو ایپکا-

کالم نگار آگے فیض محمد خان اور مسز ہما وسیم اکرم کیسز میں مماثلت کی لکیریں کھینچتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر موجود نہیں ہوتے اور ان کی ساری توجہ پرائیویٹ کلینک پر ہی رہتی ہے- نتیجتا” لوگ عطائیوں کے ہاتھوں مرتے ہیں– عجیب مرحلہء فکر ہے- کیا رکن قومی اسمبلی اور عالمی شہرت یافتہ وسیم اکرم سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی عدم موجودگی پر دل برداشتہ ہو کر عطائیوں کے پاس گئے اور موت کو گلے لگا یا؟ یا پھر عظائیوں نے ڈاکٹروں کی عدم دستیابی کا فائدہ اٹھا کر ہسپتال کی سیٹوں پر قبضہ جمایا؟ یا پھر عطائیوں کے اڈے “قریبی کلینکس” سے زیادہ قریب تھے-

ہما وسیم کیس میں بائیس ڈاکٹروں کے خلاف انکوائری پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مجاہدِ معرکہءِ قلم کمان یوں تو ہر شعبہء زندگی سے نالاں ہے مگر شعبہء صحت کی انحطاط نے حد درجہ پریشان کیا ہے- اور ڈاکٹروں کو تمام مسائل کا جڑ قرار دیتے ہوئے حل یہ بتاتا ہے کہ:

1. ڈاکٹروں کا مریضوں سے رویہ بدلنے کی سنجیدہ کوششیں ہونی چاہئیں-
2. ڈاکٹروں کو اپنا رویہ تبدیل کرکے “دکھی انسانیت” کو مزید دکھ دینے کی بجائے مسیحا کا کردار ادا کرنا “ہوگا-

  • ڈاکٹر ارشاد علی

.

.

(ڈاکترز اپنے فرائض کس طرح ادا کرتے ہیں اور کن کن دباؤ کا شکار رہتے ہیں؟ مختلف آفات اور سانحات میں پاکستانی ڈاکتروں کا کیا کردار رہا ہے اور کون کون سے ممالک اس کا اعتراف کرتے ہیں؟ آزاد عدلیہ، بے لگام میڈیا، خادمِ اعلیٰ کی خادمیت اور خلق. خدا کی راج ڈاکٹروں پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں؟ ان سب کی تفصیلات کسی اور مراسلے میں پیش کی جائینگی-)

2 thoughts on “بڑے ہو کر کیا بنوگے؟”

  1. جناب کیا ڈاکٹرز پیسے کی لعنت سے آزاد ہیں؟
    اگر وہ اس لعنت سے آزاد ہوتے تو ہر دیہات میں ڈاکٹرز ہوتے۔

  2. میں نے آج ہی لکھا ہے کر گذریئے لیکن ۔ ۔ ۔
    اتفاق ہے کہ آپ کی تحریر سے مطابقت رکھتا ہے یا یوں کہیئے کہ یہ سب کچھ جو آپ نے لکھا ہے یح کیوں ہے ؟ جواب میری تحریر پر غور کرنے سے مل جائے گا
    .-= افتخار اجمل بھوپال´s last blog ..چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کر گزریئے ۔ لیکن ۔ ۔ ۔ =-.

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں