Skip to content

بڑےلوگ

کل جب ہم ایوب میڈیکل کالج کے سیمینار ہال میں میڈیکل اخلاقیات پر دو روزہ کانفرنس کے دوسرے دن کےتیسرے سیشن کے لئے داخل ہوئے تو ہا ل بھرا بھر ا سا لگا۔  مجھے یہ بات عجیب سی لگی کیونکہ اس وقت تک کافی شرکاء تھک جاتے ہیں اور ایسی  کانفرنسوں میں اکثر شرکاء باہر گپ شپ لگاتے یا چائے پیتے نظر آتے ہیں۔

 

اپنی جگہ پر بیٹھا تو ایک دوست نے میری توجہ ان لوگوں کی طرف دلائی جو کہ حلیے سے نہ تو ڈاکٹر نظر آتے تھے، نہ ہی میڈیکل کے طالبعلم۔ بلکہ یہ تو عام سے لوگ تھے، جن میں ایک قدر مشترک تھی، وہ یہ کہ ہر ایک نے ہاتھ میں موٹے دنوں والی تسبیح پکڑ رکھی تھی، کچھ لوگ تسبیح کے دانوں کو گھما بھی رہے تھے، مگر اکثریت نے دائیں ہا تھ پر تسبیح کو گھما کر پہن رکھا تھا۔ غور سے دیکھا تو ہال میں ان لوگوں کی تعداد کافی تھی۔ اِس دوست نے یہ بھی بتایا کہ یہ سب لوگ ایک آدمی کے ساتھ آئے ہیں اور یہ کہ ان میں سے تقریبا ہر ایک اس شخص کے ہاتھ چوم رہا تھا۔ میرے ذہن میں یہی بات آئی  کہ کوئی پِیر صاحب ہوں گے ، مگر اس وقت حیرانی ہوئی جب علم ہوا کہ موصوف کلین شیو ہیں۔

بہر حال شام چھے  بجے نئے وقت کے مطابق جو کہ آج پرانا ہوچکا ہے ، موصوف کی تقریر شروع ہوئی ، تقریر کا موضوع غالبا  تھا وسطی ایشیا میں نئی گریٹ گیم اور اس کا پاکستانی معاشرے پراثر۔

 

میں جناب کے انداز بیان سے بہت متاثر ہوا اور چونکہ ان سے میرا غائبانہ  تعارف اس لئے بھی تھا کہ میں اکثر اخباروں اور مضامین میں ان کا حوالہ پڑھتا رہتا ہوں، ، پھر میرے ایک مربی استاد ان سے بہت متاثر ہیں اور مجھے ان کی باتیں سنا کر آتش شوق کو ہوا دیتے  رہتے ہیں، لہٰذا اس تقریر میں میری دلچسپی کا پیدا ہونا ایک فطرتی امر تھا۔موصوف چونکہ ایک مصروف شخصیت ہیں، لہٰذا ان کی موجودگی کو ہی باعث افتخار سمجھا گیا اور اس بات پر کسی کی توجہ نہ گئی کہ  جتنا وقت بھی وہ بولے، موضوع سے ہٹ کے بولے۔ ان کازور ڈاکٹرز کی دوسرے پیشوں پر اخلاقی برتری پر تھا اور انھوں نے ان کو مسیحا ثابت  کرنے کی کافی کوشش کی۔ مجھے حیرانی اس وقت ہوئی جب مغرب کی نماز کا وقت ہوا اور موصوف بولتے رہے۔  ہم مغرب کی نماز پڑھ کر وپس آئے تو موصوف اسی جوش و خروش  سے بول رہے تھے، اور اب وہ اپنی کسی پیش گوئی کی بات کر رہے تھےجو کہ  پاکستان کے موجودہ حالات کے بارے میں تھی اور انھوں نے اگلے تین سے چھے مہینوں کا ذکر کیا۔  اس سلسلے میں ایک حدیث مبارک کا ذکر بھی آ گیا جو کہ غزوۃ الہند کے بارے میں ہے، بہر حال، ہال میں موصوف کے بارے میں چہ مگوئیاں شروع ہو چکی تھیں۔  نماز کا وقت گزرتا چلا گیا، موصوف اپنی حکمت اور دانش کے موتی بکھیرتے رہے، اور مجھے اعتراف ہے کہ میں ان جیسا علم اور مطالعہ نہیں رکھتا،  کاش میں ایسا کر سکتا۔

رات آٹھ بجےتک آپ کی تقریر جاری رہی، آپ کے کچھ معتقدین نے اس تقریر کو فلمانے کا باقاعدہ بندوبست کیا ہوا تھا، تمام مریدین اس دوران اپنی جگہ سے نہیں اٹھے۔ ان میں سےبہت کم لوگ ایسے تھے جو مغرب کی نماز کے لئے اٹھے اور انھوں نے بھی انفرادی نماز پڑھی۔

عشاء کا وقت شروع ہوا اور جناب تشریف لے گئے۔ اس کے بعد کے  وقفے کے دوران جس سے بھی میری بات ہوئی اس کا کم و بیش یہی کہنا تھا کہ جو شخص اپنی بات نماز کے لئے نہیں چھوڑ سکتا، اس کی باقی باتوں کا کیا اعتبار؟  جو شخص نماز پر اپنی ذات کو ترجیح دے وہ کیسا مصلح؟

مجھے تو ان مریدین پر بھی بہت ترس آیا جو شائد فلاح کے چکر میں ایک عدد وظیفےکے پیچھے پڑ گئے ہیں اور انھوں نے پیر و مرشد کی رضامندی کی خاطر نماز چھوڑ دی۔یہ  شخصیت  آپ میں سے بہت سوں کی جانی پہچانی ہے، اور ان کا نام ہے پروفیسر احمد رفیق اختر ۔  ان کے بارے  میں یہاں یہاں اور یہاں دیکھا جاسکتا ہے۔ تفصیلی معلومات کرنی ہوں تو گوگل سے آپ کو ان کے  خلاف اور ان کے حق میں بہت سے تحاریر مل جائیں گی۔

مگر میں خوش ہوں کہ  مجھے بہت دنوں تک ان کی تحاریر نہ پڑھنے کا جو قلق تھا، اب نہیں رہے گا۔

17 thoughts on “بڑےلوگ”

  1. ڈاکٹر صاحب آپ نے تو میرا سارا رومانس ختم کردیا جو ہارون الرشید نے بڑی محنت سے اور بہت سالوں کی کوشش سے بنایا تھا
    میں نے ان صاحب کی کچھ کتب پڑھی بھی ہیں، لیکن آپ کی گواہی کے بعد دل کھٹا ہوگیا ان سے
    اور آپ اپنے بلاگ کی تھیمز اتنی جلدی بدلتے ہیں کہ اتنی جلدی تو عربی لوگ بیوں نہیں بدلتے۔۔۔۔
    .-= جعفر´s last blog ..بی سی جیلانی کی ڈائری کا ایک ورق =-.

  2. یہ تو لگتا ہے وہی ہیں جنکا زکر ھارون رشید اپنے کالم میں کرتے رہتے ہیں بحیثیت اک بڑے صوفی زیرک انسان کے..لیکن آپ کی پوسٹ سے صحیح بات سامنے آگئی..

  3. جدید صوفی ازم سے لوگوں کا ایک اختلاف یہ بھی ہے کہ اکثر علمبرداروں کی نظر میں طریقت کے آگے شریعت کی اہمیت نا ہونے کے برابر ہے۔ ایک مرید تو یہاں تک کہتا سنا گیا کہ حضرت –[ کوئی دوسرے یہ نہیں جن کی بابت آپ نے بات کی ہے ]– مدینے میں نماز ادا کررہے ہیں اور ساتھ ساتھ واعظ بھی جاری ہے۔ خیر

    واپسی مبارک ہو جناب۔۔ بڑے عرصے بعد آپ کی آمد ہوئی۔۔ اور پوری سائٹ بدلی بدلی اور نکھری نکھری اچھی نظر آرہی ہے۔

  4. غلط،دوغلے اسلام نہیں دوغلے مسلمان مردہ باد!

  5. جی عنیقہ :: اب کوشش کروں گا کہ باقاعدگی سے لکھوں. مگر ابھی بھی بہت سا کام رہتا ہے.

    فارغ :: جی جناب ، مجھے بھی پورا یقین ہے کہ یہ وہی صاحب ہیں جن کا ذکر ہاروں الرشید صاحب کرتے رہتے ہیں پتہ نہیں کن کن القابات سے. میں تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے اُس نے اِن کا اصل چہرہ دکھا دیا.

    راشد کامران: پسندیدگی کا شکریہ، نوازش.
    مجھے پہلے بھی طریقت والی باتیں کچھ خاص پسند نہیں تھیں، شائد اس وجہ سے کہ طریقت والی باتوں کو یار لوگوں نے اسی طرح اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا ہے. میں سمجھتا ہوں شریعت نہیں تو کچھ بھی نہیں. اور کسی بھی شخص کو جانچنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ وہ شریعت پرکتنا عمل کرتا ہے. ایک اور عالم دین ہیں اخوت بین المسلمین کے حولے سےجانے جاتے ہیں، اور کئی اداکاراؤں کے ساتھ تصویریں بھی کھنچوا چکے ہیں، ان کا بھی ایک مزیدار قصہ ہے، مگر پھر کبھی سہی.

    عارف کریم:: دوغلہ اسلام مردہ باد تو اس وقت ہو سکتا ہے جب آپ اسلام سےمسلمانوں کے روز مرہ کے بول چال اور اعمال کو مراد لے رہے ہوں. اور بحیثیت مذہب اس پر تنقید نہ کر رہے ہوں. کیونکہ اکثر ہمارے طرز عمل سے ہی ہمارا مذہب جانا جاتا ہے.

  6. آپ نے تو موصوف کلین شیو کی بات کی ہے۔ میں تو مولویوں کی بات کرتا ہوں
    میرے استاد مجھے اکثر بتایا کرتے تھے کہ ہر جمعرات کو عصر کے بعد راولپنڈی مڑیر چوک ہمدرد ہال میں قرآن و حدیث کا کورس ہوتا ہے جو کہ بلکل فری ہوتا ہے۔ آپ بھی اس میں شرکت کیا کریں۔ میرا پالا اکثر بیشتر مولویوں سے ہی پڑتا تھا کیونکہ میں کچھ مذہبی تنظیموں کا رکن تھا۔

    ایک دن جمعرات عصر کی نماز کے بعد میں بھی اپنے استاد جی کے ساتھ وہاں چلا گیا۔ تقریباَ مغرب کے قریب درس شروع ہوا اور عشاء کے بعد ختم ہوا اور اس دوران نماز کے لیے تو دور آزان کے لیے خاموشی بھی اختیار ناکی گی

  7. جعفر :: مجھے اس قسم کے ایک دو تجربے ہوئے تھے، اس کے بعد میں نے ہر کسی کو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا ہے. اور اس شک میں مجھے ہی اکثر فائدہ ہوا ہے.
    🙂
    رہ گئی بات تھیم کی تو اس میں تو حق مہر نہیں دینا پڑتا نا، آخر پاکستانی ہوں میں. اب انشاء اللہ شائد یہی تھیم رہے، مگر ایک تجربہ اور باقی ہے. 🙂

    خرم شہزاد خرم :: آمد اور تبصرے کا شکریہ، میں تو مولویوں پر تنقید اس لئے نہیں کرتا کہ اب ان میں اچھے لوگ کم ہی رہ گئے ہیں. اور پھر باقی دنیا، اور سیڈو انٹلکچوئل ہیں نا ان پہ تنقید کرنے کے لئے؟ میں کیوں وقت ضائع کروں
    ؛)
    یہ نئے ڈرامے جو ہیں نا یہ زیادہ خطرناک فتنے ہیں، مولویوں کا تو ہمیں پتہ چل جاتا ہے، ایک خاص روٹین ہے اور اگار وہ اس روٹین سے ذرا بھی ہٹے تو پتہ لگ جائے گا. یہ جو لوگ ہیں اسلام کی ایک نئیروشنی کے حوالے سے، یہ لوگ زیادہ خطرناک ہیں.

  8. عثمان خان

    پروفیسر احمد رفیق اختر کے متعلق کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے۔۔۔۔
    آپ حضرات سے تصوف کی تعریف سننا چاہوں گا؟
    صوفی ازم ہے کیا۔۔۔۔؟
    اور مولوی نے فساد کے سوا ہمیں کیا دیا؟
    آپ سب غلطی پر ہو۔۔۔ کسی بھی انسان کو غلط ثابت کرنے کے لیے، اُس کی تصانیف کا مطالعہ ضروری ہے۔۔۔۔ آپ نے پروفیسر کی کون سی کتاب پڑھی ہے؟ اب تک بیس کے قریب کُتب شائع ہو چکی ہیں؟
    کیا آپ جانتے ہیں کہ علم السماء کیا ہے؟ کیا پندرہ سو سال میں کوئی علم السماء کا استاد آیا؟
    ابن عربی کون ہے؟ شیخ اکبر کون ہے؟ اور وہ کہاں گیا۔۔۔۔؟ اُس کی تعلیمات میں پروفیسر کی تعلیمات کا عکس دیکھا جا سکتا ہے۔۔۔ لیکن اُسے فراموش کر دیا گیا۔۔۔۔؟
    دُکھ ہوا۔۔۔ آپ سے کس نے کہہ دیا، لباس اللہ کو پسند ہے؟
    چلو کوئی حدیث ہی سنا دو۔۔۔کہ خدا ظاہریت کو دیکھ کر جنت دے گا۔۔۔۔؟

    1. جناب عثمان صاحب: بلاگ پر آنے کا شکریہ .
      تصوف اوراس کی اصطلاحوں کی آڑمیں اسلام کوبہت نقصان پہنچایاگیا ہے۔ملا کوتو آپ فساد پھیلانےکا الزام دےکر ایک طرف ہو جاتے ہیں۔مگریہ بھول جاتے ہیں کہ اسکے باوجود آپ اسلام کی بنیادی تعلیمات پر عمل کےپابند ہیں۔ صوفی ہونے کامطلب یہ نہیں کہ آپ دین کے متعین کردہ فرائض کی بجا آوری سےبری الذمہ ہو گئے ہیں۔

      صوفی ہونا اپنی جگہ،ان بڑے ناموں کاذکر اپنی جگہ، ان کی خدمات اپنی جگہ، مگرنماز پھر بھی فرض ہے۔
      نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز مومن اورکافر کے درمیان فرق ہے۔ انسان چاہے جتنا بڑا مجاہد و فلسفی بن جائے، اگر نمازکی پابندی نہیں توپھر سب کچھ فضول ہے۔

      اتنی بڑی بڑی اصطلاحوں کےاستعمال کے باوجود،آپ کےروئیے سےمجھے چنداں حیرانی نہیں ہوئی۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں