Skip to content

اہل مذہب کے نام

ایک بات جس کا اعتراف نہ کرنا ظلم ہوگا ، یہ ہے ، کہ اس ملک میں میں، میرا خاندان ،میرے ہمسائے اور میرے شہر کے لوگ اگر دین سے واقف ہیں تو وہ مولوی کی موجودگی ہے۔

اللہ تعالی نے ہم پر بڑا کرم کیا کہ ہم میں ان افراد کو موجود رکھا جنھوں نے اپنی زندگی دین کی خاطر وقف کردی۔

یہ لوگ چاہتے تو ہماری طرح کوئی پروفیشنل تعلیم حاصل کرسکتے تھے۔ اور نہیں تو کوئی دکان ہی کھول لیتے، مگر ان لوگوں نے قربانی دی، اپنی زندگی قال اللہ و قال الرسول کے لئے وقف کی اور اس طرح آج ہم اللہ اوررسولﷺ کے نام سے واقف ہونے کے ساتھ ساتھ دین کی بنیادی تعلیمات سے آگاہ ہیں۔

قارئین اگر آپ کو یہ باتیں عجیب سی لگ رہی ہیں تو وسطی ایشیا کے نام نہاد مسلمان ممالک سے آنے والوں سے پوچھ لیں۔ جن ممالک میں باقاعدہ طور پرمدارس نہیں ہیں ان کے رہنے والوں سے پوچھ لیں کہ مسلمانوں کی معاشرتی و مذہبی حالت کیا ہے۔

گو کہ ہم بھی اسی سمت جا رہے ہیں اور ہمارا معاشرہ ترقی یافتہ ہونے کے چکر میں لباس و تہذیب کی پابندی سے آزاد ہوا چاہتا ہے، مگر اس آزادی کی رفتار مدارس اور دین کا علم رکھنے والوں کی وجہ سے سست ہے۔ ؁۱۸۵۷ کی ناکام جنگ آزادی کے بعد ، جب برصغیر پر باقاعدہ انگریزوں کی حکومت آچکی تو دینی طبقے کے سامنے دو راستے تھے۔ ایک مزاحمت کا اور ایک خاموشی سے اپنے کام کا۔ تاریخ کی باتیں گواہ ہیں کہ علماء نے دونوں راستوں کو چنا۔ اگر ایک طرف ان کے سامنے سید احمد شہید کی تحریک کی مثال تھی جو ؁۱۸۳۱میں بالاکوٹ کے مقام پر شہادت پاچکے تھے تو دوسری طرف شیخ الہند مولانا محمودالحسن تھے جنھوں نے دیوبند میں دینی تعلیم کے ایک مدرسے کی بنیاد ڈالی۔

غالبا مقصد یہ تھا کہ حکومت وقت کی مخاصمت مول لئے بغیر اپنے کام کو آگے بڑھایا جائے۔ جس طرح ؁۱۸۵۷ کی جنگ کے بعد مسلمانوں اور بالخصوص علماء کو توپوں کے سامنے باندھ کر اڑایاگیا تھا اس کے بعد ضرورت اس بات کی تھی کہ خاموشی سے اپنی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے اور اب تاریخ نے ثابت کردیا کہ یہ فیصلہ زیادہ دور رس نتائج کا حامل تھا۔

اللہ تعالی کا کرم ہوا، ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا مدرسہ بنا اور یوں اللہ تعالی نے برصغیر کے مسلمانوں کو اپنے دین سے قریب رکھا۔

دینی شعورکا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ سوچنے لگے اور سوچ مختلف آراء کو جنم دیتی ہے اور یوں ، اس بحث میں پڑے بغیر کہ کون درست ہے یا نہیں، ہم نے دیکھا کہ برصغیر میں کئی مسالک نمودار ہوئے۔ ایک نام نہاد مصلح نے تو نبوت کا دعوی تک کردیا۔

پاکستان بننے تک، اور بعد میں بھی یہ مدارس اپنی اپنی جگہ پر اپنا کام کر رہے تھے۔ کام وہی تھا جس کی ترتیب شیخ الہند مولانا محمودالحسن بنا گئے تھے۔ اور اس ترتیب میں اتنی برکت ہے کہ بعد میں بننے والے تمام مدارس میں انیس بیس کے فرق کے ساتھ یہی ترتیب کام کر رہی ہے۔

اہل مدارس کے ساتھ بالخصوص اور دینی جذبات رکھنے والے مسلمان کے ساتھ بالعموم سب سے بڑا ظلم مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت کیا جب مرحوم نے مذہب کے نام پر افغانستان کی حکومت کو مزہ چکھانا چاہا۔ معاملات کو سمجھنےکے لئے پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد کے حالات کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بھٹو مرحوم شمال مغربی سرحدی صوبہ اور بلوچستان میں بننے والی حکومتوں کو کام نہیں کرنے دینا چاہ رہے تھے اور اس لئے ان دونوں صوبوں میں حکومت آٹھ دس ماہ کے بعد بنی۔ اور جب حکومت بنی تو عراقی سفارخانے سے اسلحہ برآمدگی والے سکینڈل کے نتیجے میں بھٹو نے ان حکومتوں کو برطرف کردیاتھا۔ ؁۱۹۷۳ میں بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع ہوا تھا۔ یہ آپریشن پانچ چھے سال بعد حکومت کی طرف سے عام معافی کے اعلان کے بعد ختم ہوا۔ بلوچ مزاحمت کاروں کے پاس دوسری طرف جانے کو دو راستے تھے۔ ایران یا افغانستان۔ ایران نے تو گربہ کشتن روز اول کے مصداق پاکستان کی مدد کی۔ کچھ جنگی طیارے اور اسلحہ وغیرہ دیا کہ پاکستان بلوچ مزاحمت کاروں کو کچل سکے۔ افغانستان نے بلوچیوں کو خوش آمدید کہا۔ بلوچیوں کی وہاں موجودگی افغانستان کی طرف سے چھوڑے گئے پختونستان کے شوشے کو ہوا دے سکتی تھی۔ اور زبان و نسل کی بنیاد پر شروع ہوئی تحریک اکثر خون کا نذرانہ لے کر ہی چلتی ہے۔

غالبا یہ اسی صورت حال کا نتیجہ تھا کہ افغانستان میں موجود روس نواز حکومت کو “ڈیل” کرنے کا طریقہ مجاہدین کی صورت میں پاکستانی حکمرانوں کو سمجھ میں آیا۔ میرا یہ اندازہ اس لئے بھی درست نہیں ہوسکتا کہ ؁۱۹۷۳ میں ہی پاکستانی حکومت کی ہدایت پر پشاور میں بریگیڈیر نصیراللہ خان بابر کی زیر نگرانی چند افغان مجاہد رہنماوں کی تربیت شروع ہوئی۔ ان رہنماوں میں احمد شاہ مسعود مرحوم، برہان الدین ربانی، عبدالرسول سیاف، اور گلبدین حکمتیار شامل تھے۔ اس کے بعد افغانستان میں “اسلامی جہاد” شروع ہوا اور اگلے چند سالوں میں مجاہدین اتنی پیش قدمی کرچکے تھے کہ بقول ایک جریدے کے، “اگر روس ؁۱۹۷۹میں افغانستان میں داخل نہ ہوتا تو اگلے سال مجاہدین کابل پر قابض ہوجاتے”۔ مگر ہم لوگوں کو یہ بتایا گیا کہ روسی گرم پانیوں تک رسائی چاہتے تھے اور ان کا اگلا قدم پاکستان پر قبضہ ہوتا۔ لہذا ہم لوگوں نے اپنے غیور افغان مجاہدین بھائیوں کی مدد کی ٹھانی اور یوں افغان جہاد شروع ہوا۔

افغان خانہ جنگی کی اصطلاح مجھے زیادہ موزوں لگتی ہے اور اب میں اس کوہی ترجیح دوں گا۔ آپ چاہیں توافغان فساد کہہ سکتے ہیں۔ اس جنگ میں جس میں لاکھوں ہلاک و بےگھر ہوئے، ہزاروں معذور ہوئے، اور بہت سے لوگ جو اب بھی اپنے وطن نہیں جا پارہے اجنبیوں کی طرح دوسرے ممالک میں رہ رہے ہیں ، ایک فضول جنگ تھی۔ ریاست کو جنگ کا ایندھن بننے کے لئے پیادوں کی ضرورت تھی۔ علی الاعلان فوج تو بھیجی نہیں جا سکتی تھی لہذا کرائے کے فوجیوں سے کام لیا گیا اور مدارس سے زیادہ کون رضاکار فراہم کرسکتا تھا؟اس لئے جہاد، قتال اور اس قسم کی دوسری آیات و احادیث کی مدد لی گئی اور جذباتی مسلمان تو صرف ایک طعنے کی مار ہوتا ہے۔ بس پھر کیا تھا۔ جتنے لوگ وہاں لڑنے گئے ان کی تربیت جہاں ہوئی وہ سب اظہر من الشمس ہے۔ اس پر میں بات نہیں کرنا چاہتا۔ یہی نصیراللہ بابر مرحوم تھے جنھوں نے ؁۱۹۹۵یا ؁۱۹۹۶ میں طالبان کی بنیاد ڈالی۔ اس بار حکمران کون تھا؟ بھٹو کی بیٹی۔

طالبان کے آنے کے بعد افغانستان میں جو کچھ ہوا وہ ہم سب کو اسلئے بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ اس بار اطلاعات کا ذریعہ صرف سرکاری خبریں نہیں تھیں۔

بہت سے معصوم لوگ مارے جا چکے ہیں۔ جو زندہ رہے ہیں ان کی سوچ بدل چکی ہے۔ پاکستان کے اندر ؁۲۰۰۷ سے اب تک خود کش حملوں اور دوسرے اقدامات کے نتیجے میں جو لوگ مارے گئے ان کا خون کس کے سر پر؟

اب حالات بدل چکے ہیں۔ اب جہاد وغیرہ کچھ نہیں ہے کیونکہ فی الوقت ریاست کی یہ پالیسی نہیں ہے۔ اب ریاست ان عناصر کی بیخ کنی کر رہی ہے جو جہاد میں شامل تھے۔

آپ جتنا جلدی سمجھ جائیں کہ آپ لوگ استعمال ہوئے، اور اب مستعمل چیزوں کی طرح آپ کو دھتکارا جائے گا اتنا ہی بہتر ہے۔ آپ کا کام قال اللہ و قال الرسول کی تعلیم ہے۔ ہتھیار اٹھانا نہیں ہے۔ آپ کا کام جہاد و قتال کرنا نہیں ہے، یہ ریاست کا کام ہے۔ یہ سب ان کتابوں میں لکھا ہوا ہے جو آپ پڑھاتے ہیں اور پڑھتے رہے ہیں۔ براہ مہربانی اب تعلیم و تدریس کی طرف توجہ دیں، جن لوگوں نے اللہ کی رضا کی خاطر افغانستان میں اسلحہ اٹھایا، وہ سادگی میں وہاں گئے، کسی کو علم نہیں تھا کہ ریاستی سطح پر کیا چالیں چلی جارہی ہیں۔ ان کا معاملہ اب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ جو چاہے ان کے ساتھ کرے۔

آپ ، اساتذہ جو کرسکتے ہیں وہ بہت اعلی و ارفع کام ہے۔ آپ لوگ نئے مصلحین و مجددین کی تربیت کرسکتے ہیں۔ آپ لوگ معاشرے کی اصلاح بغیر ہتھیار اٹھائے کرسکتے ہیں۔نبی اکرم ﷺ نے بھی تو اصلاح کا کام ہتھیار اٹھائے بغیر کیا تھا۔ ہم آپ ﷺ کے اسوہ پر اس طرح کیوں عمل نہیں کرسکتے؟

آپ لوگ اب جتنی جلدی سمجھ جائیں کہ اب آپ ریاست کے نشانے پر ہیں اتنا ہی بہتر ہے۔ شیخ الہند مولانا محمودالحسنؒ کی طرح وقتی طور پر سپر ڈال دیں۔ دین کی تعلیم پر توجہ دیں۔بہت سے مسائل ہیں جو آپ لوگوں کی تحقیق کے متقاضی ہیں۔ مثلا اسلامی بینکنگ کا ہی مسئلہ لے لیں۔ آپ ، اہل علم جانتے ہیں کہ یہ ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔ اس کو جتنا جلد حل کریں اتنا ہی ہم عامیوں کے حق میں بہتر ہے۔

آپ لوگ اگر نہ رہے تو ہمارے بچوں کو کلمہ سکھانے والا کوئی نہ رہے گا۔

5 thoughts on “اہل مذہب کے نام”

  1. اچھا اور معلومات بلاگ ہے جو ہم نے سے بہت سوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ البتہ مجھے شکوہ ہے کہ آپ نے طالبان دور کا ذکر برائے نام کیا۔ اس حوالے سے بھی اپنی رائے سے آگاہ کیجیے گا۔

    1. دراصل اس تحریر کا موضوع طالبان وغیرہ کبھی بھی نہیں تھے۔
      اس لئے ان کی جگہ یہاں بنتی نہیں تھی۔ تحریر کا مقصد ان لوگوں کی خدمت میں عرض کرنا تھا جو اس سارے عرصے میں مذہب کے نام پر پیادے بنائے گئے اور اپنے تئیں سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ اپنی مرضی کے مالک آپ تھے، کہ اس وقت عزیمت سے زیادہ بصیرت درکار ہے۔

  2. ڈاکٹر صاحب ۔ ہمارے لوگ کچھ اس ڈھپ پر چل چکے ہیں کہ سچ بات کو مانے نہیں اور دھوکہ کھانے کو تیار رہتے ہیں ۔ مُخلص ہمدرد کو بیوقوف اور شاطر و منافق کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں ۔ بات تو کہنے والا کہہ گیا ۔
    گرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
    مجھے ہے حُکمِ اذاں لا الہ الاللہ

  3. ذولفقار علی بھٹو اور شاہ ایران میں ایک خاص تعلق تھا جس کے سبب شاہ ایران نے بھٹو کی مدد کی تھی ۔
    پی ٹی وی پشاور پر ایک پروگرام ہوا کرتا تھا ” ویکھدا جاندا رہ“۔ اس میں ایک شخص کہتا ”اوئے سُنیا ای /۔ پھر وہ ایک خبر سناتا“۔ سُننے والا کہتا ”یہ نہیں ہوسکتا“۔ سُنانے والا کہتا ” اخبار میں لکھا ہے“۔ تو سُننے والا کہتا ” جے اخبار کندا اے تے ٹھیک ای ہوسی“۔
    سو ہم لوگ تو اخبار کی باتوں میں یقین رکھتے ہیں ۔ حقیقت میں نہیں

    1. جی ہاں۔ ان دونوں کردارو ں میں سے ایک صلاح الدین اب مرحوم ہوچکے ہیں۔ اس دور کے اکثر فنکاروں کی طرح وفات کے وقت ان کے مالی حالات بہت خراب تھے۔
      دوسرے کردار ابھی زندہ ہیں اور ان کا نام ذہن میں نہیں آ رہا۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں