Skip to content

انقلابی عمل کی حقیقت اور معاشرتی اثرات

گزشتہ سے پیوستہ

bright horizon

inspire.org.pk

بزور بازو انقلابی عمل کو کامیاب بنانے کی کوشش در حقیقت طویل مدتی تناظر میں انتہائی پیچیدہ اور گہرے کی حامل ہوتی ہے۔ ایسے انقلابی عمل کی دعوت دینے والے، جو اقتدار کی راہ میں اخلاقی معیارات کو محض زبانی جمع خرچ کے طور پر استعمال کرتے ہیں،اکثر اپنے وعدوں اور خوابوں کی اصلیت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ایسا انقلابی عمل جلد کامیاب تو ہوجاتا ہے، مگر اس قسم کے انقلاب کے ساتھ اکثر و بیشتر یہ ہوتا ہے کہ انقلاب کے داعیوں نے جو اعلی اخلاقی معیارات قائم کرنے کے دعاوی کئے ہوتے ہیں، اور ان کے سہارے جو خواب لوگوں کو دکھائے ہوتے ہیں وہ کھوکھلے ہوتے ہیں۔ انقلاب کے داعی ، ان کے ساتھی، کارکن اور ہم نوا، غرض یہ کہ سب کے سب زبانی کلامی طور پر تو اخلاقی معیارات کے پیامبر نظر آتے ہیں لیکن ان کا عمل ان کے اندر کی چغلی کھاتا نظر آتا ہے۔

انقلابی دعویٰ اور حقیقت کا تضاد

انقلابیوں کی طرف سے بلند کیے جانے والے اعلی اخلاقی معیارات کے دعویٰ اور حقیقت میں ان کے عمل کا واضح تضاد نظر آتا ہے۔ ان کی اصلیت ان کے اقتدار کی جستجو میں چھپی ہوتی ہے، جہاں اخلاقیات اور سچائی کی بجائے اقتدار کا حصول ان کا اصل مقصد ہوتا ہے۔ یہ سب اس لئے ہوتا ہے کہ بحیثیت مجموعی، انقلابیوں نے ان اعلی اخلاقی معیارات، اور ان کے بھروسے پر ایک سہانے مستقبل کی نوید کو اپنے نصب العین کے حصول کے لئے استعمال کیا ہوتا ہے۔ ان کا نصب العین اقتدار ہوتا ہے، اخلاقیات کی تصحیح نہیں۔ اور جیسا کہ ذکر ہو چکا، ان انقلابیوں کے نزدیک معاشرے میں تبدیلی، بہتری اور ترقی اس وقت آئے گی جب ان کو اقتدار ملے گا تو وہ اخلاقی پیمانوں کی درستگی کو نظر انداز کر کے اپنے نصب العین کی خاطر جستجو کرتے ہیں۔

اس میں کچھ شک نہیں کہ عوام اپنے حکمران کی عمل کو دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں، جیسا کہ ایک عربی مقولہ ہے کہ الناس علی دین ملوکھم۔ یعنی لوگوں کا دین وہی جو ان کے حکمرانوں کا، اس لئے اقتدار کے ذریعے انقلاب کے داعیوں کی یہ بات کچھ حد تک درست نظر آتی ہے کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کے لئے اپنے ایجنڈے کے نفاذ کا کام بہت آسان ہوجائے گا۔ اور یوں ان کو اقتدار سے باہر ہوتے ہوئے کسی قسم کی پیش بینی نہ کرنے کا عذر مہیا ہوجاتا ہے۔

انقلابیوں کا اقتدار اور معاشرتی اثرات

جب انقلابی اقتدار میں آتے ہیں، تو وہ اپنے ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لیے معاشرتی و معاشی تبدیلیوں کی دعوت دیتے ہیں۔ تاہم، ان کی اس دعوت کا اثر اکثر ان کے اقتدار کی مدت تک ہی محدود رہتا ہے۔یہ اس لئے کہ انقلاب سے ہم آہنگ اخلاقی تربیت مفقود ہوتی ہے۔ انقلابی اکثر و بیشتر، سوائے چند مستثنیات کے، عملی طور پر ان اعلی اخلاقی صفات سے محروم ہوتے ہیں کیونکہ، جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا، ان کے نزدیک اخلاقی بہتری سے اہم اقتدار کا حصول ہے، اقتدار ملنے کے بعد ایک ہی بار میں سب کی اخلاقی تربیت ہو جائے گی، بلکہ معاشی اور معاشرتی تبدیلی بھی ممکن ہو سکے گی۔

لہذا ایسے انقلابی اپنی اخلاقی بہتری کی طرف بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ اور اگر ایسا ہو کہ انقلابیوں کی عملی اور زبانی اخلاقیات بہتروہم آہنگ ہوں، اور ان میں کوئی تضاد نہ ہو تو بھی آگے چل کر ان کے لئے مشکل پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ معاشرے کے بہت سے طبقات وقتی طور پر، معاشی یا معاشرتی تبدیلی کی خواہش اور بہتری کی چاہ میں انقلابیوں سے اپنے اخلاقی تضادات کو نظر انداز کرکے صرف اس لئے ان کا ساتھ دیتے ہیں کہ چلو مختلف ہیں لیکن ہماری بہتری کے لئے ہی تو کام کر رہے ہیں۔ یہی سمجھوتے بعد میں مشکلات پیدا کرتے ہیں۔

انقلابی تربیت کی کمی اور معاشرتی بے ثباتی

انقلابیوں کی کمزور اخلاقی تربیت اور عملی صفات کی کمی کے باعث، وہ معاشرتی بے ثباتی کا سبب بنتے ہیں۔ ان کا مقصد اگرچہ اقتدار کا حصول ہوتا ہے، تاہم اس راہ میں وہ اخلاقیات اور معاشرتی ہم آہنگی کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہاں اخلاقی اشاریوں پر میں نے زور اس لئے دیا کہ اکثر انقلابی خیالات کواسی پیمانے کے مطابق جانچ کر پیش کیا جاتا ہے۔ معاشرہ چونکہ مختلف الخیال افراد کا مجموعہ ہے اس لئے کہیں کہیں آپ کوکچھ اقلیتی گروہ گزشتہ حکمرانوں کے خیالات کو سینے سے لگائے ماضی کی عظمت کے عود کر آنے کی خواہش میں جیتے ضرور نظر آئیں گے۔ اور ایسے گروہوں کو سوائے تشدد کے معاشرے سے دیس نکالا نہیں دیا جا سکتا۔

اقتدار برائے تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہوئے اقتدار میں آئے انقلابی اپنے پیغام کو معاشرے کے تمام طبقات تک پہنچانے کے لئے پھر بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اس بہت کچھ میں تعلیمی نظام کی حسب خواہش تبدیلی سے لیکر قانون سازی اور جبری طور پر اپنے انقلابی منشور کے نفاذ تک سب شامل ہے، لیکن انقلابیوں کے لئے مشکل وہاں پیدا ہو سکتی ہے جہاں رعایا ان کے پیغام سے متفق نہیں، یا ان کی دعوت کے کچھ حصے رعایا کے مفاد کو زک پہنچا رہے ہوں۔ ایسی صورت میں اکثر انقلابی حکومتیں زور زبردستی کا سہارا لیتی ہیں۔

اقتدار کی دعوت اور معاشرتی تقسیم

انقلابیوں کی دعوت میں اکثر اوقات معاشرتی تقسیم پیدا ہوتی ہے، جہاں وہ مختلف طبقات کو اپنی اقتدار کی خاطر متحد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے معاشرے میں انتشار اور بے ثباتی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔جب انقلابی حکومتیں زور زبردستی کا سہارا لیتی ہیں تو حکم عدولی کی صورت میں غداری کے فتاوی سے لے کر قید و بند ، حتی کہ سزائے موت تک بھی دی جاتی ہے۔ یہ سب اس لئے بھی ضروری ہوتا ہے کہ انقلابیوں کے نزدیک انقلاب کے ثمرات پورے معاشرے تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ تمام معاشرہ بلا تامل انقلاب اور اس کی دعوت کو قبول کرے۔ اختلاف معاشرے میں انتشار پیدا کرے گا اور یوں انقلاب کے ثمرات کے پھیلنے کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔

اس لئے اپنے پیغام کو کامیاب بنانے کی خاطر، اور ویسے بھی چونکہ انقلابی لوگوں کا یہ ذہن بنا کر اقتدار میں آئے ہوتے ہیں کہ جیسے ہی ہم اقتدار میں آئے، سسکتے عوام کو اپنی مشکلات سے نجات مل جائے گی، چشم زدن میں یہ زندگی جسے وہ جہنم کا ایک گڑھا سمجھتے ہیں ، جنت کے ایک باغ میں تبدیل ہو جائے گی وغیرہ وغیرہ ۔۔ تو انقلابی اپنے پیغام کے اسیر بن چکے ہوتے ہیں۔ لوگوں کی توقعات کا بار ان کو ایسے قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتا ہے کہ وہ اس انقلابی پیغام کی روح کے لئے موت ہوتے ہیں۔ نتائج پیش کرنے کا بوجھ اور رعایا کی توقعات ان کو مجبور کر دیتی ہیں کہ یہ انقلابی ہر وہ قدم اٹھائیں جس سے ان کے پیغام اور منشور کی نفاذ و ترویج ہوسکے۔ چاہے اس کے لئے انھیں ناقدین کو سختی سے ہی کچلنا کیوں نہ پڑے۔

انقلابیوں کے اقدامات اور معاشرتی امن

انقلابیوں کے اقدامات، جیسے کہ زور زبردستی، تشدد، اور سختی کا استعمال، معاشرتی امن کے لیے خطرہ ہوتے ہیں۔ ان کے ان اقدامات سے معاشرے میں بے چینی اور بے ثباتی پیدا ہوتی ہے۔ اور ویسے بھی انگریزی مقولے اینڈ جسٹیفائز دا مینز ۔۔ یعنی اگر نتیجہ حسب منشاء ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کیسے یہ نتیجہ حاصل ہوا، کے تحت ان انقلابیوں نے خود کو سب کام کرنے کا لائسنس دے دینا ہوتا ہے۔ استثنائی حالات کے علاوہ، یہ انقلابی بغیر کسی ہوم ورک کے اقتدار میں آئے ہوتے ہیں، ان کے ذہن میں ایک بات ہوتی ہے جس کا سہارا لے کر انھوں نے انقلاب اور بعد از انقلاب حسین زندگی کے سہانے خواب دکھا کر معاشرے میں قبولیت حاصل کی ہوتی ہے ، کہ اقتدار ملنے کے بعد سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔  اور یوں ایک نیا گھن چکر شروع ہوجاتا ہے۔

انقلابیوں کے مخالفین ریاست کے مخالفین ٹھہرتے ہیں اور ریاست سے وفاداری، ایک نئے مستقبل کی آس جو کہ جلد ہی شروع ہوگا، ایک اچھی زندگی اور سہانے خوابوں کے لالچ کے چکر میں انقلابی اپنی حکومت مستحکم کرتے جاتے ہیں۔ تبدیلی ء حکمران تو اس سارے کھیل میں یقینی ہوتی ہے، یہ دعوی کرنا کہ تمام حالات میں، یعنی ہر قسم کے ایسے انقلاب کے بعد جس میں اقتدار کے حصول کے بعد ہی اچھے دنوں کے آغاز کا وعدہ کیا گیا ہو، تبدیلی آ کر رہتی ہے ممکن نہیں۔

جاری ہے۔

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں