Skip to content

اسلام گڑھ – پہلی نظریاتی ریاست

( سنہ 1846میں – مُنیر)

فتح گڑھ کی فتح نے بالائی ہزارہ میں سکھوں کی قوت توڑ کر رکھ دی۔ آٹھ دس دن کے اندر اندر بائیس قلعوں پر قبضہ کر لیا گیا۔ سکھوں نے مانسہرہ میں قدم جمانے کی کوشش کی، لیکن دوبارہ شکست کھائی۔ اور پھر اس طرف کا رخ کرنے اُنھیں کبھی ہمت نہ ہوئی۔ نواں شہر (موجودہ ایبٹ آباد کا حصہ) میں بھی ان پر کاری ضرب پڑی اور وہ علاقہ جدون سے بھی نکل گئے۔ مجاہدین کے ہاتھ بہت سی توپیں ، شاہینیں، اُونٹ، گھوڑے، ڈیرے، خیمے، اور مال و متاع آیا۔ مملکت کی سرحدیں نواں شہر سے سکندر پور کے جوار تک پہنچ گئیں۔ فتح گڑھ کا نام بدل کر اسلام گڑھ رکھ دیا گیا اور وہ دارالحکومت قرار پایا۔

اب تک مقامی خوانین “دیکھو اور انتظار کرو” کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔ مجاہدین کے ساتھ اُن کا تعاون محض زمانہ سازی کے طور پر تھا۔ احکامِ شریعت کے آگے سر جُھکانے سے صاف انکار کر دیتے۔ مملکت کے اقتصادی نظام میں زکوٰۃ و عشر ریڑھ کی ہڈی تھی، اِنھیں یہ لوگ تاوان اور چِٹی قرار دیتے۔ بعض نے تو اِن کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا۔ فتح گڑھ کی جنگ نے حالات کا رُخ بدل ڈالا۔ مجاہدین عالقے کی اہم قوت بن کر اُبھر آئے۔ چاروں طرف ان کی ہیبت چھا گئی اور وہی خوانین، رئیس اور جاگیردار جو عُشر دینے سے انکاری تھے اب خود حاضر ہو کر عرض کر رہے تھے کہ اسلامی حکومت کے عُمال ان کے ہاں آئیں اور عُشر وسول کر لیں۔

اسلام گڑھ کی ریاست ایک باقاعدہ اسلامی شورائی ریاست تھی۔ تمام اُمورِ ریاست مشورے سے طے پاتے اور یہ کام مقامی اور ہندوستانی مجاہدین کے اصحاب رائے پر مشتمل مجلشِ شُوریٰ انجام دیتی۔ اس ریاست کی سرحدیں متعین تھیں۔ باضابطہ فوج تھی،جس کی تدریب اور تربیت کا اہتمام تھا۔ زیادہ تر بنگال، اَودھ ،صوبجات متوسط ( آج کل مدھیہ پردیش اور ارد گرد کے علاقے) اور شمالی اور زیریں پنجاب کے جوان شامل تھے۔ میر مقصود علی کمانڈر انچیف تھے۔ عبداللہ عسکری اور بعض دوسرے لوگ قلعوں اور چھاؤنیوں میں روزانہ نماز فجر کے بعد فوجوں کو پریڈ کرواتے اور جنگی تربیت دیتے۔ افسروں کے مختلف رینک تھے۔ سپاہیوں کو تنخواہ ملا کرتی۔ ایک آرڈیننس فیکٹری تھی جہاں چھوٹی توپیں اور دوسرے ہتھیار تیار کئے جاتے۔ ریاست کے مختلف مقامات پر سلاح خانے (اسلحہ خانے) اور اصطبل بنے ہوئے تھے۔ انتظامی طور پر ریاست چھوتے بڑے کئی اضلاع میں منقسم تھی۔ یہ تقسیم قبائلی بنیادوں پر کی گئی تھی۔

ریاست کے پہلے سربراہ مولانا عنایت علی تھے۔ مولانا ولایت علی تشریف لائے تو اُنھیں امیر چن لیا گیا۔ پروٹوکول اور آدا ب حکومت کا خیال رکھا جاتا۔ امیر ریاست کے جُلو میں ہر وقت سات بندوق بردار رہتے۔ کِسی اعلیٰ فوجی افسر کوامیر طلب کرتا تو وہ ایک سپاہی کے ساتھ حاضر ہوتا۔ مولانا ولایت علی تشریف لائے تو اُن کا ستقبال اسی تزک و احتشام سے کیا گیا جو کسی سربراہِ مملکت کے لئے مختص ہوتا ہے۔ اُنھیں ریاست کی امارت بھی ایک تقریب میں سونپی گئی۔ دوسری حکومتوں کی طرح باقاعدہ انتظامی محکمے قائم تھے جن کا قلمدان اہل ترین اور با صلاحیت افراد کے سپرد تھا۔ ہر بستی کا ایک امیر اور ہر قلعے کا ایک قلعہ دار ہوتا، ہر انتظامی یونٹ میں ایک تحصیل دار مقرر تھا۔

یہ ایک نظریاتی ریاست تھی۔ اور اس کا مقصد وہی تھا جو کہ ایک اسلامی ریاست کاہونا چاہئے اور جس کا بنیادی اصول خود قرآن مجید نے دیا۔
الذین ان مکنھم فی الارض اقاموالصلوۃو آتوالزکوۃو امروا بالمعروف و نھو عن المنکر )سورۃ الحج۔آیت 41)۔
ترجمہ : یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخش دیں تو وہ نماز قائم کریں گےاور زکوٰۃ ادا کریں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے ۔۔

ریاست ان چاروں فرائض کو بڑے اہتمام سے انجام دیتی۔ مسلمانوں کو حکم تھا کہ باجماعت نماز ادا کریں۔ عُذر شرعی کے بغیر مسجد سے غیر حاضری جُرم تھا اور اس کوتاہی کے مرتکب پر جرمانہ عائد کیا جاتا۔ شادی غمی کے موقعوں پر غیر اسلامی رسوم منع تھیں اور ارتکاب کرنے والا جُرمانے کا مستحق قرار پاتا۔ اخلاق عامہ کی اصلاح و تطہیر اور جرائم کے سدباب کے لئے محکمہ احتساب قائم تھا۔ جُوا، شراب اور دوسری منہیات میں ملوث افراد کو سزا دی جاتی۔

عدالتیں تھیں جن میں مقدمات شریعت کے مطابق فیصل ہوتے اور مجرموں کو سزائیں ہوتیں اور ان پر حدود نافذ کی جاتیں۔ بُرائیوں کے انسداد اور نیکیوں کے فروغ اور اسلامی احکام و تعلیمات کی تبلیغ پر خصوصی زور دیا جاتا۔ بازار میں قیمتوں کے اتار چڑھاؤ، اشیا کی فراہمی اور ناپ تول پر کڑی نظر رکھی جاتی۔ ریاست کی آمدنی پانچ لاکھ سالانہ تھی جس کا بڑا ذریعہ زکوٰۃ، عُشر صفقات اور خراج تھے۔ ہنگامی مواقع پر عطیات بھی لئے جاتے۔

خارجہ پالیسی کے دو بڑے بنیادی اصول تھے۔ سکھوں (بعد ازاں انگریزوں) کے خلاف آخری فتح تک جہاد جاری رکھنے کے لیے گرد و پیش کے قبائل اور ملکوں کی حمایت اور دوستی حاصل کرنا، اور ضرورت اور مشکالت کے وقت ان کی امداد۔ اسی پالیسی کی بنا پر کابل اور کشمیر کے ساتھ دوستانہ روابط استوار ہو چکے تھے۔ کشمیر کا گورنر شیخ امام الدین تھا اور لاہور کی سکھ حکومت نے اُسے متعین کیا تھا۔ انگریزوں نے کشمیر کو راجہ گلاب سنگھ ڈوگرہ کے ہاتھ بیچ ڈالا تھا لیکن شیخ امام الدین نے کشمیر کو گلاب سنگھ کے حوالے کرنے سے انکار کر کے مولانا عنایت علی کے ساتھ نامہء و پیام شروع کر دیا تھا۔ اُدھر کابل کے حکمران امیر دوست محمد خا ن سے بھی تعلقات قائم ہو چکے تھے اور اُس نے رفاقت اور امداد کا تحریر ی وعدہ بھی کیا تھا۔ رہا دوسرا اصول تو مولانا عنایت علی سرحد میں آنے کے بعد کتنی ہی جنگیں خوانین کو سکھوں سے نجات دلانے کے لئے لڑ چکے تھے۔

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں