Skip to content

کیا صوفی اسلام بنیاد پرست اسلام نہیں ہے؟

خواجہ معین الدین اجمیری ، بابا فرید گنج شکر، شیخ علی ہجویری، بہاءالدین زکریا رحمۃاللہ علیھم اجمعین ان چند بزرگان دین کے نام ہیں جن کی محنت اور کاوش نے اس خطے کے بہت سے لوگوں کو ہدایت کی روشنی کی طرف آنے میں رہنمائی کی۔ ان سب بزرگان کی خدمات کا انکار نا ممکن ہے۔ یہ بزرگ معرفت اور دین پر عمل میں ہم سے جتنے آگے تھے ہم تو اس کا کچھ بھی نہیں ہیں۔اس سب کے باوجود ، صوفیاء کے نام پر اب جو کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ اتنا اچھا نہیں ہے۔ بابا بلھے شاہ، شاہ حسین اور دوسرے صوفیا کا کچھ ایسا کلام صوفی اسلام کے نام پر استعمال کر کے لوگوں کو دین کی بنیادی باتوں سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کا حقیقی مطلب کچھ اور ہوتا ہے۔

 

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے ابتدائی الفاظ کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ ” بے شک اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے” ۔ بلھے شاہ نے جو کچھ شائد جذب و مستی کی حالت میں کہا ہو، اس کو یون کھلے عام کہتے رہنے سے بہت سے مسائل پیدا ہوں گے۔

مثلا مندرجہ ذیل وڈیو میں جس میں اریب اظہر فنکار ہیں اور یہ کوک سٹوڈیو کی تازہ ترین پیش کش ہے، مذکورہ فنکار نے آخر میں بابا بلھے شاہ کے کلام سے جن جملوں کا انتخاب کیا ہے وہ آپ وڈیو کے آغاز کے بعد سے 4:40 منٹ کے بعد سے آخر تک سن سکتے ہیں۔ یہ جملے شائد پہلی مرتبہ سننے والے ، یا ناواقف کو یہ تاثر دیں‌کہ دین تو اصل میں‌کچھ اور ہے۔ اگر کچھ اور نہ ہوتا تو یوں‌سر عام اس کا اظہار نہ کیا جاتا۔

httpv://www.youtube.com/watch?v=XxH5wQtWZqQ

اگر یوٹیوب کھلنے میں مسئلہ ہے تو اس ربط پر کلک کریں۔

بے شک دین صرف کتابیں پڑھنے کا نام نہیں ہے۔ دین اس علم پر عمل کا نام بھی ہے۔ بے شک ہر مسلمان کو اپنے نفس کے خلاف جہاد کے ساتھ ساتھ اُس قتال کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے جس کا حکم اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں دیا ہے مگر یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے بغیر کچھ بھی نہیں۔ مکے مدینے جا کر آنے کے بعد واپس وہی غلط کام کرنے سے جانے کا فائدہ نہیں، مگر اس کا یہ مچلب بھی نہیں کہ عمل نہ کرسکنے کی سُستی کی بنا پر مکے مدینے جانے کو ہی کم اہمیت کا حامل قرار دے دیا جائے۔ مجھے یقین ہے مذکورہ بالا بزرگان دین کی سمجھ اور اس پر عمل میں ہم سے بہت افضل درجے پر تھے، مگر جس انداز میں ، جو لوگ ان کا کلام فخریہ انداز میں گاتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ بذات خود قابل اعتراض ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ صوفی اسلام کا احیا (احیا؟؟؟) اور اس سے ملتے پروگرام اور کوششیں صرف لوگوں کو یہ باور کرانے کی ناکام کوششیں ہیں کہ آپ دین کے بنیادی ارکان پر عمل نہ کئے بغیر اور ان ارکان کا مذاق اڑا کر بھی مسلمان رہ سکتے ہیں۔

میری بڑی خواہش تھی کہ میں اس سلسلے میں اور تحقیق کروں مگر جاوید اقبال صاحب نے مجھے اب تک کے لئے اس سے بچا لیا ۔

انھوں نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں اس سے ملتے جلتے موضوع پر مولانا طاہر القادری کا مؤقف پیش کیا ہے۔۔ جو کہ سُننے کے لائق ہے۔ یہ مؤقف صوفی اسلام کے بارے میں پیش کردہ مؤقف سے بالکل مختلف ہے۔
پہلی وڈیو پیش خدمت ہے۔

httpv://www.youtube.com/watch?v=77RUdUQpito

اگر یوٹیوب کھلنے میں مسئلہ ہے تو اس ربط پر یہ وڈیو ملاحظہ فرمائیں۔
گو کہ بہت سی باتوں میں میں مولانا سے اختلاف کرنے کی جسارت کروں گا مگر میں اس بات میں ان سے متفق ہوں کہ عمل کے بغیر ہم کیسے بخشش کی توقع کر سکتے ہیں۔ اور عمل بھی کیسا؟ بابا بلھے شاہ کے کلام پہ سر دھنتے ہوئے، گندے کپڑے، بکھرے بال اور چرس یا بھنگ کے کش لگاتے ہوئے ہم کیسے اللہ سے معافی کی توقع کر سکتے ہیں؟

اب ذرا سیاسی بات ہو جائے۔ انھی اولیاء کے اخلاف جو کہ اب ان کے مزارات کی سجادہ نشینی کر کے مزے اڑا رہے ہیں۔ ان کے اعمال کیا ہیں۔ ذرا سی جھلک خالد مسعود خان کے اس کالم میں دیکھ لیجئے گا۔

اس سلسلے کی پہلی تحریر اس ربط پڑھی جا سکتی ہے۔
کیا تصوف شریعت کے خلاف ہے؟
میں نے جہاں تک مطالعہ کیا ہے، ان بزرگان دین نے کبھی بھی تصوف کے نام پر ان حرکات کی اجازت نہیں دی جو آج ان کے مزارات پر یا پھر ان کے نام پر معاشرے میں ہو رہی ہیں۔ یہ اولیا اتنے ہی دین پر عمل کرنے والے تھے جتنا کہ ان کو ہونا چاہئے تھا۔ انھوں نے نمازیں پڑھیں، داڑھیاں رکھیں، مجاہدے کئے تکلیفیں برداشت کیں ، گوشہ نشینی بھی اختیار کی، مدارس میں علم حاصل کیا اور اس سب محنت کے بعد جو کہ یقینا اللہ کی رضا کے لئے تھی، اللہ نے ان کا نام اور ان کا کام ہمارے لئے محفوظ کر دیا۔

آج کل کا صوفی اسلام تو دراصل ان ذمہ داریوں سے فرار کی ایک کوشش ہے۔ جان لیجئے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ والا ہرگز نہیں ہے جس کی ترویج میں فخرمحسوس کیا جا رہا ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر پروگریسو مسلمان کون ہوگا جنھوں نے اُس جاہل معاشرے کو خواتین کو ان کے حقوق  دینے اور جانوروں پر رحم کی ہدایت کی۔ جہاں ان سب چیزوں‌کا تصور تک نہ تھا۔
مجھے ایک صاحبہ کی وہ بات بہت بہت بری لگی جس میں انھوں نے ایک شرابی مسلمان کوپروگریسو مسلمان قرار دیا تھا۔ میں ان پر ذاتی حملہ قطعا نہیں کر رہا، مگر آج کل جو راہ چلی ہے کہ شعائر اسلام کا مذاق اڑایا جائے تو اس سیاق و سباق میں وہ بات تو بہت معمولی سمجھی جانی چاہئے۔

 

21 thoughts on “کیا صوفی اسلام بنیاد پرست اسلام نہیں ہے؟”

  1. کچھ عرصہ پہلے اس موضوع پر بات کی تھی اپنے بلاگ پر http://letsbuildpakistan.org/blog/?p=261 ۔ صوفی ازم کی اصطلاح کب اور کیسے نکلی اس کے لئے تو شائد زیادہ دور نہ جانا پڑے۔ برصغیر میں تو ابتداء سے لیکر ایک آدھ صدی پہلے تک اسلام صرف ایک تھا۔ صوفیاء کیا کہتے ہیں اور کیا کرتے ہیں، کیوں‌کہتے ہیں اور کیوں کرتے ہیں؟ یہ سوالات کسی باعمل صوفی سے ہی کرنا چاہئیں خود سے قیافے لگانا تو مقصدیت سے دور جا پڑنے کا نسخہ ہے۔ خالدمسعود خان صاحب نے بھی جوش میں‌آکر کہاں کی بات کہاں لگا دی۔ اگر ابوجہل کعبہ شریف کے اندر بیٹھ کر ہبل کی پوجا کرتا تھا تو نہ اس سے کعبہ کی حیثیت میں کوئی فرق پڑتا ہے نہ کعبہ کے مالک کی وحدانیت پر۔ یہی حال ان سجادوں کا ہے جو اپنے پرکھوں کے کام سے نہیں ان کے نام سے واسطہ رکھتے ہیں۔ ان کا عمل بھی صوفیوں یا اہل طریقت کے عمل کی اتنی ہی دلیل اور تمثل ہوسکتا ہے جتنا ابوجہل کا عمل خلیل اللہ علیہ السلام کے عمل کی۔

  2. اچھی تحرير ہے مگر اب آپ کو اپنا خيال بھی رکھنا پڑے گا ۔ جان کو يا روزگار کو خطرہ ہو سکتا ہے ۔ صوفی ازم کے نام پر ہمارے دين پر نقب لگائی جا رہی ہے ۔ آپ جائزہ ليں تو معلوم ہو گا کہ غير مسلم ممالک ميں جس اسلام کا پرچار بڑے شان و شوکت سے ہو رہا ہے وہ عام طور پر مرزائيت ہے يا صوفی ازم
    بلاشبہ کچھ باتيں طاہرالقادری صاحب اچھی کہتے ہيں ۔ ميں کسی زمانہ ميں طاہرالقادری صاحب کا مداح تھا پھر جب ان کو قريب سے ديکھا تو دوری اختيار کرنے پر مجبور ہوا
    .-= افتخار اجمل بھوپال´s last blog ..امريکا ميں آزادی اظہارِ رائے ؟؟؟ =-.

  3. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    دراصل بات یہ ہےکہ صوفی ازم کانام لیکرپس پشت اسلام میں نقب زنی کی جارہی ہے۔ اسلام کواسطرح پیش کیاجارہاہےکہ یہ بہت ہی مشکل دین ہے۔ اس میں غیرممالک میں اسلام کی صحیح صورت کوپیش نہیں کیاجارہاہےواقعی میں افتخاربھائی،کی بات پریقین رکھتاہوں کہ غیرممالک میں مرزائیت،صوفی ازم اوراس کےساتھ ساتھ شیعہ ازم کوبھی بہت ہی فعال طریقےسےپیش کیاجارہاہے۔اورجوشکل پیش کی جاتی ہےاسی کانتیجہ ہےکہ آج اتنی بڑی تعدادکےباوجودہم ذلیل وخوارہورہےہیں۔ اللہ تعالی ہم پراپنارحم و کرم کرے۔آمین ثم آمین

    والسلام
    جاویداقبال
    .-= جاویداقبال´s last blog ..Meego 1.0 para netbooks =-.

  4. صوفی ازم پر تبصرہ سے گریز برتتے ہوئے، مجھے تو بلھے شاہ کے کلام کے اس حصہ سے کوئی اختلاف نہیں‌ہے ۔ میری سمجھ کے مطابق یہ ان لوگوں‌ کی طرف اشارہ ہے جو کوئی نیک بھی شہرت کی غرض‌سے کرتے ہیں‌۔ جیسے علم حاصل کرنا برا کام نہیں‌ہے، لیکن حاصل کردہ علم کی بنیاد پر اپنے آپ کو دوسروں‌سے اعلی سمجھنا یہ بری بات ہے ۔ اخیر میں‌ ایسے لوگوں‌ کو بلھے شاہ کہتا ہے کہ جب تک یار مطلب رب کو راضی نہ کرو کسی کام کا فائدہ نہیں مطلب نیت صاف ہونا ضروری ہے ۔
    کم از کم میں‌اس بند کو ہمیشہ اسی تناظر میں‌ سوچتا ہوں‌ ۔
    .-= جہانزیب´s last blog ..بھیانک غلطی =-.

  5. آپ نے تو صوفی ام کی کہانی کو برصغیر میں ایک خاص ھلقے سے جوڑ کر پیش کر دیا۔ جبکہ یہ اتنی سادہ نہیں۔ کچح کہنے پہلے یہ ضرور پوچحنا چاہونگی کہ آپ نے مناسب اھتیاطی تدابیر کر لی ہے اپنی حفاظت کی یا اب تک اس تہلے کو بپا کرنے کے بعد یونہی بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہم تو کئ لوگوں کو روانہ کر چکے ہیں۔
    اپنے ذہن کو بھی سوچنے کی تکلیف دینی چاہئیے اس سے مزید سوچیں پیدا ہونے کی گنجائش نکلتی ہے۔
    رسول اللہ کے زمانے میں صوفی ازم کا کوئ تصور نہیں ملتا۔ خلفاء راشدین کے زمانے میں اسکا کوئ تصور نہیں ملتا۔ اسلام کی تھریک بپا ہونے کے شاید دو ڈھائ سو سال بعد اسلمی دنیا اس لفظ سے آشنا ہوتی ہے اور اس تھریک کا اثر اتنا بڑح جاتا ہے کہ دراصل اسلامی تھریک کے متوازی ایک تحریک چل پڑتی ہے۔ کبھی آپ نے سوچا کہ اسلام کی واضح اور سادہ تعلیمات ہونے کے باوجود اس تحریک نے کیوں جنم لیا جو شریعت کے مقابل لفظ طریقت لے کر آتی ہے۔ جو باطن کی پہچان کی اصطلاح دیتی ہے۔ یا آپ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو مختلف خانقاہوں سے سکون اورباطن کے کشف کو وابستہ کرتے ہیں۔ ایسا ہوتا تو یہ رسم خانقاہی رسول اللہ نے کیوں نہیں چلایا۔
    اگر آپ اسلام کے شروع کے پانچ سو سال کی تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو پتہ چلے گا کہ تصوف نے جبریت کے خلاف علامت کے طور پہ جنم لیا۔ یہی تصوف کی اساس ہے۔
    ورنہ اسلام دین کامل ہے اور اسے کچھ نہیں چاہئیے۔ محمد خدا کے آخری پیغمبر تھے اور انکے بعد کوئ نبی نہیں آئے گا۔ قرآن خدا کی کتاب ہے جس میں ہدایت ہے ہر اس شخص کے لئے جو غیب پہ یقین رکھتا ہے اور اسکے علاوہ ایک بہتر مسلمان بننے کے لئے کسی اور کتاب کی ضرورت نہیں۔ قرآن میں خدا اور رسول کی اطاعت کا تذکرہ ہے۔ امیر کی اطاعت کا تذکرہ ہے اگر وہ صھیھ دین پہ چلتا ہے۔ والدین کی اطاعت کا تذکرہ ہے اگر وہ دین کے خلاف نہیں۔ لیکن کہیں بھیمرشد کی اطاعت کا تذکرہ نہیں آتا۔
    تصوف ایک تھریک تحی جس نے جبر اور ظاہری دکحاوے کے خلاف جنم لیا اور جسکا مقصد مسلمانوں کو واپس دین کی سادگی کی طرف لانا تھا وہ سادگی جس میں ہر انسان خدا کی مخلوق ہے۔ وہ سادگی جہاں انسان کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔
    بعد میں جیسے جیسے یہ خود طاقت کی علامت بنتا گیا۔ حکومتی طاقت کے زیر اثر خانقاہی نظام تشکیل پاتا گیا۔
    جب تصوف خود طاقت کے سرچشموں میں شامل ہو گیا تو آہستہ آہستہ اسکا اثر ختم ہو گیا۔
    اب یہ ایک کھیل کے سوا کچھ نہیں جو مزاروں پہ کھیلا جاتا ہے۔
    تصوف کی اصل روح بغاوت کے جذبے سے وابستہ ، وہ بغاوت جو ان علمائے ظاہر کے خلاف ہے جو اقتدار کی مسند تک پہنچنے کے لئے مذہب کو استعمال کرتے ہیں اور انسانوں کو ایکدوسرے سے متنفر کرتے ہیں۔ ورنہ بلھے شاہ یہ کیوں کہتا ہے کہ بلھے شاہ کی جاناں میں کون۔ یہ تو آپ نے صرف برصغیر کا تذکرہ کیا ہے۔ دراصل اس وقت مغرری ممالک میں جس صوفی شاعر کے بہت زیادہ شہرت ھاصل ہے وہ کوئ پاکستانی یا برصغیر کی تاریخ سے رکھنے والا شخص نہیں بلکہ مولانا رومی ہیں۔ جو کہتے ہیں کہ اگر تو ہزار بار بھی اپنی توبہ توڑ چکا ہے پھر بھی میرے پاس آ۔ رومی کی کلات اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شامل ہے۔
    آپ نے شاید طاہر القادری کی وہ ویڈیو نہیں دیکھی جس میں وہ ایک محفل سماع میں ایک کرسی پہ بیٹھے ہیں اور لوگ آ کر انہیں سجدہ کر رہے ہیں۔ تو یہ ہے انکے نزدیک تصوف کی عملی شکل۔
    واللہ اعلم بالصواب۔
    .-= عنیقہ ناز´s last blog ..اگر =-.

  6. اس ٹاپک اور تبصروں کو صبح نہار منہ پڑھوں گی تو کچھ سمجھ آئے گا فی الحال تو مجھے صوفی ازم کا ہی نہيں پتہ ہمارے محلے ميں تو جس نے داڑھی رکھی ہوتی ہے اور خاموش طبع ہوتا ہے اسے اؤئے صوفی کہہ کر بلاتے ہيں
    .-= پھپھے کٹنی´s last blog ..ماموں =-.

  7. میں عنیقہ ناز کے تبصرے کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ کہوں گا کہ آپ بھی اسی طرز عمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو یورپ اور امریکہ کے عیسائی فہم اسلام کے لئے کرتے ہیں یعنی جو اسلام کو سمجھنے کے لئے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو دیکھتے ہیں ۔

    اسلامی تاریخ میں استعمار کے خلاف سب سے عظیم اور سخت مسلح جدو جہد کے سلسلے کو مریدی جنگیں کہا جاتا ہے ۔ قفقاز میں نقشبندی مجددی سلسلے کے امام شامل روسیوں کے خلاف ، لیبیا میں سنوسی تحریک کے عمر مختار کا اٹلی کے خلاف اور سوڈان میں مہدی سوڈانی کی تحریک‌ انگریزوں کے خلاف ۔ ان سب نے ایک دو سال نہیں بلکہ کئی دہائیاں استعامر کی یلغار کو روکے رکھا ۔ امام شامل نے پچیس سال تک جدو جہد کی ۔
    امام شامل کی حیات کا مطالعہ کرنے کے لئے لیزلی بلانش کی Sabers of Paradise اور عمر مختار کی تحریک کا تذکرہ لیو پولڈ محمد اسد کی کتاب Road to Mecca میں کیا جا اسکتا ہے ۔ لیو پولڈ سعودی بادشاہ کی خواہش پر خفیہ طور پر عمر مختار سے ملاقات کرنے لیبیا گئے تھے ۔

  8. خرم ::‌دیکھیں‌مولانا طاہر القادری بھی تو یہی کہہ رہے ہیں۔ اللہ سے سرزنش یا عذاب کا ڈر اعمال کی بنیاد بنا۔ اور اگر صوفیا نے اللہ سے کوئی امید لگائی بھی تو کچھ اعمال کی بنیاد پر لگائی ہوگی۔ انھوں‌نے ان سب کی تصانیف کا حوالہ بھی دیا۔ اور میں‌ان سے متفق ہوں۔ ان سب کا نام لے کر پھر آج کل جس طرح علما کو علمائے ظاہر کہہ کر ان کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ تو سب کے سامنے ہے۔

    میں نے پہلے بھی کہا، اب بھی برملا کہتا ہوں‌کہ بابا بلھے شاہ نے جو کچھ کبھی کسی جذب و مستی کی حالت میں کہا ہوگا وہ ہر حال میں‌دہرایا نہین جا سکتا۔ چہ جائیکہ آپ اس کی گردان بنا لیں‌اور بابا بلھے شاہ کی بات کو علمائے ظاہر پر اہمیت دیں۔ جیسا کہ عنیقہ نے اپنے تبصرے میں‌کہا کہ تصؤف نبی ایکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر دو ڈھائی سو سال بعد تک نہیں‌تھا۔ تو آپ اس بات کو ذہن میں‌رکھ کر میرے مندرجہ ذیل سوال کا کیا جواب دیں‌گے؟

    دین کے معاملے میں‌جس کی بات اہم ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کی یا علمائے باطن کی جو تین صدیاں‌بعد نمودار ہوئے؟

    کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف عالم ظاہر تھے؟

    جہانزیب ::‌جی بالکل اس بات سے تو میں‌بھی متفق ہون کہ اگر آپ اخلاص اور نیک نیتی سے ایک اچھا کام نہیں‌کرتے تو پھر یہ کام کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

    افتخار اجمل انکل::‌بنیاد پرست لفظ ٹھیک ہے۔ آپ نے پروفیسر احمد رفیق اختر کے بارے میں‌میرے مراسلے پر ان کے کسے مرید کا تبصرہ شاءد نہیں‌پڑھا۔ ورنہ آپ اعتراض‌نہ کرتے۔

    جاوید اقبال صاحب:: جی جناب۔ ان سب باتوں کو پیش کر کے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ وہ رواداری اور وہ انسانیت جس کے لئے اسلام مشہور ہے صرف انھی جگہوں‌پہ ملتی ہے۔ بابا فرید گنج شکر نے کبھی بھی اپنے مزار پہ جنتی دروازہ نصب کرنے کا حکم نہیں‌دیا ہوگا۔ مگر آج ان کے مزار پہ جو کچھ ہو رہا ہے کیا وہ اسلام ہے؟ علی ہجویری رحمۃاللہ علیہ کے مزار پہ جو کچھ ہوتا ہے کیا وہ اسلام ہے؟ ان اولیا کے مزارات پہ میلوں‌میں‌جو بھنگ اور چرس پی جاتی ہے کیا صرف باطنی شریعت یا بالفاظ دیگر طریقت میں‌جائز ہے؟ میں‌نے سیالکوٹ میں‌ایک ایسے مزار پہ ایک بڑی عمر کے شخص کو سجدہ کرنے سے روکا تھا۔ اور یہ 1994 کے دن تھے۔ مجھے اس دن دو باتوں‌کا پتہ چلا ۔

    ایک :: میں‌وہابی ہوں۔ اور وہابی مسلمان نہیں‌ہوتے۔
    دو:: یہ سجدہ وغیرہ علم کی باتیں‌ہیں‌اور یہ علم ایسے حاصل نہیں‌ہوتا۔ ملا کیا جانے بانگ و نماز کے علاوہ۔

    عنیقہ::: صوفی ازم یہاں‌ بہت زیادہ ہے۔ کراچی پر پھیٹ کے ممکنہ حملے اور عبداللہ شاہ غازی کے ممکنہ کردار کے بارے میں‌تو آپ پہلے ہی ذکر کر چکی ہیں۔ کیا ایک مردہ شخص اس دنیا کے کاموں میں‌عمل دخل دے سکتا ہے؟

    طریقت کی بات ہو تو شائد دے سکتا ہو۔ علمائے ظاہر اور شریعت کہتی ہے کہ نہیں۔ جب بات ظاہر اور باطن میں‌تقسیم کر دی جاتی ہے نا تو اس سے بڑے بڑے فتنے کھل جاتے ہیں۔ آپ باطنی معنوں‌کا سہارا لے کر قرآن کی آیات کی من مانی تفسیر کریں۔ احادیث کو اپنے لئے جیسے چاہیں‌استعمال کریں۔ کوئی گرفت نہیں‌کر سکتا ، کیونکہ یہ باطنی معانی ہر ایک نہیں سمجھ سکتا۔ آخر ہر ایک عالم ِ باطن تو ہے نہیں‌اور علمائے ظاہرکیا جانیں‌باطنی اسرار و رموز؟؟؟

    دیکھا آپ نے صرف ایک نئی جہت شامل کرنے سے کتنے بڑے بڑے فتنے شروع ہو جاتے ہیں۔ حسن بن صباح کی سوانح اور اس کے کارنامے آپ کی نظر سے یقینا ضرور گزرے ہوں‌گے۔ اس نے بھی باطنی معانی کا سہارا لے کر بہت مدت تک شر و فساد پھیلائے رکھا۔

    میں‌نے اوپر مراسلے میں‌بھی کہا اور اب بھی کہتا ہوں‌کہ مجھے صوفیا اور اولیا کی ذات سے نفرت نہیں۔ وہ لوگ دین پر عمل اور اللہ کے ڈر کے جس مقام پر تھے، میں‌شائد کبھی اس کی گرد کو بھی نہ پا سکوں، مگر آج کل صوفی اسلام کے نام پہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ نا قابل قبول ہے۔

    میں‌نے 1998 میں‌تحریک ختم نبوت کے مرکزی رہنما اور خانقاہ سراجیہ کندیاں‌ میانوالی میں مقیم مولانا خواجہ خان محمد رحمۃاللہ علیہ کے ہاتھ پہ بیعت کی تھی۔ انھوں‌نے ہمیں، صرف استغفار اور ہر سانس کے ساتھ اللہ کے ذکر کا حکم دیا۔ انھوں‌نے بلھے شاہ کی رباعیات یا مادھو لال حسین کا کلام دے کر ہمین یہ حکم نہیں‌دیا کہ چونکہ اصل کا کسی کو پتہ نہیں‌اس لئے یہ سب فضول ہے۔ حسین بن منصور حلاج نے اناالحق کا نعرہ لگایا۔ وہ ایک متنازعہ شخص تھا۔ بالفرض وہ معرفت کے اس مقام تک پہنچ بھی گیا تھا کہ اسے وحدت الوجود کا ادراک ہو گیا تھا، تو یہ بات سب کو بتانے سے فساد ہی پھیلنا تھا۔

    کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی اور کو معرفت حق ہو سکتی ہے؟

    میری آپ سے درخواست ہے کہ مندرجہ ذیل نکات پر میری کم علمی کو دور فرمائیں
    1: تصوف نے کونسی جبریت کے خلاف جنم لیا اور یہ کیونکر اس کی اساس بنی۔ کوئی مستند حوالہ؟؟
    2: اس جملے کی تشریح‌کر دیں:
    تصوف ایک تھریک تحی جس نے جبر اور ظاہری دکحاوے کے خلاف جنم لیا اور جسکا مقصد مسلمانوں کو واپس دین کی سادگی کی طرف لانا تھا وہ سادگی جس میں ہر انسان خدا کی مخلوق ہے۔ وہ سادگی جہاں انسان کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔

    3: کیا آج کل کے صوفی ازم اور اُس تصوف میں‌کوئی فرق ہے؟

    یقین کیجئے جب آپ یہ کہتی ہیں‌کہ ::
    تصوف کی اصل روح بغاوت کے جذبے سے وابستہ ، وہ بغاوت جو ان علمائے ظاہر کے خلاف ہے جو اقتدار کی مسند تک پہنچنے کے لئے مذہب کو استعمال کرتے ہیں اور انسانوں کو ایکدوسرے سے متنفر کرتے ہیں۔

    تو مجھے ایک یقین سا ہو چلا جاتا ہے کہ آپ بھی بس سنی سنائی پر جا رہی ہیں۔ علمائے ظاہر کی اصطلاح‌تو لوگوں‌کو الجھانے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ لوگوں‌کو علما متنفر کرتے ہیں؟؟

    مجھے یقین ہے آپ مجھ سے بہتر کملہ گو مسلمان ہیں۔ آپ کا توحید اور رسالت پر مکمل یقین ہے۔ آپ ختم نبوت پر یقین رکھتی ہیں۔ ایمان مفصل اور ایمان مجمل کے کلموں‌کا مفہوم آپ کو آتا ہے اور آپ ان پر بھی یقین رکھتی ہیںن ، تو پھر لا محالہ آپ کا ٹکراؤ کچھ ایسے لوگوں‌سے ہوگا جو مندرجہ بالا عقائد کی اپنے مطلب سے تفسیر کرتے ہیں۔ اور بالفرض‌آپ کا یقین تمام بنیادی اصؤلوں‌کے مطابق ہے اور آپ کے مخالفین کا نہیں، تو کیا پھر بھی آپ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے اصولوں‌کے مطابق ان کو غیرمسلمان کہنے سے ہچکچائیں‌گی کہ یہ تو علمائے ظاہر کا کام ہے اور وہ نفرتیں‌پھیلاتے ہیں، جبکہ صوفی ازم تو محبتوں‌کا پرچار کرتا ہے؟

    میری اس تحریر کا مقصد اتنا تھا کہ آج کل جو صوفی ازم کی وبا چل پڑی ہے اس ان گرانقدر شخصیات سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

    محمد ریاض‌شاہد::‌کیا آپ جانتے ہیں‌کہ مہدی سوڈانی نے مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا؟

  9. “علمائے ظاہر کی اصطلاح‌تو لوگوں‌کو الجھانے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ لوگوں‌کو علما متنفر کرتے ہیں؟؟ ”

    گستاخی معاف۔۔
    جس “عالم” کی ویڈیو آپ نے اوپر لگائی ہے۔۔۔انہوں نے بہت لوگوں کو متنقر کیا ہے۔ شاید آپ نے ان کے کیریر کا بغور مطالعہ نہیں‌کیا۔
    .-= عثمان´s last blog ..اردو میڈیم =-.

  10. تو کیا آپ اس سے اتفاق نہیں کریں گے کہ اس نے اپنے دعوے کی بنیاد احادیث پر رکھی تھی ۔ جھوٹی احادیث کے مسئلے کی تاریخ‌سےسے تو آپ آگاہ ہوں گے ۔ ان کے بارے میں‌کیا خیال ہے۔ ملا عمر بقول اپنے خواب کی بنا جس میں‌ نبی اکرم صلو علیہ نے اسے فتح کی بشارت دی تھی المومنین بنا تھا اور لال مسجد کے غازی عبدالرشید کے مطابق انہیں فتح کی تین سو بشارتیں موصول ہوئیں تھیں ۔ مذہب کا یہ استعمال صرف مہدی سوڈانی سے مخصوص نہیں‌بلکہ ہر دور میں ہر مسلک سے منسلک لوگ کرتے رہے ہیں ۔
    اپنے ذہن کو بھی سوچنے کی تکلیف دینی چاہئیے اس سے مزید سوچیں پیدا ہونے کی گنجائش نکلتی ہے۔

  11. عثمان: “علمائے ظاہر کی اصطلاح‌تو لوگوں‌کو الجھانے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ لوگوں‌کو علما متنفر کرتے ہیں؟؟ “گستاخی معاف۔۔
    جس “عالم” کی ویڈیو آپ نے اوپر لگائی ہے۔۔۔انہوں نے بہت لوگوں کو متنقر کیا ہے۔ شاید آپ نے ان کے کیریر کا بغور مطالعہ نہیں‌کیا۔

    لوگ تو مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃاللہ علیہ سے بھی متنفر ہوئے ہوں‌گے۔ لوگ تو مولانا احمد رضا خان پر بھی سخت تنقید کرتے ہیں۔ لوگوں‌ کا بس چلے تو جس سے اختلاف ہو اس کا گلہ کاٹ دیں، کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم شریعت پر چلنا چھوڑ دیں صرف اس وجہ سے کہ ایک ناپسندیدہ شخص وہ بات کر رہا ہے جس پر عمل یا ایمان لازمی ہے؟

    میرا خیال ہے آپ اور عنیقہ شائد اس غلط فہمی میں‌مبتلا ہیں‌کہ میرا تعلق تحریک منہاج القرآن انٹر نیشنل سے ہے یا میں‌ طاہر القادری صاحب کا معتقد ہوں۔ یہ دونون باتیں‌درست نہیں‌ہیں۔

  12. محمد ریاض شاہد: تو کیا آپ اس سے اتفاق نہیں کریں گے کہ اس نے اپنے دعوے کی بنیاد احادیث پر رکھی تھی۔ جھوٹی احادیث کے مسئلے کی تاریخ‌سےسے تو آپ آگاہ ہوں گے ۔ ان کے بارے میں‌کیا خیال ہے۔ ملا عمر بقول اپنے خواب کی بنا جس میں‌ نبی اکرم صلو علیہ نے اسے فتحکی بشارت دی تھی المومنین بنا تھا اور لال مسجد کے غازی عبدالرشید کے مطابق انہیںفتح کی تین سو بشارتیں موصول ہوئیں تھیں ۔ مذہب کا یہ استعمال صرف مہدی سوڈانی سے مخصوص نہیں‌بلکہ ہر دور میں ہر مسلک سے منسلک لوگ کرتے رہے ہیں ۔ اپنے ذہن کو بھی سوچنے کی تکلیف دینی چاہئیے اس سے مزید سوچیں پیدا ہونے کی گنجائش نکلتی ہے۔  

    جناب من، پہلے تو یہ دیکھیں‌کہ کیا مہدی موعود کا آنا ثابت ہے؟ اگر احادیث کی رو سے ثابت ہے تو اس کی نشانیاں‌بھی بتائی گئی ہوں‌گی۔ کیا وہ نشانیاں زمان و مکان کے حوالے سے ‌کسی دعوےدار میں‌بدرجہ اتم موجود ہیں؟ اس کے بعد بات ہوگی۔
    احادیث کی من گھڑت تشریح اور قرآن پاک کی خود ساختہ تفسیرکی بنیاد پر دعویداری تو مرزا غلام احمد علیہ اللعنۃ نے بھی کی تھی۔ کیا اب آپ اس کے دعوے کو مان لیں‌گے کہ وہ مسیح‌موعود ہے؟ اس نے بھی تو قرآنی آیات کی من مانی تفسیر کی اور اپنے دعوے کو درست ثابت کرنا چاہا۔
    کیا آپ اس کا دعوی ماننے کو تیار ہیں؟ مجھے یقین ہے ہر گز نہیں۔ ہر وہ مسلمان جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے، ہر جھوٹے نبی پر لعنت بھیجے گا۔ چہ جائیکہ اس کی بات اس لئے مانے کہ اس جھوٹے نبی نے اپنا دعوی کچھ احدیث‌کی بنیاد پر کیا ہے۔

    میں آپ کی خدمت میں‌عرض‌کرتا چلوں‌کہ شریعت کے احکام خواب سے مستنبط نہیں‌کئے جا سکتے ورنہ کل کو کوئی اٹھ کر کہے گا مجھے خواب میں‌فلاں‌بشارت ہوئی ہے۔

    جہاں‌تک خواب میں‌بشارت کا تعلق ہے تو تحریک اخوان المسلمین کے سربراہ اکرم اعوان نے پرویز مشرف کے ابتدائی دور میں‌دعوی کیا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں‌آکر ان کو حکم دیا ہے کہ وہ اسلام آباد پر چڑھائی کریں۔ اپنے مریدین کے ہمراہ وہ غالبا سنگ جانی تک آ چکے تھے کہ اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر اور پولیس کے سربراہ نے مذاکرات کے لئے بلا لیا۔ اور کامیاب مذاکرات کے بعد انھوں‌نے واپسی کا اعلان کر دیا۔ مجھے درست یاد نہیں‌مگر انھوں‌نے تین ماہ کا الٹی میٹم حکومت کو دیا تھا۔ اب آٹھ برس سے یہ الٹی میٹم پورا ہونے کو نہیں‌آ رہا۔ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعی ان کو حکم دیا تھا تو پھر تحریک مؤخر کر کے وہ گناہگار ٹھہرے۔ اور اگر نہیں دیا تھا تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا کے مرتکب ہوئے۔

    عبدالرشید غازی اب اپنے رب کے پاس ہیں ۔ ان کا معاملہ وہاں طے ہوچکا ہوگا، فتح کی بشارت، مجھے علم نہیں‌خواب میں‌کس نے انھیں‌دی تھی۔
    ملا عمر سے ملاقات ہوئی تو پوچھوں‌گا یہ خواب میں‌بشارت والا قصہ کیا ہے۔
    البتہ اس خواب والے معاملے میں‌شریعت کے احکام سے کچھ مستثنیات کو مد نظر رکھئے گا۔
    حضرت یوسف اور ابراہیم علیہما السلام نبی تھے۔ ان کو جھوٹا خواب کبھی نہیں‌آ سکتا تھا۔
    ان پر ہم عوام الناس والے اصول نافذ نہیں‌کر سکتے۔

  13. شکریہ
    میرے نزدیک تصوف شریعت کے دائرے سے باہر نہیں ۔ میں صرف آپ کو اس مسئلے کا دوسرا رخ دکھانا چاہ رہا تھا کہ اگر تصوف کو موجودہ لوگ بدنام کر رہے ہیں تو شریعت کی من مانی تشریح احادیث کی بنیاد پر اپنے سایسی مقاصد کے حصول کےلئے باقی مسالک کے لوگ بھی کرتے رہے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں ۔ انہیں بھی یاد رکھیں ۔ پاکستانی طالبان امام ابن تیمیہ کے فتوے کی بنیاد پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور بے گناہ لوگوں کی جان و مال کے اتلاف کا باعث بن رہے ہیں ۔ اگر تصوف کے بارے میں اس کے صحیح فہم کی ضرورت ہے تو شریعت کے بارے میں اس کی ضرورت اس سے زیادہ ہے کیونکہ اس کا تعلق ہمارے آج سے ہے
    .-= محمد ریاض شاہد´s last blog ..ٹُریا ٹُریا جا فریدا =-.

  14. جناب عبداللہ شاہ غازی صوفی بھی تھے اور مجاہد بھی اور ان کی پوری زندگی جہاد کرتے ہی گزری!
    باقی ہر طرح کے لوگ ہر جگہ والی بات بھی ہے،اور ہمیں ہر شخص کے انفرادی فعل پر اس کا فیصلہ کرنا پڑے گا،ورنہ بہت سے لوگ محض مغالطہ کی وجہ سے سنگسار ہوسکتے ہیں!
    صرف قتال کسی کو بخشوا نہیں سکتا،اور عمل کی تمنا کے بغیر ایمان بھی نہیں بخشوائے گا،
    شاہ اسماعیل شہید رحمت اللہ علیہ صوفی بھی تھے طریقت پر بھی عامل تھے اور مجاہد بھی تھے!

  15. ہم تمام مسلمانوں کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ اسلام نام ہے امن و سلامتی کا!
    اس میں جہاد بھی تب ہی جائز ہے جب اس کا مقصد امن و سلامتی قائم کرنا ہو ورنہ یہ نرا فساد ہے !

  16. منیر عباسی، مجحے سنی سنائ باتوں کو آگے بڑھانے کا قطعی شوق نہیں۔ اگر مجح سے کبھی ایسا ہوا تو میں اسکی تصحیح فورآ کر دیتی ہوں۔ اس لء آپ اس مغالطے میں نہ رہیں۔ دوسری بات یہ کہ میں یہ قطعآ نہیں سمجھی کہ آپ طاہر القادری کے معتقد ہیں۔ آپ نے انکا حوالہ دیا اور ایک اور بلاگر نے بھی اکے حوالے سے بات کی تو میں نے یہ چاہا کہ اگر آپکے علم میں یہ بات نہیں ہے تو آنی چاہئیے۔ کہ دراصل تصوف کے نام پہ اب کیا ہوتا ہے۔
    آپ نے فرمایا کہ میں آپکو بتائووں کہ تصوف کس طرح مزاحمتی تحریک بنا۔ اسکے لءے آپکو خود ہی تکلیف کرنی پڑے گی۔ رسول اللہ کے انتقال کے فورآ بعد اس سارے نظام کو جو کہ اسلامی مملکت کی صورت میں قائم ہواتھا، چلانے کا مسئلہ کھڑا ہوا تھا۔ اس وقت انہوں نے اپنے فہم و فراست سے خلافت ھضرت ابو بکر صدیق کے حوالے کر دی تھی۔ لیکن درحقیقت اس وقت بھی مسلمانوں میں دو گروہ بن گئے تھے ایک وہ جو اقتدار کو وراثتی طرقیے پہ منتقل کرنا چاہتے تھے اور دوسرے وہ جو ایسا نہیں چاہتے تھے۔ ھضرت عثمان کی شہادت اسی آپس کی چپقلش کا نتیجہ تھی۔ یہی حالات تھے جو ھضرت عاءشہ کو ھضرت علی کے مقابل لےآ ئے۔
    مختصرا خلفائ راشدین کے زمانے کے بعد بنی امیہ اور بنو عباس کے دو مخالف گروہوں نے باری باری کئ دفعہ اقتدار کی لگام اسی طرح تھامی۔ ہر دفعہ دونوں گروہوں کو اپنے عمل کو صحیح ثابت کرنے کے لئے قرآن کی غلط توجیہات اور غلط اھادیث کا سہارا لینا پڑا۔ دونوں ہی ہر دفعہ اپنے آپکو حق پہ ثابت کرتے رہے۔ اس سارے عرصے میں کس نے انکا ساتھ دیا۔ کسی اور نے نہیں علماء نے ھتی کہ اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو ابن تیمیہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی فلسفے کے رد میں لکھی جانے والی مشہور کتاب حکومتی اثر کے تحت لکھی تھی۔
    جج اسلامی حکومت کا اثر عرب سے باہر نکلا تو اس میں غیر عربی قوتیں بھی شامل ہو گئیں۔ یہ غیر عرب قوتیں عربوں کے مقابلے میں زیادہ متمدن اور تہذیب میں ارفع تحیں۔ انہیں حکومت میں یعنی اقتدار میں شامل کرنا پڑا۔ لیکن وہ غیر عرب جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا وہ عربی تمدن اختیار کرنا نہیں چاہتے تھے یہاں سے مسلم مزاج کے اندر ایک نیا عنصر آیا۔
    یوں اقتدار کی رسہ کشی میں اس وقت علماء کو ایک خاص اہمیت ھاصل تھی۔ لیکن اس سے عام عوام بے زار ہو گئے کیونکہ ہر دفعہ ان اقتدار کی مہموں کے سلسلے میں عام انسان کی معیشت تباہ ہوتی تھی جبکہ حکمراں طبقہ عیاشی کرتا تھا۔ اور اسکی عیاشی میں علماء کا جنہیں بعد میں صوفی کرداروں کی وجہ سے علماء ظاہر کا نام دیا گیا کہ علماء باطن تصوف والے قرار پائے۔ وہ برابر کے شریک تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کئ جید عالموں نے عہدے لینے کے بجائے زنداں میں رہنا پسند کیا۔ خود منصور بن حلاج کا قتل در اصل ایک سیاسی قتل تھا۔
    یہاں میں مختلف حوالے نہیں دینا چاہتی۔ لیکن آپکو یہ مشورہ ضرور دونگی کہ اگر آپ اس موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں یا کسی بھی موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں تو اسکے آغاز کو ضرور دیکھنا چاہئیے۔ وہیں اصل کہانی چھپی ہوتی ہے۔
    اگر اللہ نے دین مکمل کر دیا تھا قیامت تک کے لئے تو تصوف کی کوئ ضرورت نہیں تھی۔ تصوف کی تحریک انہی لوگوں کے لئے شروع کی گئ جو دین کے اصل مقصد سے ہٹ کر اقتدار کی جنگ میں شامل ہو گئے۔ لیکن جیسا کہ ہر قوت کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ مضبوطی اختیار کرتی ہے اقتدار کے سوتوں کو چیلینج کرتی ہے تو اقتدار ذرا سی قربانی دے کر انہیں اپنے ساتھ شامل کر لیتا ہے۔
    میں خود تصوف سے کافی متاءثر رہی۔ اور اس سلسلے میں کافی کچھ پڑھا اور بھلا دیا۔ اس سلسلے میں جنہیں لوگ کیفیات کہتے ہیں ان سے بھی گذرنا ہوا۔ لیکن پھر احساس ہوا کہ عام انسان بننا اور عام انسان کے مسائل اٹھانا زیادہ ضروری ہے۔ اسی کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔ صوفی بزرگوں سے آپ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ جیسے میں نے یہ سیکھا کہ لوگوں کو اپنا حاجت روا سمجھنے سے بچنا چاہئیے۔ خدا انسان کے شہہ رگ سے بھی قریب ہے اور اسی کو زیبا ہے ہم اس سے مانگیں چاہے وہ سوئ کیوں نہ ہو۔ اگر انسان اس پہ عمل کرے تو ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے کہ آپکو خدا سے بھی کچھ مانگنے کی حاجت نہیں رہتی اور اسکی رضا میں راضی ہوجاتے ہیں۔ مگر اسکے ساتھ ہی میں جہد مسلسل پہ یقین رکھتی ہوں اور تقدیر کے خوگر میں سے نہیں۔ میرا یقین ہے کہ انسان اگر تقدیر کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو جائے تو خدا اسے شرمندہ نہیں کرتا۔
    .-= عنیقہ ناز´s last blog ..اگر =-.

  17. عنیقہ ناز: منیر عباسی، مجحے سنی سنائ باتوں کو آگے بڑھانے کا قطعی شوق نہیں۔ اگر مجح سے کبھی ایسا ہوا تو میں اسکی تصحیح فورآ کر دیتی ہوں۔ اس لء آپ اس مغالطے میں نہ رہیں۔ دوسری بات یہ کہ میں یہ قطعآ نہیں سمجھی کہ آپ طاہر القادری کے معتقد ہیں۔ آپ نے انکا حوالہ دیا اور ایک اور بلاگر نے بھی اکے حوالے سے بات کی تو میں نے یہ چاہا کہ اگر آپکے علم میں یہ بات نہیں ہے تو آنی چاہئیے۔ کہ دراصل تصوف کے نام پہ اب کیا ہوتا ہے۔آپ نے فرمایا کہ میں آپکو بتائووں کہ تصوف کس طرح مزاحمتی تحریک بنا۔ اسکے لءے آپکو خود ہی تکلیف کرنی پڑے گی۔ رسول اللہ کے انتقال کے فورآ بعد اس سارے نظام کو جو کہ اسلامی مملکت کی صورت میں قائم ہواتھا، چلانے کا مسئلہ کھڑا ہوا تھا۔ اس وقت انہوں نے اپنے فہم و فراست سے خلافت ھضرت ابو بکر صدیق کے حوالے کر دی تھی۔ لیکن درحقیقت اس وقت بھی مسلمانوں میں دو گروہ بن گئے تھے ایک وہ جو اقتدار کو وراثتی طرقیے پہ منتقل کرنا چاہتے تھے اور دوسرے وہ جو ایسا نہیں چاہتے تھے۔ ھضرت عثمان کی شہادت اسی آپس کی چپقلش کا نتیجہ تھی۔ یہی حالات تھے جو ھضرت عاءشہ کو ھضرت علی کے مقابل لےآ ئے۔مختصرا خلفائ راشدین کے زمانے کے بعد بنی امیہ اور بنو عباس کے دو مخالف گروہوں نے باری باری کئ دفعہ اقتدار کی لگام اسی طرح تھامی۔ ہر دفعہ دونوں گروہوں کو اپنے عمل کو صحیح ثابت کرنے کے لئے قرآن کی غلط توجیہات اور غلط اھادیث کا سہارا لینا پڑا۔ دونوں ہی ہر دفعہ اپنے آپکو حق پہ ثابت کرتے رہے۔ اس سارے عرصے میں کس نے انکا ساتھ دیا۔ کسی اور نے نہیں علماء نے ھتی کہ اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو ابن تیمیہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی فلسفے کے رد میں لکھی جانے والی مشہور کتاب حکومتی اثر کے تحت لکھی تھی۔جج اسلامی حکومت کا اثر عرب سے باہر نکلا تو اس میں غیر عربی قوتیں بھی شامل ہو گئیں۔ یہ غیر عرب قوتیں عربوں کے مقابلے میں زیادہ متمدن اور تہذیب میں ارفع تحیں۔ انہیں حکومت میں یعنی اقتدار میں شامل کرنا پڑا۔ لیکن وہ غیر عرب جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا وہ عربی تمدن اختیار کرنا نہیں چاہتے تھے یہاں سے مسلم مزاج کے اندر ایک نیا عنصر آیا۔یوں اقتدار کی رسہ کشی میں اس وقت علماء کو ایک خاص اہمیت ھاصل تھی۔ لیکن اس سے عام عوام بے زار ہو گئے کیونکہ ہر دفعہ ان اقتدار کی مہموں کے سلسلے میں عام انسان کی معیشت تباہ ہوتی تھی جبکہ حکمراں طبقہ عیاشی کرتا تھا۔ اور اسکی عیاشی میں علماء کا جنہیں بعد میں صوفی کرداروں کی وجہ سے علماء ظاہر کا نام دیا گیا کہ علماء باطن تصوف والے قرار پائے۔ وہ برابر کے شریک تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کئ جید عالموں نے عہدے لینے کے بجائے زنداں میں رہنا پسند کیا۔ خود منصور بن حلاج کا قتل در اصل ایک سیاسی قتل تھا۔یہاں میں مختلف حوالے نہیں دینا چاہتی۔ لیکن آپکو یہ مشورہ ضرور دونگی کہ اگر آپ اس موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں یا کسی بھی موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں تو اسکے آغاز کو ضرور دیکھنا چاہئیے۔ وہیں اصل کہانی چھپی ہوتی ہے۔اگر اللہ نے دین مکمل کر دیا تھا قیامت تک کے لئے تو تصوف کی کوئ ضرورت نہیں تھی۔ تصوف کی تحریک انہی لوگوں کے لئے شروع کی گئ جو دین کے اصل مقصد سے ہٹ کر اقتدار کی جنگ میں شامل ہو گئے۔ لیکن جیسا کہ ہر قوت کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ مضبوطی اختیار کرتی ہے اقتدار کے سوتوں کو چیلینج کرتی ہے تو اقتدار ذرا سی قربانی دے کر انہیں اپنے ساتھ شامل کر لیتا ہے۔میں خود تصوف سے کافی متاءثر رہی۔ اور اس سلسلے میں کافی کچھ پڑھا اور بھلا دیا۔ اس سلسلے میں جنہیں لوگ کیفیات کہتے ہیں ان سے بھی گذرنا ہوا۔ لیکن پھر احساس ہوا کہ عام انسان بننا اور عام انسان کے مسائل اٹھانا زیادہ ضروری ہے۔ اسی کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔ صوفی بزرگوں سے آپ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ جیسے میں نے یہ سیکھا کہ لوگوں کو اپنا حاجت روا سمجھنے سے بچنا چاہئیے۔ خدا انسان کے شہہ رگ سے بھی قریب ہے اور اسی کو زیبا ہے ہم اس سے مانگیں چاہے وہ سوئ کیوں نہ ہو۔ اگر انسان اس پہ عمل کرے تو ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے کہ آپکو خدا سے بھی کچھ مانگنے کی حاجت نہیں رہتی اور اسکی رضا میں راضی ہوجاتے ہیں۔ مگر اسکے ساتھ ہی میں جہد مسلسل پہ یقین رکھتی ہوں اور تقدیر کے خوگر میں سے نہیں۔ میرا یقین ہے کہ انسان اگر تقدیر کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو جائے تو خدا اسے شرمندہ نہیں کرتا۔

    خدا انسان کے شہہ رگ سے بھی قریب ہے اور اسی کو زیبا ہے ہم اس سے مانگیں چاہے وہ سوئ کیوں نہ ہو۔ اگر انسان اس پہ عمل کرے تو ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے کہ آپکو خدا سے بھی کچھ مانگنے کی حاجت نہیں رہتی اور اسکی رضا میں راضی ہوجاتے ہیں۔ مگر اسکے ساتھ ہی میں جہد مسلسل پہ یقین رکھتی ہوں اور تقدیر کے خوگر میں سے نہیں۔ میرا یقین ہے کہ انسان اگر تقدیر کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو جائے تو خدا اسے شرمندہ نہیں کرتا۔
    سبحان اللہ،عنیقہ آپنے دین کا لب لباب سامنے رکھ دیا ہے،اللہ ہمیں دین کا صحیح فہم عطافرمائے آمین

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں