Skip to content

کیا قرآن میں واقعی امیہ ابن ابی الصلت کا کلام موجود ہے؟؟

محمد علی مکی اپنے بلاگ میں اپنے علم کے زور پر کچھ یوں کہتے ہیں کہ :

عربی ادب اتنا بڑا باب ہے کہ میں تو کیا کوئی بھی اس کا پورا پورا احاطہ نہیں کر سکتا، چاہے وہ اسلام سے پہلے کا ادب ہو، اسلام کے بعد کا ہو یا آج کے دور کا، یہاں میں امیہ بن الصلت نامی ایک شاعر کا کلام پیش کرنا چاہوں گا، شعراء تو بہت ہیں بلکہ شعراء کا ایک انبار ہے تو پھر امیہ بن الصلت ہی کیوں؟ بھئی اس کی بڑی قوی وجہ ہے، یہ وہی امیہ بن الصلت ہے جس کی شاعری میں زمین وآسمان، چاند اور سورج، فرشتے اور انبیاء، حساب وکتاب، جنت و جہنم اور خدا کی وحدانیت کا ذکر تھا اور جس کی شاعری کے نمونے قرآن میں جا بجا پائے جاتے ہیں…!!

اور آگے چل کر محمد علی مکی ہی یہ کہہ جاتے ہیں کہ :

غرض کہ ہم اگر صرف امیہ بن الصلت کی شاعری کا ہی جائزہ لیں تو قرآن اس کے سامنے چغلی کھاتا نظر آتا ہے، جاہلیت کی شاعری سے قرآن کا اقتباس ایک طویل باب ہے جس پر پھر کبھی سورج کی روشنی ڈالی جائے گی، فی الحال میں اسی پر اکتفاء کرتا ہوں، اگر آپ کو عربی آتی ہے اور مزید کا شوق ہو تو امیہ بن الصلت کے دیوان کا کچھ حصہ یہاں ملاحظہ فرمائیں اور اپنی بے چارگی پر سر دُھنیں.

تالیاں۔
گویا آج کل جس کلام کو ہم اللہ کا کلام سمجھ کر پڑھ رہے ہیں وہ ایک انسان کے کلام کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ مگر کیا واقعی یہی بات ہے؟ اگر ایسی بات ہے تو پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ محمد علی مکی کا ہیرو امیہ بن ابی الصلت تھا کون۔ اور کیا واقعی اس نے ایسی کوئی بات کی بھی تھی؟ اور اگر کی بھی تھی تو مکہ کے مشرکین بے چارے اس بات کو سامنے کیوں نہ لاسکے۔
یہ ایسی کیا خاص بات ہے کہ جو سن 2011 میں محمد علی مکی پر ہی منکشف ہوتی ہے۔ آئیے مطالعہ کرتے ہیں۔

آگے آنے والی تمام تحریر کا کریڈٹ اس کے اصل مصنف اور اس کے اردو مترجم ابو نجمہ سعید کو جاتا ہے۔ اللہ ہم سب کو ہدایت نصیب کرے:

سوال: کیا قرآن کا مآخذ امیہ بن ابی الصلت کی شاعری ہے؟

جواب:
امیہ بن ابی الصلت قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھنے والا مخضرمی شاعر تھااورطائف میں رہتا تھا۔ اس کا باپ اوراسکی بہن فارعہ بھی شاعر تھی۔ دو بیٹیاں اور کچھ قریبی رشتہ دار بھی شاعر تھے۔اس کا ایک بھائی ہذیل تھا جو محاصرہ طائف میں گرفتار ہوا اور شرک کی حالت میں مرا۔امیہ جادہ اعتدال پہ قائم ان شعراء میں سے تھا جو بتوں کی عبادت پہ بھڑک اٹھاکرتے تھے ،اللہ اور آخرت پہ ایمان رکھتے تھے ،برے اخلاق جو اس وقت جزیرۃ العرب میں رائج تھے انکو ناپسند کرتے تھے اورعرب میں مبعوث ہونے والے نبی کا انتظار کیا کرتے تھے ۔بلکہ امیہ کا خیال تھا کہ وہ نبی وہی ہوگا چنانچہ وہ مذہبی شخصیات سے میل جول رکھتا تھا انکی کتابوں سے استفادہ کرتا تھا اور اپنے اشعار میں ان کتابوں کے مضامین پیش کرتا تھا ۔ وہ کثیر السفر اور تجارتی آدمی تھا۔مصادر و مآخذ کا اس بات پہ اتفاق ہے کہ امیہ کفر کی حالت میں مرا ہے اور اس کا یہ کفر بر بنائے بغض و عناد تھا ۔ جب اسے پتہ چلاکہ وہ ممکنہ مبعوث نبی محمد ﷺ ہیں چنانچہ تو وہ طائف چھوڑ کر یمن چلا گیا اور اپنی دو بیٹیاں بھی ساتھ لیتاگیا جو یمن میں رہا کرتی تھیں اور امیہ خود جزیرۃ العرب کے مختلف ملکوں:یمن بحرین مکہ شام مدینہ اور طائف میں سفر کرتا تھا ۔ روایات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک بار مکہ آیا ۔حضور ﷺبھی ان دنوں مکہ میں ہی تھے ۔وہاں اس نے حضورﷺ سے سورہ یس سنی اور حضور کی تصدیق کی۔ مشرکین مکہ نے اس کی بابت جب پوچھا تو اس نے کہا کہ محمد ﷺ حق پر ہیں ۔لیکن پوشیدہ بغض و عناد نے اس کو اسلام میں داخل ہونا کا اعلان کرنے سے روک دیا۔ایک دوسری روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ اس نے دوسری بار حضورﷺ سے ملاقات کرنے اور اسلام میں داخل ہونے کا اعلان کرنے کے مقصد سے مدینہ کا سفر کیا لیکن راستہ میں مشرکین نے اس کی راہ مار دی اور حضورﷺ کے خلاف اس کے کینہ کو یہ بتا کر بھڑکا دیاکہ محمد ﷺ نے غزوہ بدر میں تمہارے رشتہ داروں کو قتل کیا ہے ۔ یہ سن کرامیہ پہلے جیسا ہوگیا اور اسکا سارا کینہ لوٹ آیا ،وہ رویا اور زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق اپنی اوٹنی کے پاؤں کاٹ ڈالے۔ اسی پر بس نہ کیا بلکہ مقتولین بدر کا مرثیہ کہا اور مشرکین کو مقتولین کے خون کا بدلہ لینے پہ ابھار نے لگا۔یوں وہ اسلام کو چھوڑ کر شرک اور بت پرستی کی گود میں جا بسایہاں تک کہ سن آٹھ یا نو ہجری (علی اختلاف الاقوال)حضور ﷺکے طائف کو فتح کرنے سے تھوڑا پہلے طبعی موت مرگیا۔ یہی بات زیادہ راجح ہے۔
(حوالہ : شعراء النصرانية قبل الإسلام/ ط2/ دار المشرق/ بيروت/219 وما بعدها، ود. جواد على/ المفصَّل فى تاريخ العرب قبل الإسلام/ ط2/ دار العلم للملايين/ 1978م/ 6/ 478- 500، وبهجة عبد الغفور الحديثى/ أمية بن أبى الصلت- حياته وشعره/ مطبوعات وزارة الإعلام/ بغداد/ 1975م/ 46 فصاعدا. وله تراجم فى “طبقات الشعراء”، و”الشعر والشعراء”، و”الأغانى” وغيرها)
امیہ کے دیوان میں دونوں قسم کے اشعار رلے ملے ہیں وہ اشعاربھی جنکی اسکی جانب نسبت صحیح ہے اور وہ اشعار بھی جنکی اسکی جانب نسبت صحیح نہیں ہے جنکے بارے میں یہ اطمنان نہیں ہوتا کہ یہ اسی کے اشعار ہیں بلکہ دوسری قسم کے اشعار زیادہ ہیں۔ اس سے منسوب اکثر اشعار دینی مسائل پر مشتمل ہیں جیسےتکوینی نظام ،تکوینی نظام کے اللہ کے رب ہونے پر دلائل،فرشتوں کی مدح وتوصیف، فرشتوں کا پروردگار کی تسبیح کو لازم پکڑے رہنا اور اسکی مرضی پہ عمل کرتے رہنا،قیامت اور قیامت میں ہونے والے حساب ،ثواب اور سزا کی خبر دینا، انبیاء کے اپنی قوموں کے ساتھ واقعات کی حکایت ۔ جبکہ دوسری طرف اسکے اشعارعبد اللہ بن جدعان کی مدح میں اور اپنی ذات اور اپنے قبیلہ کے اوپر فخر پر مشتمل ہیں۔
اسکی جانب منسوب وہ دینی اشعار جو قرآن کریم سے لفظا و معنا بہت مشابہت رکھتے ہیں یہ ہیں
الحمد والنعماء والمُلْك ربنا * فلا شىء أعلى منك جَدًّا وأَمْجَدُ مليكٌ على عرش السماء مهيمنٌ

* لعزّته تَعْنُو الجباه وتسجدُ مليك السماوات الشِّدَاد وأرضها * وليس بشىء فوقنا يتأودُ تسبِّحه الطير الكوامن فى الخفا

* وإذ هى فى جو السماء تَصَعَّدُ ومن خوف ربى سبّح الرعدُ حمده* وسبّحه الأشجار والوحش أُبَّدُ من الحقد نيران العداوة بيننا

* لأن قال ربى للملائكة: اسجدوا لآدم لمّا كمّل الله خلقه * فخَرُّوا له طوعًا سجودا وكدّدوا وقال عَدُوُّ الله للكِبْر والشَّقا:

* لطينٍ على نار السموم فسوَّدوا فأَخْرَجَه العصيان من خير منزلٍ * فذاك الذى فى سالف الدهر يحقدُ

ويوم موعدهم أن يُحْشَروا زُمَرًا * يوم التغابن إذ لاينفع الحَذَرُ
مستوسقين مع الداعى كأنهمو * رِجْل الجراد زفتْه الريح تنتشرُ
وأُبْرِزوا بصعيدٍ مستوٍ جُرُزٍ * وأُنـْزِل العرش والميزان والزُّبُرُ
وحوسبوا بالذى لم يُحْصِه أحدٌ * منهم، وفى مثل ذاك اليوم مُعْتبَرُ
فمنهمو فَرِحُ راضٍ بمبعثه * وآخرون عَصَوْا، مأواهم السَّقَرُ
يقول خُزّانها: ما كان عندكمو؟ * ألم يكن جاءكم من ربكم نُذُرُ؟
قالوا: بلى، فأطعنا سادةً بَطِروا * وغرَّنا طولُ هذا العيشِ والعُمُرُ
قالوا: امكثوا فى عذاب الله، ما لكمو* إلا السلاسل والأغلال والسُّعُرُ
فذاك محبسهم لا يبرحون به طول المقام، وإن ضجّوا وإن صبروا
وآخرون على الأعراف قد طمعوا * بجنةٍ حفّها الرُّمّان والخُضَرُ
يُسْقَوْن فيها بكأسٍ لذةٍ أُنُفٍ * صفراء لا ثرقبٌ فيها ولا سَكَرُ
مِزاجها سلسبيلُ ماؤها غَدِقٌ * عذب المذاقة لا مِلْحٌ ولا كدرُ
وليس ذو العلم بالتقوى كجاهلها * ولا البصير كأعمى ما له بَصَرُ
فاسْتَخْبِرِ الناسَ عما أنت جاهلهُ * إذا عَمِيتَ، فقد يجلو العمى الخبرُ
كأَيِّنْ خلتْ فيهمو من أمّةٍ ظَلَمَتْ * قد كان جاءهمو من قبلهم نُذُرُ
فصدِّقوا بلقاء الله ربِّكمو * ولا يصُدَّنَّكم عن ذكره البَطَرُ
* * * قال: ربى، إنى دعوتك فى ا لفـــــــــــــــ*ــجر، فاصْلِحْ علىَّ اعتمالى
إننى زاردُ الحديد على النــــــــــــــــــــــــ*ــاس دروعًا سوابغ الأذيالِ
لا أرى من يُعِينُنِى فى حياتى * غير نفسى إلا بنى إسْرالِ
مشنریوں کو یہ گمان ہے کہ اسلام، رسول اور انکی باطل (نعوذباللہ( کتاب کے خلاف لوگوں کو جمع کرنا ہمارے بس میں ہے سو مذکورہ مشابہت کی وجہ سے مشنریاں یہ گمان کرتی ہیں کہ قرآن میں امیہ کے اشعار چرائے کئے گئے ہیں۔ جبکہ جاہلی ادب کے متعدد بڑے بڑے ریسرچر ،خواہ وہ مستشرقین ہوں یا مسلمان، مشنیوں کے مذکورہ گمان کے بر عکس یہ کہتے ہیں کہ قرآن سے مشابہت رکھنے والے امیہ کے اشعار جو اسکی جانب منسوب کئے گئے ہیں غلط منسوب ہیں۔ مستشرقین میں سے یہ بات تور اندریہ، برو کلمان اور براو نے ، اور عرب علماء میں سے ڈاکٹر طہ حسین، شیخ محمد عرفہ،ڈاکٹر عمر فروخ،ڈاکٹر شوقی ضعیف ،ڈاکٹر جواد علی اور بہجہ الحدیثی نے کہی ہے۔ اس کےباوجود بعض مستشرقین جیسے فرانسیسی مستشرق کلیمان ھوار کا یہ خیال ہے کہ نبی پاک ﷺ نے قرآ ن کے ایک حصہ میں امیہ کے اشعار لئے ہیں۔ اور بعض مستشرقین کا یہ خیال ہے کہ حضور اور ورقہ دونوں نے ایک ہی مآخذ سے مدد لی ہے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہےکہ المانی مستشرق کارل بروکلمان یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہتا ہےکہ امیہ کے نام سے جو اشعار روایت کئے جاتے ہیں وہ اسکی جانب غلط منسوب ہیں ماسوائے مقتولین بدر کے مرثیہ کے۔اور فرانسیسی مستشرق کلیمان ھوار جو یہ گمان کرتا ہے کہ امیہ کے اشعار قرآن کے مصادروں میں سے ایک مصدر ہے تو اس سلسلہ میں حق بات وہ ہے جو تور اندریہ نے کہی ہے کہ یہ اشعار وہ ہیں جن میں افسانہ نویسوں نے قرآنی واقعات کا وہ مٹیر یل جمع کردیا ہے جسکی مفسرین نے تخریج کی ہے۔
دائرۃ المعارف الاسلامیہ کے پہلے ایڈیشن میں مضمون” امیہ ابن ابی الصلت “کے رائٹر: براو فرانسیسی مستشرق کے الزام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ امیہ کی جانب منسوب اشعار کی صحت مشکوک ہے ، ان اشعار کا حال عام جاہلوں کے اشعار جیسا ہے ۔ اور یہ قول کہ محمد نے امیہ کے اشعار سے اقتباس لیا ہے یہ ایسا گمان ہے جو ایک تفصیلی سبب کی وجہ سے بعید الاحتمال ہےاور وہ سبب یہ ہے کہ امیہ ان کہانیوں کو اچھی طرح جاننے والا تھا جن پر ہم گفتگو کر رہے ہیں۔نیز اسکی کہانیاں تفصیل میں جاکر قرآن میں وارد واقعات سے مختلف ہوجاتی ہیں۔قرآن اور امیہ کے اشعار کے درمیان مشابہت پہ تبصرہ کرتے ہوئے مزید کہتا ہے کہ حضور کی بعثت کے وقت اور اس سے تھوڑاپہلے ایسے فکری رجحان (معاشرہ میں ) پھیل گئے تھےجو حنفاء کی رائے کے جیسے تھے ،جن افکار نے اکثر لوگوں کے دل موہ رکھے تھے، جنکو یہودیوں کی تورات کی تفاسیر اور مسلمانوں کی کہانیوں میں سے ہر دونے فروغ دیا۔
اس کے بعد براو نے ہمیں وہ بات بتائی جسکی حقیقت تک تور اندریہ پہنچا کہ امیہ کے دینی اشعار کی نسبت اسکی طرف صحیح نہیں ہے ،اس کے اشعار کا یہ (پھیکا)رنگ مفسرین کے ان اشعار کواس کی جانب غلط منسوب کرنے کی وجہ سے ہے ۔ (دائرة المعارف الإسلامية/ الترجمة العربية/ 4/ 463- 464)۔
طہ حسین: یہ اشعار جنکی امیہ کی جانب اور حضور کے زمانہ کے حنیف شعراء کی جانب نسبت کی جاتی ہے غلط نسبت کی جاتی ہے ۔انکی جانب (جاہل)مسلمانوں نے یہ غلط نسبت کی ہے تاکہ وہ اسلام کا قدیم اور سابق ہونا ثابت کرسکیں۔(فى الأدب الجاهلى/ دار المعارف/ 1958م/ 145). شیخ محمد عرفہ:اگر قرآن اور اشعار امیہ کے درمیان مشابہت ہوتی تو ان مشرکین کو یہ بات کہنے چاہئے تھی جنکو قرآن نے مثل لانے کا چیلنچ دیا تھا کہ یہ مثل امیہ لا چکا ہے ۔انہوں نے حضور ﷺ پر یہ الزام تو لگایا کہ انکو ایک عجمی غلام قرآن سکھاتا ہے مگرامیہ کتےتعلق سے انہوں نے مذکورہ بات نہ کہی ۔ نیز امیہ کے یہ اشعار اپنی بناوٹ میں ایام جاہلیت کے اشعار کے مشابہ نہیں ہیں کیونکہ یہ ایسے اشعار ہیں جنکی بناوٹ اور کمزوری شعراء متاخرین کے اشعار کی طرح بلکل واضح ہے ۔یہیں سے یہ بات کہی گئی ہے کہ یہ اشعار جو امیہ کی جانب منسوب کئے گئے ہیں یہ غلط اور جھوٹ منسوب کئے گئے ہیں (من تعليق الشيخ محمد عرفة على مادة “أمية بن أبى الصلت” فى “دائرة المعارف الإسلامية”/ 4/ 465)
ڈاکٹر عمر فروخ:”امیہ کے اشعار کی بڑا حصہ ضائع ہوچکا ہے اور مستند طور سے اس سے سوائے مقتولین بدر کے مرثیہ کے کچھ ثابت نہیں ہے “۔ ایسے ہی ہم ڈاکٹر صاحب کو بھی اس بات کی توثیق کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ امیہ کی جانب منسوب دینی اشعار کمزور بناوٹ رکھتے ہیں انمیں کوئی رونق نہیں ہے (د.عمر فروخ/ تاريخ الأدب العربى/ ط5/ دار العلم للملايين/ 1948م/ 1/ 217- 218)۔
ڈاکٹر شوقی ضعیف:” امیہ کا مذکورہ اشعار میں قرآن سے مدد لینا واضح طور سے ثابت ہورہا ہےمگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ امیہ قرآن سے متاثر تھا”۔ بلکہ ڈاکٹر صاحب بھی اس بات کی توثیق کرتے ہیں کہ امیہ کی جانب منسوب اشعار کمزور اشعار ہیں جن کو بعض قصہ گوؤں اور واعظوں نے زمانہ جاہلیت کے بعد تیار کیا ہے ۔اور فرانسیسی مستشرق کلیمان ھوار کے دعوی کی تردید کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اس مستشرق کو عربی زبان اور زمانہ جاہلیت کے اسالیب و طرز کا علم نہیں ہے ۔اگر اس کو ان کا علم ہوتا تو اس پر یہ بات واضح ہوجاتی کہ مذکورہ اشعار غلط منسوب کئے گئے ہیں جنکا غلط منسوب کیا جانا بلکل واضح ہے (د. شوقى ضيف/ العصر الجاهلى/ ط10/ دار المعارف/ 395- 396
ڈاکٹر جواد اپنی کتاب المفصل فی تاریخ العرب میں وثوق کے ساتھ یہ بات کہتے ہیں کہ امیہ کے بعض دینی اشعار اس کے کھاتہ میں ڈالے گئے ہیں ۔اسی وجہ سے یہ بات ممکن نہیں ہے کہ امیہ نے قرآن سے چوری کی ہو گی اگر اس نے چوری کی ہوتی تو حضور ﷺ اور مسلمان اس کا مذاق اڑاتے ۔ ڈاکٹر صاحب کا بھی یہی خیال ہے کہ قرآن سے مشابہت رکھنے والے یہ اشعار بعد میں گھڑے گئے ہیں کیونکہ یہ نہ تورات میں ہیں نہ انجیل میں اور نہ کسی اور مذہبی کتا ب میں ماسوائے قرآن کے۔ اور ان اشعار کا اکثر حصہ حجاج کے زمانہ میں اس کا تقرب حاصل کرنے کیلئے گڑھا گیا ہے ۔(حجاج بھی امیہ کی طرح ثقفی تھا ۔ ابو نجمہ سعید) یہ بات بھی خاص ہے کہ امیہ کے دینی اشعار ان اشعار سے بلکل مختلف ہیں جو مدح اور مرثیہ پہ مشتمل ہیں ۔ان دینی اشعار میں اسکا لہجہ فقہاء صوفیاء اور پادریوں جیسا ہے ۔نیز راویوں کے اشارے بھی اس بات کی جانب بار بار ہوئے ہیں کہ امیہ کی جانب منسوب اشعار دیگر شعراء کی جانب بھی منسوب ہیں۔پھر امیہ حضور کی تعریف بھی کرتا ہے۔اسکی جانب ایسے اشعار بھی منسوب ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ حضور پر ایمان لے آیا تھا۔کیا مقتولین بدر کے مرثیہ کے ساتھ ان اشعار کی گنجائش ہے ؟ (المفصَّل فى تاريخ العرب قبل الإسلام/ 6/ 491- 496)۔
بہجہ عبد الغفور حدیثی امیہ کے اشعار کی دو قسمیں کرتے ہیں ۔ ایک قسم وہ جس میں اس پر حنیفیت اور یہود و نصاری کی کتابوں کا اثر ہے دوسری قسم وہ جس میں اس پر قرآن کا اثر ہے ۔ حدیثی صاحب کا رجحان یہ ہے کہ پہلی قسم کے اشعار اسی کے ہیں جیسا کہ اسلوب اور معانی پتہ دے رہے ہیں ۔اور دوسری قسم کے اشعار اس کی جانب غلط منسوب ہیں اس دلیل سے جو ان پہ واضح ہو ئی کہ ان اشعار کی زبان اور بناوٹ کمزور ہے اور انکا لہجہ قرآن سے مدد لیتا ہے۔
(أمية بن أبى الصلت- حياته وشعره/ 127۔
میں نے نیٹ پر کتب احادیث میں وہ روایات تلاش کیں جن میں امیہ کے اشعار کا کچھ تذکرہ ملتا ہو تو مجھے ان تین اشعار کے علاوہ کچھ نہ ملا جو مسند احمد میں آئے ہیں جن میں امیہ سورج اور عرش الہی کی بابت وہ گفتگو کرتا ہے جو قرآن میں نہیں ہے جن کی حضور ﷺ نے تصدیق کی تھی
رجلٌ وثورٌ تحت رجْل يمينه * والنسر لليسرى، وليثٌ مُرْصَدُ
والشمس تطلع كل آخر ليلة * حمراءَ يصبح لونها يتورّدُ
تأبَى فلا تبدو لنا فى رِسْلها * إلا مُعَذَّبَةً وإلا تُجْلَدُ
مسند ابن ماجہ اور مسند احمد میں یہ بھی آتا ہے کہ ایک بار شرید بن صامت رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کے سامنے امیہ کے سو اشعار پڑھے،جب شرید اشعار پڑھ کے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا :ھیہ۔ یعنی اور سناؤ۔ بھر آخر میں حضور نے تبصرہ کیا:وہ مسلمان ہونے کے قریب تھا ۔
مسند احمد کی ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ آپ نے کوئی تبصرہ نہیں فرمایا تھا بلکہ خاموش ہوگئے شرید بھی آپکی خاموشی دیکھ کر خاموش ہوگئے۔
جب میں قرآن سے مشابہت رکھنے والے امیہ کے اشعار کی تخریج کی جانب لوٹتا ہوں(جنکی تخریج بہجہ حدیثی نے اپنے رسالہ میں کی ہے)تو میری توجہ اس بات کی جانب مبذول ہوتی ہے کہ مذکورہ اشعار یا انکے علاوہ وہ اشعار جن میں تھوڑی بہت قرآن سے مشابہت پائی جاتی ہے یہ ادب، لغت اورتاریخ کی کتابوں میں اور معتبر تفاسیر میں دیکھنے کو نہیں ملتے جیسے ابو زید قرشی کی جمہرۃ اشعار العرب، ابن اسلام کی طبقات الشعراء، ابن قتیبہ کی الشعر و الشعراء، اصفہانی کی اغانی، طبری کی تاریخ الرسل و الملوک اور جامع البیان فی تفسیر القرآن ۔ بلکہ ان اشعار میں سے اکثر اشعار پہلے ایڈیشن میں نہیں ہیں ۔مزید یہ کہ اس کے کچھ اشعار ایک ہی وقت میں دیگر شعراء کی جانب بھی منسوب ہیں
ہمارے متقدمین علماء امیہ کے اشعار اور قرآن میں مشابہت پر واقف کیوں نا ہوسکے علاوہ محمد بن داؤد انطاکی کے جو قرآن پہ امیہ کے اشعار کی چوری کا الزام لگا نے والوں کی یہ کہتے ہوئےتردید کرتے ہیں کہ یہ الزام صحیح نہیں ہے۔کیونکہ یہ بات ممکن نہیں ہے کہ حضور ﷺ اپنی کتاب میں ایسے شخص کے اشعار کی مدد لے رہے ہوں جو انکی نبوت کا اقرار کرتا ہو اور انکی دعوت کی تصدیق کرتا ہو ۔ بالفرض اگر ایسا ہوتا تو امیہ حضور ﷺ پر چوری کا الزام لگانے میں دیر نہ لگاتا اور یوں ذرا سی محنت سے وہ حضور ﷺ کے دعوائے نبوت کو ساقط کردیتا۔
الزهرة/ تحقيق د. إبراهيم السامرائى ود. نور حمود القيسى/ ط2/ مكتبة المنار/ الزرقاء/ 1406هـ- 1985م/2/

جاری ہے۔

7 thoughts on “کیا قرآن میں واقعی امیہ ابن ابی الصلت کا کلام موجود ہے؟؟”

  1. سُبحان اللہ وجزاکم اللہ خيراٌ
    ابو نجمہ محمد سعيد پالنپوری صاحب کو ميں اُستاذ مانتا ہوں ۔ ميرے بلاگ لکھنے کے سات سالہ دور ميں يہ واحد شخص ہيں جنہوں نے ميری دو تين بار تصحيح کی ہے ۔ باقی صرف نقطہ بازی کرتے رہے ہيں ۔ ميں موضوع پر زبان کھولنا نہيں چاہتا کيونکہ مجھے پھر سے سب کچھ پڑھنا اور اُس کا ترجمہ کرنے کيلئے دماغ پر زور دينا پڑے گا جو کہ حادثہ کے بعد سے اب تک کرنے ميں معذور ہوں ۔ مجھے اطمينان ہے کہ اللہ نے ابو نجمہ محمد سعيد پالنپوری صاحب سے بروقت ميرا غائبانہ تعارف کرا ديا

  2. جزاک اللہ۔ بہت مناسب تحریر ہے اور قرآن کی بنیاد پر اُٹھائے گئے ایک سوال کا شافی جواب دیا گیا ہے۔اللہ مزید کی توفیق دے۔

  3. واہ پڑھ کر مزا اگیا۔ اس گمراہ مکی کی ایک اور بات ہوا ہوگئی۔ میں نے اس کم بخت کو پہلے ہی کہا ہوا ہے کہ یا تو خود پھسل رہے ہو یا کوئی دوسرا تحقیق کے نام پر اسکو ورغلا رہا ہے۔

    لیکن یہ ہے کہ بس۔۔۔۔

    ابو نجمہ سعید اور منیر عباسی صاحب بہت بہت شکریہ

  4. ڈفر - DuFFeR

    مکی صاحب سے کسی نے پوچھا ہے کہ آخر وہ عربوں سے بھی بڑھ کر عربی کے استاد ہیں؟ اگر نہیں توعربوں کو ان سے بڑھ کر قرآن پر اعتراضات ہونے چاہئیں تھے اور اگر ہاں تو پھر امیہ ابن ابی الصلت کو کوٹ کرنے کی بجائے خود اپنا کلام پیش کیوں نہیں‌کرتے؟
    مزید یہ کہ کیا مکی صاحب اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں؟ اپنے عقیدے کی تعریف کر دیں‌ تو کافی لوگوں‌پر احسان رہے کیونکہ مجھے بہت زیادہ امید ہے کہ کچھ لوگ یقینا انکے مذہب کے پیروکار ہونا چاہیں گے تو انکو اآسانی رہے گی

  5. کسی کو پسند کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم گمراہ ہو جائیں مکی صاحب کو گر امیہ کی شاعری پسند ہے اپنی جگہ پر اس کی شان مین یوں گمراہ ہوجانا حد درجہ جہالت ہے عبدالحکم بن ہشام بن المغیرہجیسا عالم بھی گمراہی کے باعث ابوجہل کے نام سے جانا جاتا ہے اپنی حدوں کو کبھی نہیں بھول جانا چاہیئے اللہ آپ کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے بھائی مکی اور منیر بھائی آُ پکا شکریہ

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں