Skip to content

کہ خوشی سے مر نہ جاتے

جب سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت شروع کی تو مجھے لگا کہ ان ججوں نے ایک ناممکن کام شروع کر ڈالا ہے۔ پرویز مشرف کے خلاف قانونی کارروائی کا دعوٰی حیران کن طور پر مسلم لیگ نواز یا پیپلز پارٹی کی طرف سے نہیں آیا۔ لگتا ہے بین الاقوامی سیاسی مصلحتوں کا شکار یہ پارٹیاں کسی بھی صورت اگلے چند سال پارلیمنٹ سے باہر نہیں گزارنا چاہتیں۔

جب پرویز مشرف نے واپسی کا ارادہ کیا اور اس پر عمل بھی کر ڈالا تو مجھے ایک موہوم سی امید تھی کہ نواز لیگ کا کوئی نہ کوئ جیالا قائد کے حکم پر سر بکفن ہو کر سپریم کورٹ کو یاد دلائے گا کہ ولن واپس آ گیا ہے۔ مگر مسلم لیگ نواز نے تو سابق ڈکٹیٹر کی امد کو نظر انداز کئے رکھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے تو گارڈ آف آنر دے کر موصوف کو رخصت کیا تھا۔ اُس سے کیا امید لگانی۔
اب جبکہ عدالت نے کارروائی شروع کر ہی ڈالی ہے تو مجھے لگتا ہے کہ بھڑوں کے چھتے سے یہ خون خوار بھڑیں کسی بھی لمحے نکل آئیں گی اور اپنے آس پاس موجود ہر انسان کو ڈنک مارنا شروع کر دیں۔ اس موقع پر جو افراتفری پھیلتی ہے وہ تو سب کے علم میں ہے۔

حالات کچھ عجیب سے ہوتے جارہے ہیں۔ لگتا ہے طاہر القادری صاحب ناکام ہو کر بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔ وہ جس مقصد کے لئے آئے تھے، شائد، بالآخر وہی ہوگا۔ امیدواروں سے ریٹرننگ آفیسروں کے بے جا سوالات کو جس طرح اچھالا گیا۔ پھر ان ریٹرننگ آفیسروں کے پاس کوئی گائڈ لائن نہ تھی، جس کے باعث بڑے عجیب فیصلے سننے اور دیکھنے کو ملے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ اس سال الیکشن کا نتیجہ ایک معلق پارلیمنٹ کی صورت نکلے گا۔

جعلی ڈگری والوں کو جو سزا دی گئی، میرے خیال میں کم تھی۔ ان سے پارلیمان کی رکنیت کے دوران ان پر کئے گئے تمام سرکاری اخراجات سود سمیت وصول کرنے چاہئے تھے۔ ایک سال یا دو سال کی سزا تو تماشہ ہے۔ پتہ نہیں ہم لوگ کیوں دھوکہ میں آجاتے ہیں۔

بہر حال ، آج پرویز مشرف کے وکیل نے استفسار کیا کہ جنرل کیانی کو کیوں نہیں بلایا گیا۔ جج صاحبان نے تو سوال کا جواب دے دیا، مگر مجھے لگتا ہے کہ اس کیس کے ذریعے عدلیہ اور فوج کو آمنے سامنے لانے کی کوشش کی جارہی ہے، اور جیسا کہ اس ملک کی سیاست کا ٹریک ریکارڈ ہے، ہمیں جلد ہی کوئی ٹیلی ویژن سکرین پر ” میرے عزیز ہموطنو ” کہتا سُنائی دے گا۔

میرا یہ ڈر بے بنیاد بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وسیع تر مفادات کی خاطر فوج پرویز مشرف کی قربانی دے دے۔ اگر ایسا ہوا تو ایک اور پنڈورا باکس کُھل جائے گا۔ پھر لوگ اور گڑے مردے اکھاڑ لائیں گے اور پتہ نہیں کیا کیا ہوجائے۔ ہو سکتا ہے پرویز مشرف پر غداری کا جرم ثابت ہو جائے ۔۔ اگر ایسا ہوا تو اس کو دس مرتبہ صدر منتخب کرنے والوں کو کون پکڑے گا؟؟ آئس کریم کے شیدائی سابق وزرائے اعطم کو کون کٹہرے میں لائے گا؟

لہذا ایک ممکن اور پائیدار حل یہی نظر اتا ہے کہ کوئی “رضاکار” پاکستانی عوام سے یہ جملہ کہنے کی پریکٹس ابھی سے شروع کر دے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس مقدمے کا کوئی منطقی حل سامنے آئے گا۔

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں