Skip to content

بول بچہ جمورا

عدالت عظمی کا فیصلہ آ چکا تھا اور سب لوگ اپنے قیاسات کے گھوڑے دوڑا کر مستقبل کے بارے میں کوئی اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہر ایک این آر او اور اس کے بعد کی پیدا ہونے والی صورتحال پر مضطرب دکھائی دیتا تھا، اور اپنی سیاسی وابستگی اور سمجھ بوُجھ کے مطابق بات کرتا نظر آرہا تھا۔

ہمارے وہ دوست جن کی سیاسی تربیت اسلامی انقلابی خطوط پر ہوئی ہے، اس بات پر متفق تھے کہ اب اسلامی انقلاب ہی وہ واحد حل ہے جو اس وقت تمام مسائل کو ختم کر سکتا ہے۔ ان کے پاس سب سے طاقت ور دلیل غیر مذہبی سیاسی جماعتوں کی کرپشن اور ان سے منسوب لوُٹ کھسوٹ کے کارنامے تھے۔

ان کی باتیں بہت اچھی اور دل میں گھر کر جانے والی تھیں، مجھے اپنی قوم کی بے حسی پر رونا آیا کہ صالح لوگوں کو چھوڑ کر ہم ہر بار فاسق لوگوں کو انتخابات میں منتخب کرڈالتے ہیں اور نتیجہ پہلے سے زیادہ کی لوٹ کھسوٹ کی شکل میں نظر آتا ہے۔

یہ سوال اپنی جگہ پرہےکہ ہم آخر کار مذہبی ہونے کے ناتے سے اور مذہب پر جان قربان کرنے کے حوالے سے سب سے آگے ہونے کے باوجود ، الیکشن میں ان صالح لوگوں کو نظر انداز کیوں کر دیتے ہیں؟

اس وقت مجھے بہت الجھن ہو رہی ہے:۔

کیا اسلام پر عمل کرنے کے لئے اسلامی حکومت کا ہونا ضروری ہے؟

اگر مندرجہ بالا سوال کا جواب نفی میں ہے اور ہم پکے ، با عمل مسلمان ہیں تو پھر مذہب کے نام پر سیاسی جماعتوں کا وجود کس لئے ہے؟

اگر مندرجہ بالا سوال کا جواب نفی میں ہے اور ہم پکے ، با عمل مسلمان نہیں ہیں تو پھر مذہب کے نام پر سیاسی جماعتیں کیا کرتی رہی ہیں؟

اگر ہم نے ان مذہبی سیاسی جماعتوں کا وجود اس لئے قائم رکھا ہوا ہے کہ ایک اچھے اسلامی نظام کی تشکیل کے لئے ان کی موجودگی ضروری ہے تو پھر ان میں سے کس کو ووٹ دیں؟

کونسا اسلام؟

اور بالفرض ان مذہبی سیاسی جماعتو ں کی منزل ایک ہی ہے اور ان کے اختلافات نظر انداز کئے جا سکتے ہیں تو پھر ان کو موقع کیوں نہیں دیتے ہم لوگ؟

7 thoughts on “بول بچہ جمورا”

  1. اگر آپ مجھے معاف کرسکیں تو عرض کرتا ہوں کہ اسلام کا تو لالی پاپ عوام کے منہ میں دیا جاتا ہے کہ بچو جمورو چوستے رہو۔۔۔۔ چوستے رہو۔۔۔ اسلام نافذ کرنا یا اس پر عمل کرنا ان لوگوں کا مسئلہ نہیں۔۔
    ان کا مسئلہ ہے اقتدار اور پھر لوشے۔۔۔
    ہیں جی۔۔۔
    .-= جعفر´s last blog ..دودھ کا جلا =-.

  2. سلام

    جو مذھبی جماعتیں اس وقت سیاست میں ھیں وہ مذہب کے لیے کیا کر رھی ھیں‌؟؟ اسلام اسلامی نظام کا شور مچاتی ھیں جن علاقوں میں
    انھیں سٹیں ملیں ھیں انھوں نے اب تک کیا کیا ھے ؟؟ان کے اپنے کردار کیا ھیں‌؟؟ ان کے پاس ایک دم دولت کیسے آجاتی ھے ؟؟؟
    جتنے مدرسے اور مسجدیں اس قوت پاکستان میں ھیں اس حساب سے
    کہیں کوئ گندگی نہیں ھونی چاھیے کیونکہ صفائ نصف ایمان ھے بے ایمانی اور جھوٹ بھی نہیں ھونا چاھیے صدقات اور زکوت جتنے دئے جاتے ھیں پاکستان میں کوئ غریب نہیں ھونا چاھیے اسلام عمل کا نام ھے اسکولوں اور مدرسوں کے طالبعلموں میں شعور بیدار کرنا چاھیے دلوں میں اللہ کا خوف ھو انصاف ھو تو ھر نظام اسلامی ھے یورپ میں اسلامی حکومت نہیں مگر کوئ بھوکا نہیں مرتا بے ایمانی اور رشوت اقربا پروری بھی ایسی نہیں جتنی پاکستان میں ھے ھم اسلام کے کیے زندگی قربان کر سکتے ھیں مگر اسلامی تعلیم کے مطابق زندگی نہیں گزار سکتے
    .-= sadia saher´s last blog ..قرض دار اور خواجہ سرا =-.

  3. میرے خیال میں اسلامی نظام حکومت نام کی کسی بھی چیز کا نفاذ مزید کرپشن اور لاقانونیت کو فروغ دیگا۔ اور اگر پاکستانی اسلام پر عمل پیرا نہیں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلامی نظام کا نفاذ بھی نہیں چاہتے۔  پاکستانیوں کو اب یہ بحث تج دینی چاہئے اور قومی توانائی اور فکر کا رخ ایک پاکستانی طرز کے سیکولر نظام کی تشکیل کی طرف مرتکز کرنا چاہئے۔

  4. سب سے پہلے یہ کہ ایک نام نہاد اسلامی حکومت جنرل ضیاءلحق کے زمانے میں قائم کی گئ تھی۔ اور اسے اس وقت ان تمام مذہبی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ انکی مجلس شوری میں بہت سارے مذہبی جماعتوں کے نمائندے موجود تھے۔ اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مذہبی جماعتوں کے ہاتھ حکومت نہیں آئ۔ اسکے اثرات نے پاکستان کی سیاست، معاشرت اور معیشت سب کا رخ موڑ دیا۔ اور اب ہم سب اسکی فصل کاٹ رہے ہیں۔
    لیکن پھر بھی پتہ نہیں یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ ملک میں کبھی اسلامی حکومت قائم نہیں ہوئ۔ انکے اس پیہم انکار سے مجھے یہ لگتا ہے کہ وہ جہوری طریقے سے عوام کے ہاتھوں منتخب ہو کر اسلامی ھکومت بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن جب انکی جمہوریت سے بیزاری دیکھتی ہوں تو اس خیال کو بھی جھٹک دیتی ہوں۔
    البتہ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ مذہبی جماعتوں کو صرف پاکستان کی حکومت نہیں چاہئیے بلکہ وہ بیک وقت دنیا بھر کے مسلمانوں کی حکومت چاہتے ہیں۔یوں پورا پاکستان منظر پہ ابھر کر نہیں آتا۔ جب تک دنیا بھر کے مسلمان ایک نہیں ہو جاتے اور اس حالت پہ نہیں پہنچ جاتے جو آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے تھی۔ وہ صحیح سے ھکومت کرنے کہ قابل نہیں ہو سکتے۔
    اسکی مثال اس طرح ہے کہ ایک مریض بخار کی حالت میں ڈاکٹر کے پاس پہنچا۔ ڈاکٹر نے کہا گھر جا کے ٹھنڈے پانی سے نہا لو۔ اس سے تو مجھے نمونیا ہو جائے گا۔ مریض نے احتجاج کیا۔ جواب ملا اسی کا تو علاج مجھے آتا ہے۔
    سب لوگ اسلامی تعلیمات کا نام تو لیتے ہیں۔ لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ بنیادی اسلامی اصولوں کے علاوہ ہر چیز میں اس قدر اختلاف ہے کہ یہ طے کرنا ہی مشکل ہے کہ کونسا اسلام رائج کیا جائے۔
    اور اگر ہر شخص کی سنی جائے تو ہمیں تو اپنی لغات تک تبدیل کرنی پڑ جائں گی۔ جن میں انکے بقول اتنا خلاف اسلام مواد موجود ہے۔
    اسلامی حکوت بنانا، چلانا اس پہ ہر دور میں بحث ہوتی رہی ہے۔ یہ آجکا نیا موضوع نہیں ہے۔ ہم سے کئ سو سال پہلے علماء نے اس پہ خاصہ کام کیا ہے اور اس طرح سے مختلف طرز فکر رکھنے والے گروہ سامنے آئے۔ جنکی تصنیفات آج بھی میسر ہیں۔ اقتدار کی جنگ کوئ نئ نہیں۔
    ہمارا بنیادی مسئلہ تو عوام کو زندگی کے بنیادی حقوق حاصل ہونا ہے۔ در حقیقت اگر اس وقت مذہبی جماعتوں کو اقتدار حاصل ہو بھی جائے تو وہ کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں۔ انکے پاس موجودہ مسائل کا کوئ جامع اور ٹھوس حل نہیں۔ اور اپنی اس کمی کو وہ اسلامی نفاذ شریعت کے نعرے میں چھپانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ اسلام اس ملک کا بنیادی مسئلہ نہیں ہے۔ اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس مں دلچسپی نہیں رکھتی۔ نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔
    کرپش میں مذہبی اور غیر مزہبی ہر طرح کے عناصر شامل ہیں۔ اخلاقی خامیاں ہر طبقہ ہائے فکر میں موجود ہیں۔ کرپشن نے ضیا الحق کے زمانے میں بہت ترقی کی۔ جب سب لوگوں پہ نماز ادا کرنا فرض تھی، زکوۃ بینک کے ذریعے کاٹی جا رہی تھی اور محکمہ ء بیت المال بنایا گیا، محکمہ ء احتساب قائم کیا گیا۔ شرعی عدالتیں وجود میں آئیں۔ اسکولوں کی سات آٹھ سالہ لڑکیاں بھی ڈھائ گز کے ململ کے دوپٹے پہنا کرتی تھیں، ٹی وی ڈراموں میں اگر ہیروئین بستر پہ سو رہی ہوتی تھی تو بھی سر پہ دوپٹہ ہونا لازمی تھا۔ لوگوں کو سر عام کوڑے لگائے گئے۔ قانون بنا کہ زنا چاہے بالجبر ہو یا رضامندی سے اسے ثابت کرنے کے لئے چار گواہ ہونے چاہئیں ورنہ سزاوار صرف عورت ہوگی مرد نہیں۔ نتیجے میں پاکستانی جیلوں میں پائ جانیوالی خواتین کی اکثریت اسی جرم کی کردہ ٹہری۔ انکے زمانے کی داستانوں کو پڑھنے کے لئیے اس زمانے کے اخبارات پڑھنا ضروری ہیں۔ جو آپ کسی بھی مناسب لائبریری سے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سب کے باوجود معاشرے میں کرپشن خوب پھلی پھولی، اخلاقی برائیوں میں کوئ کمی نہ ہوئ۔
    فی زمانہ یہی عناصر طالبان کے حامی ہیں، ان میں سے جنکے اوپر خود کش بمباروں کا اخلاقی دباءو ہے وہ افغانی طالبان کے حامی ہیں۔ لیکن طالبان کے زیر اثر افغانستان میں قائم ہونے والی حکومت کے اقدامات زیادہ دور کی بات نہیں۔
    اسلامی حکومتیں، عرب ریاستوں میں بھی قائم ہیں۔ اور انکے نتائج سے بھی ہم بخوبی واقف ہیں۔
    اب کوئ بھی ذی عقل شخص جو ان تمام باتوں کو جانتا ہو۔ اسے کیا کرنا چاہئیے؟
    باسٹھ سال، جس میں ایک وقت بھی ایسا نہ ہو کہ مذہبی جماعتیں سیاست اور سیاسی پس منظر میں موجود نہ ہوں اس میں بحیثیت قوم ہمیں کیا حاصل ہوا؟
    اب بھی اگر ہم اس بحث میں الجھے رہے تو کیا ہوگا؟
    .-= عنیقہ ناز´s last blog ..کیا شہر کراچی ڈوب جائے گا؟ =-.

  5. افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دینی جماعتوں کا ماضی اتنی کوتاہیوں سے بھرا ہوا ہے کہ اب ان پر اعتماد کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ ان کو کم یا زیادہ ہر دورہ حکومت حصہ ملا، لیکن انہوں نے بھی دیگر جماعتوں کی طرح عوام سے کیے گئے وعدہ پورے نا کئے۔ یہ انہی کی وعدہ خلافیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہر طرف سے “اسلامی طرز حکومت” کے خلاف آواز بلند ہورہی ہے۔ زیادہ پیچھے نہ بھی جائیں تو مشرف دور میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد نے جو کامیابی حاصل کی اس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس اتحاد نے ایک صوبہ میں حکومت رکھتے ہوئے بھی کوئی کام ایسا نہیں کیا جس سے وہ اسلامی نظام کی طرف پیش قدمی کے لئے استعمال کرسکتے۔ اس کے برعکس انہوں نے بھی وہی کچھ کیا جو ہمارے یہاں کا سیاسی وطیرہ بن چکا ہے۔
    .-= محمداسد´s last blog ..سیاسی جادوگر =-.

  6. میں صرف اتنی ترمیم کرنا چاہوں گا کہ مذہبی جماعتوں کو اکثر و بیشتر آمروں کے زیر سایہ حکومت ملی. 2002 کے انتخابات کے بعد ایم ایم اے نے صوبہ سرحد میں مکمل اورصوبہ بلوچستان میں مشترکہ اقتدار کے مزے لوٹے.

    یہ باتیں اپنی جگہ پر، مگر محمد اسد صاحب، پاکستان کی ہر جماعت کا ماضی کوتاہیوں سے بھرا ہوا ہے، تو پھر کیا بات ہے کہ ان جماعتوں کی کوتاہیوں کو تو ہم ان پر اعتماد نہ کرنے کی دلیل ٹھہراتے ہیں مگر یہ بات دوسری سیاسی جماعتوں کے بارے میں نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا:

    محمداسد: اس اتحاد نے ایک صوبہ میں حکومت رکھتے ہوئے بھی کوئی کام ایسا نہیں کیا جس سے وہ اسلامی نظام کی طرف پیش قدمی کے لئے استعمال کرسکتے۔ اس کے برعکس انہوں نے بھی وہی کچھ کیا جو ہمارے یہاں کا سیاسی وطیرہ بن چکا ہے۔

    میرا سوال بھی یہی تھا، کہ کیا اسلامی نظام ہمارے لئے اتنا ضروری ہے کہ اس کے نام پر سیاست کی جائے؟ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمیں اپنے مذہب پر عمل کرنے سے کونسی طاقت روکتی ہے، اور کیا اگر اسلامی نظان نافذ نہ ہوا تو پھر ہم اسلام پر عمل بھی چھوڑ دیں؟

    عنیقہ صاحبہ:: پاکستان میں اسلامی حکومت قائم ہوئی یا نہیں، کتنی اسلامی حکومتیں قائم ہوئیں اور ان کے کیا مضمرات تھے، ان سب سے قطع نظر ، میرے سوالات مختلف تھے. اور آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ آزادنہ منصفانہ انتخابات میں یہی مذہبی جماعتیں نتائج کی فہرست میں سب سے نیچے ہوتی ہیں.
    اس کے بر عکس آپ دیکھیں گے کہ اگر توہیں رسالت یا توہیں قرآن کا معاملہ ہو تو یہی جوشیلی قوم سب سے آگے آگے اپنے ہی بھائیوں کی املاک کو نقصان پہنچاتی نظر آتی ہے. دنیا میں کہیں بھی کچھ ہو، گو امریکہ گو ، یا اسرائیل کے خلاف مظاہرے یہاں ہوتے نظر آتے ہیں، پھر بھی ہم انتخابات کے اہم موقع پر ان جماعتوں کو نظر انداز کر جاتے ہیں.

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں