Skip to content

آج کل ہر ایک خرید سکتا ہے

اللہ اللہ کر کے ہم ضروری کاموں سے فارغ ہوکر ڈے روم میں بیٹھے ہی تھے کہ وارڈ بوائے نے آکر اطلاع دی کہ میڈیکل ریپ آئے ہیں۔

ہم سب تھکے ہوئے تھے اور ان کی باتیں سُننے کا ارادہ بالکل نہیں تھا مگر بات سُننی پڑی۔ وارڈ بوائے کو کہہ دیا کہ انھیں بھیج دے۔ تھوڑی دیر بعد دو ، ہشاش بشاش ، ٹو پیس سوٹ میں ملبوس افراد داخل ہوئے۔ انھوں نے اپنا تعارف کروایا اور پھر اطلاع دی کہ ہم سب کے لئے ایک معلوماتی لیکچر کا اہتمام کیا گیا ہے اور کچھ ہی دیر میں یہ لیکچر شروع ہو جائے گا۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ یہ لیکچر ایک دوا کے بارے میں ہے جو پاکستان میں ان کی کمپنی سب سے پہلے متعارف کروا رہی ہے۔ کمپنی والوں کو ہم جانتے ہیں، کمپنی کی ادویات بھی اچھی ہیں اور ان ادویات نے ہم ڈاکٹروں کو اب تک مایوس نہیں کیا ہے، چُنانچہ تجسس پیدا ہوا اور سب کا ارادہ بن گیا کہ لیکچر سُنا جائے۔

اب چھُٹی کا وقت بھی قریب تھا اور سب لوگوں کی خواہش تھی کہ لیکچر کے بعد کے ‘لوازمات’ پر جلد اس جلد ہاتھ صاف کیا جائے۔اس لئے موضوع سخن کو خاص توجہ کسی نے بھی نہ دی۔ ہمارے مقرر ایک ڈاکٹر صاحب تھے جو کمپنی کی طرف سے اس دوا کو متعارف کروانے آئے تھے۔ بہر حال اُن کی کاوش اچھی تھی اور انھوں نے بڑے اچھے انداز میں جب کہ لوگ جماہیاں لے رہے تھے، دوا کے بارے میں ہمیں آگاہ کیا۔ اس کے بعد جب بحث شروع ہوئی تو میں نے ایک دو نکات کو لے کر موصوف سے بات کرنا چاہی تو انھوں نے یہ کہہ کر مجھے لاجواب کر دیا کہ ‘ کمپنی آپ کو تمام تفصیلات مہیا کر سکتی ہے، اور بد قسمتی سے اس وقت ہم وہ دستاویزات ساتھ نہیں لائے’۔ بات معقول تھی اس لئے میں خاموش ہو گیا۔ دوا کے مضر اثرات کے بارے میں ہم نے پوچھا تو ہمیں بتایا گیا کہ چونکہ اس دوا کے اجزاء معمول کی نسبت کم مقدار میں ڈالے گئے ہیں اس لئے یہ دوا دوسری دواؤں کی نسبت قدرے محفوظ ہے۔ یہ اور بات کہ گھر آکے میں نے جب انٹرنیٹ پر تلاش کیا تو بہت سی نئی باتیں پڑھنے کو ملیں، اور اندازہ ہوا کہ ان لوگوں کی باتوں کو مِن و عن قبول نہیں کرنا چاہئے، ورنہ یہ لوگ تو ہمیں تباہ کر دیں گے۔۔

یہ دوا بنیادی طور پر ڈپریشن کے مرض کے لئے بنائی گئی ہے اور اس سلسلے میں ہمارے ایک دوست نے کافی اچھے نکات بھی اُٹھائے مگر بات وہیں پر آ کر رُک جاتی کہ، ‘تفصیل سے جواب ان دستاویزات میں آپ کو مل جائے گا جو کمپنی بعد میں آپ کو دے سکتی ہے’۔

یہ بعد میں نے آج تک نہیں دیکھا۔۔۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔۔

چائے کے دوران ڈاکٹر صاحب سے بات چیت کا موقع ملا تو فرمانے لگے کہ بہت سے لوگ ڈپریشن کی ایسی علامات کے ساتھ آتے ہیں کہ جو کسی بیماری کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتیں، لہذا ہمیں ان لوگوں کے بارے میں ڈپریشن کا شبہ ضرور کرنا چاہئے اور علاج شروع کر دینا چاہئے۔ میں نے عرض کیا ، کہ بغیرکسی تفتیش کے تو میں کسی کو بھی ڈپریشن کا لیبل نہ لگا ؤں۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد بولے،’ ایسے لوگ بھی تو آتے ہوں گے جو جسسمانی دردوں کی شکایت کرتے ہوں گے، جہاں درد کی دوا لکھی وہاں یہ دوا بھی لکھ دیجئے گا، پچاس ساٹھ مریضوں کو لکھیں گے تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ کتنی مفید ہے ‘

میں نے پوچھا، ‘اگر وجہ نہ بنتی ہو تو بھی ؟ ‘

کہنے لگے ، ‘ ہاں آخر اتنی مہنگی بھی تو نہیں ہے، صرف ۲۵ روپے کی ۱۰ گولیاں ہیں، آج کل ہر ایک خرید سکتا ہے۔’ اور دوسری جانب چلے گئے۔۔ میں حیران پریشان کھڑا رہ گیا۔۔

6 thoughts on “آج کل ہر ایک خرید سکتا ہے”

  1. عمر احمد بنگش

    ٹھیک ہی تو کہا ہے اس بھائی نتھو نے۔ اگر پڑھے تو معذرت مگر، ہر کوئی خرید سکتا ہے ۲۵ روپے کی یہ گولیاں، تو یقیناً اس سے سستی تو چوہے مار گولیاں ہی خرید کر ایک ہی بار میں ٹنٹہ ختم کیوں نہ کر لے کوئی؟
    ڈاکٹر صاحب، بہت ہی مفید معلومات ہے یہ ، بلکہ اندر کی بات بتا رہے ہیں آپ، میڈیکل کونسل والوں سے ذرا بچ کے رہیے گا، ورنہ ادھر بھی ایسے ناگ بیٹھے ہیں، جو انھی کمپنیوں میں شراکت دار ہوتے ہیں۔ :)۔۔۔
    سر جی، ہو سکتا ہے کہ میری یہ بات تھوڑی چبھنے والی بھی ہو، لیکن کئی ڈاکٹر صاحبان کی بھی اپنی زاتی ہوس اور لالچ کی بھینٹ چڑھتے دیکھے ہیں لوگ میں نے۔ ایبٹ آباد میں وہ جو پلازہ ہے ناں ڈاکٹروں والا،اعوان پلازہ وہاں پر۔ جسے ہم “سویلین” لوگ عام فہم میں کچھ کہتے ہیں، یقیناً واقف ہوں گے آپ اس سے۔ ڈیوٹی کہاں ہے سر جی آپکی، اگر تو ایوب میڈیکل کمپلیکس میں ہیں تو کبھی موقع تو دیں ملاقات کا، آخر کو ہم بھی کراچی والوں کی طرح ملاقاتیں، میٹینگیں اور تصویریں کنچھوائیں اور بلاگوں پر چسپاں کریں۔ مقابلے پر۔۔۔۔۔۔۔۔ وکیل صاحب، ابوشامل بھیا، فہیم، ایم ایم مغل صاحب سارے لوگ متوجہ ہو جاو بھائیو، یہ شمال میں دو بلاگر کیا سوچ رہے ہیں۔۔۔۔ :)۔

  2. اپنی کمپنی کی سیل کرنے کی خاطر کہہ رہے ہیں لکھ دو اس سے کیا فرق پڑتا ہے.

    اسے کہتے ہیں پڑھےلکھے جاہل لوگ. ڈاکٹر صاحب آپ ایسے تجربے ہرگز مت کیجئے گا.

  3. ڈاکٹر صاحب۔۔۔ اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوچکے ہیں ہم بحیثیت قوم۔۔۔ بات تلخ ہے لیکن سچ ہے۔۔۔ ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ سرمادیہ دارانہ نظام کی ساری خرابیاں تو ہم نے اپنا لی ہیں ، لیکن اس کی خوبیاں اپنانے کو تیار نہیں ہیں ہم۔۔۔۔
    کافی عرصہ پہلے کا قصہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں ایک ڈاکٹر ہوا کرتے تھے، انہوں نے ایسے ہی نسخے لکھ لکھ کر اپنا کلینک فائیو سٹار بنا لیا تھا۔ ایک وقت میں وہ موسی گار نامی سیرپ آنکھ کی سوزش والے کو بھی لکھ کر دے دیتے تھے۔۔۔ اب آپ بہتر جاتے ہیں کہ موسی گار کس لئے تھا؟؟؟؟
    مجھے امید بلکہ یقین ہے کہ آپ جیسے لوگ ہی اس روش کو بدلنے کا آغاز کرسکتے ہیں۔۔۔
    مکھن بازی مت سمجھئے گا اسے ۔۔۔۔
    😀

  4. منیر عباسی

    تبصروں کا شکریہ،
    میری بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔ ممنون ہوں آپ سب کا۔

    میں فارغ وقت بہت ‘ اچھے طریقے’ سے ضائع کرتا پوں اور دواؤں کے بارے میں بہت کچھ علم ہوا ہے مجھے جو یہاں کیا, کہیں بھی آن دی ریکارڈ نہیں بتایا جاسکتا۔

    اللہ سے دُعا ہی کرنی چاہئے کہ وہ ہمیں ان لعنتوں سے بچنے کی توفیق عطا کرے۔

    عمر آپ قصائیوں کی بات کر رہے ہیں؟ کہہ دیں نا، کیا فرق پڑتا ہے نہ کہنے سے؟
    اور میں وہیں ہوتا ہوں، کمپلیکس میں، کبھی آئیے نا عمر، ملاقات کے لئے۔۔
    مگر مریض بن کر نہیں!! وہ غالب چچا کے شعر کے مصداق ‘ بدل کر بھیس تماشائے اہل کرم دیکھنے والا’

    جعفر، اگر میں آپ کو مثالیں دینا شروع کر دوں تو شائد آپ پاکستان کے سب ڈاکٹروں سے متنفر ہو جائیں۔

  5. DuFFeR - ڈفر

    ہاہاہا
    عمر نے بڑی اچھی بات لکھی
    چوہے مار دوائیوں کی
    وہ ڈاکٹر یقیناً ایسا بھی کہہ دیتا
    لیکن پھر دوائی بار بار کون خریدتا؟
    اور دس کی جگہ صرف ایک گولی؟

  6. عمر احمد بنگش

    ڈاکٹر صاحب، اپنا ای میل ایڈریس براہ کرم مجھے ارسال کردیں

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں