Skip to content

انتظار

اک اور دن اختتام پذیر ہوا۔

واہموں ، اندیشوں سے لڑتی سوچ کی پرواز نے سارا دن اس انتظار میں گزارا کہ ابھی کے ابھی اس کے بدترین خدشے ایک مجسم شکل میں اس کے سامنے آ کھڑے ہوں گے۔ سارا دن لرزتے گزرا، ایک ایسے مستقبل کی آہٹ میں کان کھڑے رہے جو بظاہر بہت ہی مخدوش ہے۔ ایسا مستقبل جو محض ایک غلط فیصلے کے انتظار میں وقت کی چوکھٹ سے ٹیک لگائے کسی بھی لمحے سامنے آ لپکنے کو تیار کھڑا ہے۔

اک اور دن ایسی رات کو جنم دے گیا جو تھپک تھپک کر سلانے کی بجائے ایسے خوابوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لائی ہے جو دن کے واہموں کا تسلسل ہیں۔ خواب جوسوچ کے گھوڑوں کو کسی گھاٹ رک کر پانی نہ پینے دیں گے اور ساری رات ایسے سفر میں مصروف رکھیں گے جس کی کوئی منزل نہیں۔  یہ طویل، بے رحم سرد رات یونہی گزرے گی، یہ رات ایک ایسے تھکے ہوئے دن کو جنم دے گی جس میں ایک بار پھر واہموں کی مجسم تشکیل کا انتظار سوچوں پر حاوی رہے گا اور یوں زندگی گزرتی رہے گی۔

تذبذب زندگی کو عذاب بنائے رکھے گا۔

انتظار کبھی ختم نہ ہوگا۔

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں