Skip to content

ہم بھی طالبان ہوں۔

کل ایک مقامی روزنامے (روزنامہ آج ) میں ایک چھوٹے شہر میں نئے تعینات شدہ ایس ایچ او کا ایک بیا ن پڑھا۔ موصوف علاقے کے معززین سے خطاب کر رہے تھے۔ میں ذرا جلدی میں تھا اس لیئے پوری خبر کی تصویر نہ بنا سکا، سوچا تھا واپسی پر بنا لوں گا مگر واپس اُس جگہ جانا نصیب نہ ہوا۔

موصوف اس جگہ نئے نئے تعینات ہوئے تھے جس کا اظہار ان کے نام کے ساتھ کیڈٹ لکھے جانے سے ہو رہا تھا۔ موصوف کی فرض شناسی ان کے بیان سے واضح ہورہی تھی جس میں انھوں نے اپنے علاقے سے برائی کے خاتمے کا اعلان کیا تھا اور یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں وہ علاقے سےوڈیو سنٹر اور نیٹ کیفوں جیسے ‘غیر شرعی ‘ کاروبار کا خاتمہ بھی کر کے رہیں گے۔ معززین علاقہ نے ان کے بیان کو سراہا اور ان کے جذبے کے تعریف کی۔
مجھے بڑی خوشی ہوئی اس بیان کو پڑھ کے۔ حقیقت میں اس ماہ میں اس قسم کا تیسرا یا چوتھا بیان پڑھ رہا ہوں۔ اگر اہل محلہ ، معززین اور شرفاء پولیس کے ساتھ تعاون کریں تو جرائم پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔
مگر ایک سوال تنگ کر رہا ہے مجھے۔

ایک پولیس والے کو کس نے حق دیا کہ وہ ایک کام کے شرعی یا غیر شرعی ہونے کا تعین کرے؟

چلیں مان لیتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح کھینچ تان کے یہ حق مل بھی گیا ہے تو، بھر تعزیرات پاکستان کا کیا کام رہ گیا ہے؟

اگر یہ کاروبا رآئین کے تحت جائز ہے اور آئینی طور پر متعین کردہ حدود و قیود کے تحت چل رہا ہے تو پھر اس پر اعتراض کوئی نہیں کر سکتا۔
اگر یہ ناجائز ہے تو پھر تو بات ہی کوئی نہیں۔ مِٹی پاؤ۔ یہ غیر قانونی ہے۔ شرعی اور غیر شرعی کی بحث ختم ۔
اگر جائز ہے، تو حکم کس کا مانا جائے گا؟
پولیس کا؟
شریعت کا؟
آئین پاکستان کا؟
طالبان کا؟
یا پھر جس کی مرضی میں جو آئے وہ کرے؟
نوٹ: حقیقی مراسلہ اس سے ذرا مختلف تھا، ایک تیکنیکی غلطی کی بنیاد پر ضائع ہوگیا اور اس پر دو تبصرے بھی ہو چکے تھے۔ زحمت کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ محمود بھائی، میرا کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہمیں بتا دیا جائے کس قانون کے تحت ہم نے رہنا ہے۔ شریعت؟ آئیں یا پھر جنگل کا قانون؟ اختلاف آپ کا حق ہے سو شوق سے کیجئے، میں منتظر رہوں گا آپ کی اختلافی بات کا۔۔

6 thoughts on “ہم بھی طالبان ہوں۔”

  1. عمر احمد بنگش

    کچھ ہفتے پہلے، بی بی سی کی اردو ویب سائٹ پر ایک ایسا ہی فیچر شائع ہوا تھا، حنیف صاحب نے بڑی خوبصورتی سے بیان کیا تھا کہ ہم میں سے ہر ایک اندر سے طالبان ہی ہے!۔
    دوسری بات، شریف آدمی کے لیے پولیس بھی دہشت گردوں سے کم نہیں۔ صرف پولیس ہی نہیں ہر محکمہ اور ہر عدالت۔
    تیسری بات، یہ آج، شمال، اقراء نیوز اور اس جیسے کئی روزنامچے جو ہزارہ ڈویژن میں شائع ہوتے ہیں، اخبار سے زیادہ نائی کی دکان زیادہ ہیں، سو اتنا بھروسہ نہ کیا کریں۔ :)۔۔۔۔

  2. منیر عباسی

    بنگش صاحب یہ آپ کے پڑوس میں واقع بفہ کی خبر ہے۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں، ۔۔۔۔ ہمارے لوگوں کا دین کے نام پر کاٹ مارنے کا جوش کتنا زیادہ ہے۔۔

  3. جہاں کے لوگ جیسا چاہیں گے ویسا ہی ہو گا ملکی حالات اس کے گواہ ہیں ان کو پناہ جس نے دی اس یہ مصیبت بھی بھگتنی پڑے گی۔
    نئی تصویر کی مبارک باد کبھی اپنا بلاگ چھوڑ کر باہر بھی چکر لگایا کریں صحت اچھی رہتی ہے اور کچھ نیادیکھنے کو مل جاتا ہے ۔
    مسٹر کنفیوز

  4. منیر عباسی

    ڈفر بھیا ،آپ کا یہ واحد تبصرہ ہےجو اس مراسلے کے تحت مجھے موصول ہوا.

    کہیں کسی اور جگہ اختلافی توٹ لکھ کر تو نہیں آگئے؟

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں