ستمبر کے مہینے کا شاید وہ آخری دن تھا
برس گزرے کئی
میں نے محبت لفظ لکھا تھا
کسی کاغذ کے ٹکڑے پر
اچانک یاد آیا ھے
برس گزرے کئی
مجھ کو کسی سے بات کرنی تھی
اسے کہنا تھا جان جاں ” مجھے تم سے محبت ھے”
مگر میں کہہ نہیں پایا
وہ کاغذ آج تک لپٹا پڑا ھے دھول میں لیکن
کسی کو دے نہیں پایا
دوبارہ چاہ کر بھی میں محبت کر نہیں پایا۔
نوید ھاشمی
منیر نیازی کی ایسی ہی ایک اُداس کردینے والی نظم۔
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے يہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
اس بندے نے اپنی پرچی کا راز فاش کر کے اپنی محبت کو رسوا کر ديا
محترم،اگر برا نا مانیں تو پوچھ سکتا ہوں کہ یہ نثر ہے یا نظم؟
محبت کو ادھورا ہی رہنی ديں اور نسخہ کی پرچيوں پر توجہ ديں شکريہ
منیر عباسی صاحب اآجکل نوید ہاشمی کے نام سے جانے جاتے ہیں؟
عدناں مسعود::: بلاگ پر پہلا تبصرہ سوال کی شکل میںکرنے پر شکریہ۔
😀
جناب یہ ایک آزاد نظم ہے۔
پھپھے کٹنی ::: مشورے کا شکریہ۔ فیس کتنی ہوئی آپ کی؟ 😛
ڈفر:: جی نہیں۔ نوید ہاشمی صاحب واقعی میںپائے جاتے ہیں۔
افتخار اجمل :: کیا آپ بھی اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیںجو اس تعلق کو اتنا مقدس جانتا ہے کہ اس کا معمولی سا ذکر بھی اس لئے نہیں کرتا کہ محبت رسوا ہو جائے گی اور نتیجتا دل ہی دل میںکڑھتا رہتا ہے؟
ڈاکٹر صاحب خدا کا خوف کریںاور مریضوں سے محبت سے پیش آیا کریں 😀
وہ دیکھو گھٹا آ رھی ھے لوگ ھنس ، بول، خوش ھو رھے ھیں
کہ حبس کا زور ٹوٹ جائگا بارش کا وہ قطرہ
، گر کر میرے ھاتھ پر بولا،
کیا؟
تیرا من بھی شااد ہوا؟ دل کی گھٹن کچھ کم ہوئ؟
کیا؟ تیرا من بھی آباد ہوا؟
اَمیدِ وفاء ؟
صبح اِستقبال کیا،
میرا جب،
پُر فضاء ھؤاء نے،
مُسکُراتے ھوےء کہا،
رات جو برسا، آکاش،
چھم چھم خوب بپھر کے ،
ٹھنڈک بھر دی ،سب کے تن میں،
سب کے من میں، سب کی روح میں،
کیا ؟ تیری روح بھی شاد ھوئ ؟
کیا؟ تیرامن بھی آباد ھؤا ھے؟
کچھ بنجر پن اسکا کم ھؤا ھے؟
کچھ گھٹن اسکی ٹوٹ گئ ھے؟
کچھ چبھن اسکی کٹ گئ ھے؟
مُیں نے اسے کہا، یہ، جب ھوتا ھے ،جب، کچھ تو ً امیدِ وفاء ً ھو ۔
وہ دیکھو، گھٹا آرھی ھے ،
لوگ خوش ھو کر کِہ رھے ھیں، کہ،
حبس کا زور ٹوٹ جائگا، زمین اپنی تپش کھو دے گی ،
مگر ، اک قطرہ چپکے سے میرے ھاتھ پر گر کر بولا،
ضروری تو نہیں ،یہ جو سمجھ رھے ھیں،
وہ ، فقط پانی ھو ،بوند ھو فقط بارش کی،
بھڑاس بھی تو ھو سکتی ھے ،
کسی کے من کی، دکھن کی، چبھن کی،
ھاں ،
برس گےء ،
بن کر بارش کی شکل ،
تمام آنسو ، ٹوٹ گےء
ضبط کے بند ،
رکے جو آج تلک ،سالوں سے ،
جو دل کو مظبوط بنا کر ،
خود کو مضبوط ،سب کو دکھلا کر ،
مگر،
وہ مورت آج ٹوٹ گئ ،
من کے موتی، صورت پانی کے بہ گےء ، بہا گےء ۔
بہت خوب
بھت اچھی ھے
عروج میں آپ کا فین بن گیا ھو
Comments are closed.