اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو کمپیوٹر کی دنیا میں ابھی بہت پیچھے ہے۔ اس کا اندازہ ہماری روز مرہ زندگی میں اردو کی اصطلاحات کے استعمال سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔
کراچی اور حیدر آباد کے درمیان سپر ہائی وے پر سفر کرنے والے ان بڑے بڑے بورڈوں سے بخوبی واقف ہون گے جن پر شاہراہوں پر محفوظ سفر کے حوالے سے ہدایات رقم ہیں۔
ان تمام بورڈوں میں سے بمشکل دس فیصد اردو میں ہوں گے۔ اور اس شاہراہ پرسفر کرنے والے ٹرک ڈرائیوران کی اکثریت ان پڑھ ہے۔ ہے نا بھیانک مذاق؟
بہر حال یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔
اردو اور انٹرنیٹ کی دنیا کا جائزہ لیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ پھر بلاگرز کی تعداد تو اور کم ہے۔ یہ سب گنتی کے لوگ ہیں جو کہ اس حال میں اردو پہ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں جب کہ معاشرے میں اردو اپنا مقام کھوتی جا رہی ہے۔
گزشتہ دنوں اردو بلاگستان میں بہت کچھ ہوا۔ یہ سب ایک دم نہیں ہوا۔ اس کے پیچھے کوئی بیرونی سازشی عناصر نہیں تھے، بلکہ یہ سب کافی عرصے سے آہستہ آہستہ اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس بات سے قطع نظر کہ قصور وار کون تھا، یہ ایام کچھ اچھے نہیں تھے۔ اس کے بعد میں نے سوچا کہ کیا اردو بلاگروں کو اسی طرح آزاد رہنا چاہئے، کہ جس کہ منہ میں جو آیا بول دیا، جو پسند آیا لکھ ڈالا اور کسی کی پرواہ نہیں۔ یا پھر کوئی ایک ضابطہ ہونا چاہئے جس کو تمام بلاگران نظر میں رکھ کر اپنی گزارشات پیش کریں۔
ضابطہ اگر ہو بھی تو اس کا نفاذ کون یقینی بنائے گا، یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ اس بارے میں٘ میرے بلاگنگ کی دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے بھی بات چیت ہوتی رہی ہے، ہفتہ بلاگستان کے سلسلے میں میں نے بھی ایک دو انگریزی تحاریر کا ترجمہ پیش کیا تھا مگر بات وہیں پر آ کر رک گئی کہ یہ ضابطہ اخلاق کون نافذ کرے گا۔
مگر ہر زندہ انسان اپنی نظر سے آس پاس کی دنیا کو دیکھتا ہے اور ہم بلاگرز اس سے چنداں مختلف نہیں۔ ہماری اپنی سیاسی ، مذہبی اور معاشرتی ترجیحات ہیں اور ہم سب ان ترجیحات کے مطابق اپنی دنیا کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہم میں سے ہر ایک کا بلاگ اس کی زندگی کا ذاتی حصہ ہے اور اگر ہم میں سے کوئی اس ذاتی گوشے کو دوسروں کے سامنے پیش کرتا ہے تو مختلف رد عمل سامنے آتے ہیں اور ان سب کی بنیادی وجوہات میں نے پچھلے جملے میں گنوائی ہیں۔ جو بھی صاحب بلاگ کا نقطہ نظر ہو اس سے ضروری نہیں کہ ہر ایک متفق ہو، اور یوں اس پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔
عنیقہ کے بلاگ پر کچھ عرصہ ہوا ان کی کسی تحریر پر تبصروں میں میں نے انھیں کچھ انگریزی بلاگروں کی تعریف کرتے پایا۔ انھوں نے ضرور کوئی اچھی باتیں دیکھی ہوں گی کہ تعریف کر ڈالی اور غالبا گلہ کیا کہ اردو بلاگرز ایسا کیوں نہیں لکھتے۔ اردو بلاگرز کے پاس چند گنے چنے موضوعات ہیں اور بس ایک دوسرے پر حملے ہی کئے جاتے ہیں۔
میں اس تحریر کے بعد سمجھتا تھا کہ شائد ہم ابھی ذہنی طور پر اتنے بالغ نہیں ہوئے کہ بلاگنگ کرسکیں، مگر آج ورڈ پریس ٹی وی پر ایک وڈیو دیکھی تو اندازہ ہوا کہ یہ مسائل تو شائد ثقہ انگریزی بلاگروں کو بھی درپیش ہیں۔ گویا انسانوں کی فطرت ایک جیسی ہی ہے۔
آپ بھی اڑتالیس منٹ کی یہ وڈیو دیکھئیے ۔
http://wordpress.tv/2010/07/10/healthy-blog-community-boulder10/
مجھے امید ہے جہاں ہم نے انگریزوں سے اور باتیں سیکھی ہیں، بلاگنگ کے آداب بھی سیکھ جائیں گے۔
کام کی باتیں کوٹ (تاش والا نہ پہننے والا) کر دیتے یہاں
آپ کو پتا ہے گھنٹے کی ویڈیو کسی نے دیکھنی نہیں اور عمل ہونا نہیں
گرتےہیں شہ سوار ہی میدانِ جنگ میں وہ طفل کیا گرے جو کہ گھٹنوں کے بل چلے۔۔۔۔۔
وقت کے ساتھ سب “بلاگنگ”سیکھ جائیں گے۔۔
ڈاکٹر صاحب، ضابطہ اخلاق کی بحث انڈے اور مرغی والی بحث ہے
میں ڈفر کی بات سے متفق ہوں۔ تھوڑی دیر کیلیے اردو بلاگروں کو ٹرک ڈرائیور ہی سمجھ لیں
بنیادی طور پر بلاگنگ کا مقصد اور سلوگن ہی یہی ہے کہ بلاگر کا تبصرہ نگاروں اور تبصرہ نگاروں کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ میں آپ کی اس بات سے متفق ہوں کہ مجموعی طور پر کسی بھی انسانی اجتماع میں وہی عنصر غالب رہے گا جو افراد کی ذاتی شخصیت پر غالب ہوگا اور عدم برداشت اور عصبیت کہیں نا کہیں سے چھلک کر اردو بلاگنگ میں اپنا جلوہ دکھا جاتے ہیں۔ بلاگنگ کا اصل مقصد ہی انٹرنیٹ کی لامتناہی آزادی کا درست استعمال سیکھنا ہے اور یہ آہستہ آہستہ آجائے گا۔۔ ضابطہ اخلاق ایک بہت اضافی اصطلاح ہے اور اس کا اطلاق ایک انگریزی محاورے کے مطابق “بھوت کے پیچھے بھاگنے” کے مترادف ہے اور یہ سمجھنا کہ انگریزی بلاگز میں بڑی متانت بھری گفتگو ہوتی ہے تو اس پر یہی جواب دیا جاسکتا ہے کہ
you ain’t seen nothing yet
ویڈیو دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ میںانگریزی بلاگستان کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ بلکہ اس بارے میں لکھ بھی چکا ہوں۔ انگریزی بلاگستان بہت بڑا ہے۔ ہر قسم کے موضوعات پر لکھنے والے ہر قسم کے بلاگر موجود ہے۔ آپ جو چاہیں آپ کو اپنا حلقہ مل جائے گا۔ تحقیقی مقاصد تک کے لئے کچھ بلاگ وقف ہیں۔
اب آئیے بلاگنگ کے ضابطہ اخلاق کی طرف۔ جناب آپ نے نافذ کرنے کی بات کی ہے۔ میں آپ سے پوچھ رہا ہوں۔ بلاگنگ کا یہ ضابطہ اخلاق بنائے گا کوں؟؟
جو آپ کا ضابطہ اخلاق ہے اس سے میں متفق نہیں۔ جو میرا ضابطہ اخلاق ہے اس سے آُپ متفق نہیں۔ تو پھر بحث چہ معنی چہ دارد؟
اگر مجھ سے پوچھتے ہیں تو میں یہ کہوں گا کہ
بلاگنگ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ بلاگنگ کا کوئی اصول نہیں ہے!
واوین سیکھنے پر ہونے چاہیں تھے کہ بلاگنگ ایک مسلسل سیکھنے والا کام ہے
آپ کا بلاگ سیارہ اور بلاگز پر اپ ڈیٹ نہی ہورہا۔ دیکھیں کیا چکر ہے؟
جناب وڈیو دیکھ تو لیں، ساتویںمنٹ کے آس پاس بہت کام کی بات ہو رہی ہے۔ یہی تو مسئلہ ہے۔ وہاں سپیم تبصروں اور ایسے مبصرین کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے جو خا مخا اشتعال انگیزی پھیلاتے ہیں۔
اگر آپ کو اشتعال انگیزی دیکھنی ہے تو عنیقہ کے بلاگ پر آج کل اشتعال انگیز تبصرے ہو رہے ہیں۔ مگر گمنام تبصروںکو رکھ کر خود عنیقہ نے اپنے لئے یہ مصیبت مو ل لی تھی۔ میں ان سے ہمدردی کا صرف اظہار کر سکتا ہوں اور اللہ سے دعا کرتا ہوںکہ ان کو اور برداشت کی توفیق دے۔
ضابطہ اخلاق کے لئے آپ سینیر بلاگرز کے بلاگز پر ذرا سرچ ماریں۔ پھر اگر اس کے نفاذ کا سوال اٹھتا ہے تو میرے بھائی، کیا ہم ہر کام میںکسی حکمران کا انتظار کریںگے کہ وہ ہم پر کوئی چیز نافذ کرے؟
خود احتسابی کس چڑیا کا نام ہے؟ انسان میں خود اتنی جرات ہونی چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو کسی اخلاقی نظام کا پابند کرے۔
راشد:: جناب ، اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں۔ جس بات کی طرف آپ اشارہ کر رہے ہیں اس کا مجھے کچھ کچھ اندازہ ہے، مگر اس وڈیو میںجو لوگ بیٹھے ہیں، ان میںسے ایک کے بلاگ پر ماہانہ نئے آنے والوںکی تعداد ستر ہزار کے لگ بھگ ہے۔ اور ظاہر ہے یہاں ماحول کچھ اچھا ہی ہوگا۔۔
🙂
ایک اور صاحبہ کے بلاگ پر 40،000 کے آس پاس نئے لوگ چکر لگاتے ہیں۔ تو پھر یہ لوگ اچھے بلاگنگ ماحول کی بات کر رہے ہیںتو وزن تو ہوگا۔
براہ مہربانی وزیٹرز کی تعداد کے حوالے سے کسی اور الجھن کا شکا ر نہ ہوئیے گا۔
ڈفر :: میں انگریزی کے پرچے میں بمشکل پاس ہوا تھا۔ اردو بلاگنگ بھی اسی لئے کر رہا ہوں کہ انگریزی بلاگنگ نہیںآتی۔
:p
Comments are closed.