Skip to content

گھریلو تشدد کی وبا

 

گزشتہ کچھ عرصے سے گھریلو تشدد کی خبریں تواتر سے اخبارات و رسائل کی زینت بن رہی ہیں۔ اور پے در پے کچھ واقعات ایسے ہوگئے کہ ان کے نتیجے میں ماروی سرمد اور مولانا حمداللہ کی آپس میں تُو تُو میں میں والا واقعہ تو پورے ملک نے دیکھا۔

جتنے مُنہ اُتنی باتیں کے مصداق میں بھی اس معاملے پر بولنا چاہتا ہوں۔

ہم اس وقت دو رُخی والی زندگی جی رہے ہیں، ہمارے معاملات، اخلاقیات اور اچھائی بُرائی کے تصورات اب مغربی معیارات سے ہم آہنگ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ مگر مغربی معیارات کہیں کہیں کیا ہر جگہ ناقص ہیں۔ انھیں بعینہٖ اُسی صورت میں یہاں نہیں چلایا جاسکتا۔

ہم لوگ اس وقت مکمل طور پر مغربی معاشرت کے لئے تیار نہیں ہیں، مگر کیا کیجئے، ہمارے گھروں میں ٹیلی ویژن دن رات مغربی معاشرت کے معیارات کے مطابق گھڑے گئے قصے ہمیں دکھلاتا رہتا ہے، جو مواد مردوں کے لئے ہیجان انگیز ہوگا، کیا وہ خواتین کے لئے نہ ہوگا؟

ہر شہر میں کیبل کے مقامی چینل ، جسے سی ڈی والا چینل بھی کہا جاتا ہے، کا مواد یکساں ہوتا ہے، جس پر غیر سنسر شدہ مواد سر عام چلتا ہے۔ یہی مواد سب پر یکساں طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ سوائے اُن کے جن کو اللہ بچا لے۔

یہ سب کچھ جس طرز معاشرت کی طرف ہم سب کو تیار کر رہا ہے وہ ہمارے معاشرے کے لئے اجنبی تو ہے ہی، نقصان دہ ہی ہے۔

اس صورت حال میں دو فریق ہیں۔ ایک وہ جو اس کلچر کے مطابق زندگی گزارنا چاہتا ہے جس میں وہ پیدا ہوا، جس میں وہ پلا بڑھا اور جس سے وہ مانوس ہے۔

اور دوسرا وہ جو مغربی کلچر کواپنے سامنے پروان چڑھتا دیکھ کر اس سے مانوس ہوا اور اب اپنی زندگی اس کے مطابق گزارنا چاہتا ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت ہمارا معاشرہ حالت جنگ میں ہے اور اس بات کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ کونسا فریق فتح یاب ہوگا۔

تب تک ہمارا معاشرہ اس قسم کی خبروں سے دوچار رہے گا۔

ninpage1-temp-1662016

روزنامہ امت کی ویب سائٹ سے لی گئی ایک خبر۔

 

 

 

1 thought on “گھریلو تشدد کی وبا”

  1. ہمارے معاشرے کا مسئلہ یہ ہے کہ دعوٰی مسلمان ہونے کا ہے لیکن دل مادر پدر آزاد ی میں اٹکا ہے ۔ وجہ ظاہری چمک دھمک ہے ۔ جس مُلک میں اسلام کے نام پر جوا کھلایا جائے ۔ رمضان کے پروگرام اداکار اور اداکارائیں کریں جن کام عزتِ نفس اور جسم بیچ کر مال کمانا ہو ۔ جہاں دینی مسائل ایسے لوگ بیان کریں جنہوں نے کسی منظور شدہ درسگاہ سے دین کی تعلیم حاصل نہ کی ہو ۔ جہاں حکومت بہترین طریقے سے چلانے کا دعوٰی وہ کرے جو اپنے گھر کا نظام نہ چلا سکے ۔ جہاں دوسروں پر لوٹ مار کا الزام وہ لگائے جو خود لوٹ مار کرتا ہو ۔ وہاں آپ کس نظام اور کس بہتری کی توقع رکھتے ہیں ۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں