Skip to content

یونیورسٹی کینٹین میں

عربی سے ترجمہ ہوئی یہ کتاب مجھے کافی عرصہ پہلے تحفہ کے طور پر ملی۔ اور اسے پڑھنے کی خاص طور پر تاکید کی گئی۔ مگر جیسا کہ اکثر اچھی چیزوں کے ساتھ ہوتا ہے، انسان ان سے دور بھاگتا ہے۔ لہذا یہ کتاب اُسی طرح میرے فون کے میموری کارڈ میں پڑی رہی جس طرح آئی تھی۔

آج میں نے سوچا اسے پڑھوں تو سہی، تاکہ پتہ تو چلے کہ اس میں لکھا کیا ہے اور وہ کیا وجہ ہے کہ یہ کتاب لاکھوں لوگوں نے پسند کی۔

جس طرح ترجمہ شدہ متون کے ساتھ اکثر ہوتا ہے، کہ ترجمہ ہونے کے بعد اصل متن کی چاشنی کہیں کھو جاتی ہے، ویسا اس کتاب میں نہیں تھا۔ عربی سے اردو  میں ترجمہ بہت اعلیٰ ہے۔ کہیں بھی احساس نہیں ہوتا کہ آپ ایک ترجمہ شدہ کتاب کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ کتاب کے حقیقی مصنف کے اصل خیال کو اُسی طرح کسی اور زبان میں پیش کرنا بذات خود ایک کارنامے سے کم نہیں ہے۔ اس سے پہلے میں سید قطب شہید کی تفسیر فی ظلال القرآن کے اردو ترجمے میں بھی ایسا ہی کچھ اثر دیکھ چکا ہوں۔ سید معروف شاہ شیرازی صاحب نے اس تفسیر کا جو اردو ترجمہ کیا ہے وہ بہت اعلیٰ ہے۔ بدقسمتی سے اُس ترجمے پر جماعت اسلامی والوں کی چھاپ لگ گئی ہے اس لئے شائد اتنا معروف نہیں ہو سکا۔ مگر یہ اردو ترجمہ جو کہ چھے جلدوں پر مشتمل ہے، واقعی پڑھنے کے لائق ہے۔

بہرحال واپس آتے ہیں یونیورسٹی کینٹین میں کی طرف۔ پردے کے موضوع پر لکھی گئی یہ مکالماتی کتاب  بہت دلچسپ انداز میں لکھی گئی ہے اور پڑھنے والے کی دل چپسی آخر تک قائم رہتی ہے۔ آپ بھی مطالعہ کیجئے۔ اگر پڑھنے میں دشواری ہو رہی ہے تو دائیں جانب نیچے کی طرف فُل سکرین کے آپشن پر کلک کریں اور پوری سکرین پر یہ کتاب پڑھ لیں۔

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں