Skip to content

ہم بھی طالبان ہوں۔۔۲

میڈیکل کی زندگی کے بارے میں کچھ لکھنا شروع کیا تھا، مگر پھر متضاد خیالات کی بنا ء پر نا مکمل چھوڑ دیا۔ کچھ گزارشات یہاں کی تھیں اور کچھ یہاں۔ پھر ایک مہربان مبصر ، جناب جاوید گوندل نے بارسیلونا سپین سےحکم دیا کہ پی ایم ڈی سی کے استحصالی کردار کے بارے میں بھی کچھ لکھوں۔

کچھ مواد جمع کیا، اور لکھنا بھی شروع کیا مگر، میں ایک کاہل انسان، کس کس کام کو مکمل کروں؟
لہذا سب کچھ چھوڑ دیا۔ جاوید بھائی۔ میرا ارادہ ہے اس بارے میں لکھنے کا، مگر میں ابھی پوری طرح اردو میں ٹائپ کرنے پر قادر نہیں ہوا اس لیئے اپنا مافی ا لضمیر اچھی طرح بیان نہیں کر سکتا۔ انشاء اللہ ضرور آپ کے حکم کی تعمیل ہوگی۔

وہ ساری باتیں اس لئے یاد آ گئیں کہ آج ہسپتال میں ایک سپرنٹنڈنٹ صاحب کو تفتیش کرتے دیکھا کہ کونسا ٹرینی ڈاکٹر کس حیثیت میں کام کر رہا ہے۔ آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے، کہ یہاںصوبہ سرحد میں تین طرح کے ٹرینی ڈاکٹر پائے جا سکتے ہیں۔ ٹرینی ڈاکٹر وہ ہوتا ہے جو سپیشلائزیشن کر رہا ہو۔

ایک وہ جو ہسپتال کے نوکر ہیں۔ میڈیکل آفیسر۔

ایک وہ جو پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ پشاور (پی جی ایم آئی) کی طرف سے بھیجے گئے ہوں۔

اور

تیسرے وہ جو کسی ادارے میں ملازمت تو کرتے ہیں مگر ضابطے کی کارروائی کے بعد اب ٹریننگ حاصل کر رہے ہیں۔ ان کی تنخواہ اُسی ادارے سے آتی ہے۔ جس نے انھیں بھیجا ہے۔

صوبہ سرحد میں ایک اور مشکل بھی ہے۔ وہ یہ کہ، آپ گریجویشن کے بعد اعلی تعلیم اُس وقت تک حاصل نہیں کر سکتے جب تک آپ پی جی ایم آئی کے انٹرویو میں منتخب نہ ہوئے ہوں۔ یہ طریقہ کار اس وقت بحث کے دائرہ کار سے باہر ہے۔

آج بتایا یہ گیا کہ وہ سب ڈاکٹر جو اس وقت بغیر کسی تنخواہ کے اس ادارے میں اپنی سپیشلائزیشن کے لئے کام کر رہے ہیں،اور پی جی ایم آئی کے انٹرویو میں بھی نہیں شامل ہوئے، ان کو بیک جنبش قلم باہر کیا جا رہا ہے۔ اور یہ کہ ان کا اس طرح بغیر تنخواہ کام کرنا میڈیکل کی اخلاقیات کے منافی ہے۔ اگر کسی نے اپنی ٹریننگ نہ چھوڑی تو اس کے خلاف آر ایس او ۲۰۰۰ کے تحت کار روائی کی جائے گی۔ ( اندازہ کریں جو ملازم ہی نہیں ہے اس پر سرکاری ملازمت کےقانون نافذ کر رہے ہیں)۔

سمجھ نہیں آتا ، ہسپتال کے بڑوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟ صوبہ سرحد میں آپ نے پی جی ایم آئی کے فراہم کردہ ماہانہ وظیفے پر انحصار کرنا ہوتا ہے، جس میں اضافہ کسی ہڑتال کی صورت میں ہی ہوسکتا ہے اور یہ ماہانہ وظیفہ چاروں صوبوں میں سب سے کم ہے۔ مجھے خود یہ وظیفہ گیارہ ماہ بغیر تنخواہ کام کرنے کے بعد ملنا شروع ہوا تھا۔ مجھے اس طرح بغیر تنخواہ کام نہیں کرنا چاہئے تھا، مگر میں نے ٹریننگ کا ایک سال بچا لیا۔

اچھے مستقبل کی آس لگائے میری طرح کے اور بھی ڈاکٹر ہیں جو بغیر تنخواہ کے اپنی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔

بجائے اس کے کہ حکومت ان کے لئے کسی ماہانہ مشاہرے کا بند و بست کرے، اُلٹا حکومت ان کی ٹریننگ ختم کرنے کا سوچ رہی ہے۔ پی جی ایم آئی کے انٹرویو سال میں ایک مرتبہ نومبریا دسمبر میں ہوتے ہیں۔ جو لوگ منتخب ہوتے ہیں وہ اگلی جنوری یا فروری سے اپنی ٹریننگ کا آغاز کرتے ہیں۔اب اگر ایک ڈاکٹر فروری یا مارچ میں منعقدہ کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز کے امتحان میں پاس ہو جائے تو کیا وہ اگلی جنوری تک انتظار کرے؟ صرف اس امیدپر کہ ایک لگا بندھا وظیفہ بھی ملے گا؟ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ میری طرح کے بہت سے لوگ بغیر تنخواہ کام کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اور کرتے بھی ہیں۔

میں حیران ہوں، وہ لوگ جو ڈاکٹروں پر قصاب ہونے کا الزام لگاتے ہیں، اور ان کی برائیاں گنوانے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے، ان کو ڈاکٹروں کی زندگی کا یہ پہلو کیوں نظر نہیں آتا؟

کسی کو علم نہیں کہ پاکستان میں ڈاکٹروں کی حالت زار کیا ہے۔ بس ایک دو اچھے ڈاکٹر جن کی پریکٹس جم گئی ہے، کی مثال دے کر باقی کو بھی اسی کھاتے میں ڈال کر ایک لیبل دے دیا جاتا ہے۔

ایک ڈاکٹر بغیر تنخواہ کے اپنی خدمات اپنے مستقبل کی خاطر فراہم کر رہا ہے اور یہ لوگ اسی کو ہی نشانہ بنا رہے ہیں۔

اس سے آپ اندازہ لگا لیں پاکستان سے ڈاکٹر باہر کیوں جاتے ہیں۔

7 thoughts on “ہم بھی طالبان ہوں۔۔۲”

  1. محمد محمود مغل

    ڈاکٹر صاحب درج ذیل سطر کا جواب نہیں۔
    بے جا الزام تراشی سے آپ اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کریں گے اور حاصل کچھ نہیں ہوگا

    اور درج بالا مراسلہ پڑھا ، اختلاف کی صورت نکلتی تھی مگر ایک سطر نے روک رکھا ہے۔
    پیش کرنے کو بہت بہت شکریہ
    والسلام

  2. جس کی لاٹھی اس کی بھینس
    یہ قانون لاگو ہے جی ہمارے ملک میں
    جس کے پاس طاقت ہے
    وہی فیصلہ کرے گا کہ
    کیا آئینی ہے
    کیا شرعی ہے
    اس لئے ٹینشن نہ لیں
    بلکہ طاقت حاصل کرنے کی کوئی سبیل کریں…

  3. منیر عباسی

    معذرت خواہ ہوں ایک تکنیکی غلطی کی بناء پر دوسرا مراسلہ پہلے کی جگہ لے گیا ہے۔

    میں کوشش کرتا ہوں کہ اس مراسلے کو دوبارہ لکھ ڈالوں جس پر محمود بھائی نے تبصرہ کیا ہے۔۔

  4. عمر احمد بنگش

    جناب ڈاکٹر صاحب،
    منطقی بات کی ہے، کچھ عرصہ سے ان ہی قوانین جو "امیوبا" کی طرح ہر آنے والے دن کے ساتھ شکل بدلتے رہتے ہیں، میں بھی سخت نالاں ہوں۔
    یہ تو ایک ایسی کہانی ہے، جو ہر شعبے میں موجود ہے، صرف نام اور شکل بدل جاتی ہے۔

  5. منیر عباسی

    اب ہم اگر اپنے حقوق کے لئے کوئی قدم اُٹھائیں تو پتہ ہے یہاں میں نے لوگوں کو کیا کہتے سنا ہے؟

    لوگ کہتے ہیں،

    ’کیا کریں گے اتنا پیسہ سمیٹ کر، آخر قبر میں ہی تو جانا ہے ‘۔۔

  6. منیر عباسی

    اس مراسلے کے سلسلے میں آخری بات جو میں کہنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ ، متذکرہ بالا حکم کے سلسلے میں آج چیف ایگزیکٹیو صاحب سے بات ہوئی تو انھوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ایف سی پی ایس کے ٹرینی ڈاکٹرز اس حکم سے مستثنی ہیں۔

    معاملے کی سنگینی محسوس کرنے پر اس حکم میں ترمیم کی گئی ہے، اس پر میں اور میرے تمام ٹرینی دوست انتظامیہ کے ممنون ہیں۔

  7. محترم منیر عباسی صاحب!

    آپ کی اسقدر معلوماتی تحریر پہ اتنی دیر سے رائے دے رہا ہوں امید کرتا ہوں آپ اس ناچیز کی اس تاخیر کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔

    آپ نے بہت معلوماتی تحریر لکھی ہے جس سے بہت سے لوگوں کو بہت سی ایسی باتوں سے اور میڈیکل کے ان پہلوؤں سے واقفیت ہوئی ہوگی جن کے بارے میں انکی معلومات بنے بنائے مفروضات پہ مبنی ہیں۔

    اس پوسٹ کے لکھنے کا میری طرف سے شکریہ قبول فرمائیں۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں