Skip to content

کولہو

دفتر سے واپس آتے ہوئے وہ سارا راستہ غصہ پینے کی ناکام کوشش کرتا رہا. اس کے ساتھی کلرک کی اچانک غیر حاضری نے اس پر کام کا بوجھ زیادہ کر ڈالا تھا. اس پر مستزاد یہ کہ
 اسکےمینیجر نے بھی شائد صبح سویرے سب سے پہلے اپنا ہی چہرہ آئنے میں دیکھا تھا جو سارا دن ماتحتوں سے بغیر کسی وجہ کے الجھتا رہا تھا.
گھر آ کر اس نے بے دلی سے فریج سے رات والا کھانا نکال کر گرم کیا اور کمپیوٹر پر بیٹھ گیا۔ اکیلا ہونے اور دفتر کا کام دفتر تک رکھنے کی عادت کی وجہ سے اس کے پاس گھر میں گزارنے کو کافی وقت مل جاتا تھا جو وہ انٹرنیٹ پر مختلف جگہوں پر کوئی نہ کوئی کام ڈھونڈ کر پیسے کما نے میں گزار دیتا۔ جیسے ہی اس نے اپنا فیس بک اکاؤنٹ کھولا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کسی نے اس کو دوستی کی دعوت بھیجی تھی۔ دوست یار نہ ہونے کی وجہ سے ایک تو اس کا حلقہ احباب پہلے ہی محدود تھا اور اوپر سے یہ دوست انٹرنیٹ کی شدبد سے ناواقف بھی تھے، چنانچہ فیس بک پر ایک دوست بنانے کی دعوت اور وہ بھی ایک لڑکی کی طرف سے، اس کے لئے کافی حیران کن بات تھی۔ اس نے دعوت قبول کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لیا اور سوچتا رہ کہ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ وہ کون ہو سکتا ہے جو اُسے بے وقوف بنا رہا ہے مگر وہ تمام وقت میں کسی بھی شخص کا تعین نہ کرسکا اور کھانا ختم ہو گیا۔
برتن دھو کر وہ دوبارہ کمپیوٹر کے پاس آ بیٹھا اور اس نے دوستی کی دعوت قبول کر لی۔ لڑکی اپنی دی گئی معلومات کے مطابق مسلمان تھی اور ایک مسلمان ملک کی رہنے والی تھی۔ نقوش بھی اس ملک کے باشندوں کے مطابق تھے ۔۔ تھوڑی دیر تک وہ اس کی پروفائل میں گھومتا رہا اور کسی بھی مشکوک چیز کو نہ پا کر اکتا گیا اور اس نے اپنی توجہ دوسرے کاموں کی طرف مبذول کر لی جن سے اس کو کچھ پیسے مل سکتے تھے۔ جب وہ تھک کر اٹھا تو رات کا ایک بج رہا تھا ۔ کھانے پینے سے بے نیاز، اس نے پورے کمرے کو ایک مرتبہ دیکھا اور پاس پڑے بستر پر ڈھے گیا۔۔
=============================================================

وہ کچھ مضطرب سی لگ رہی تھی۔۔ بار بار اپنے آئی پیڈ کو نکالتی، انٹرنیٹ کنکشن چیک کرتی، انٹرنیٹ موجود پانے پر ویب براؤزر کھول کر کچھ تلاش کرتی اور موجود نہ ہونے پر اداس سی ہو جاتی۔ وہ ایک ادارے میں اچھی پوسٹ پر فائز تھی۔ عمر کی چوتھی دہائی میں داخل ہونے کے باوجود جاذب نظر تھی اور اپنا خیال رکھنے کی وجہ سے محفل میں نمایاں نظر آتی۔ اس کی اس بے چینی کو اس کی دوست نے بھی محسوس کیا اور اسے کلب میں ہونے والی معمول کی گفتگو سے قدرے بیزار پایا۔
ایک دو مرتبہ تو اس کی دوست نے اپنی دوست کی بے چینی کو خلاف معمول پا کر اُسے کریدنے کی کوشش بھی کی، مگر تسلی بخش جواب نہ پاکر ذرا دور ہٹ گئی۔ اُس نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالی، رات کے گیارہ بج رہے تھے، ایک مرتبہ پھر آئی پیڈ پر ایک نظر ڈالی، پھر اپنے موبائل میں کچھ ڈھونڈا مگر کچھ نہ ملنے پر افسردہ سی ہو گئی۔۔ تھوڑی ہی دیر بعد اس نے محفل سے جانے کا فیصلہ کر لیا۔ گھر پہنچتے ہی اس نے سب سے پہلے اپنا لیپ ٹاپ کھولا اور فیس بک کھول کر اس شخص کو پیغام لکھنے لگی جسے اس نے کچھ دن پہلے دوستی کی دعوت دی تھی اور جس نے دو دن سے دعوت قبول کرنے کے باوجود اس کو کچھ جواب نہ دیا تھا۔ ایک لمحے کو رُک کر اس نے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا اور خود سے پوچھا ۔ “کیا میں اب بد صورت ہو گئی ہو ں؟”

=============================================================

اتوار والے دن وہ دن چڑھے تک سویا رہا ۔ کوئی کام نہ ہونے کی وجہ سے بے فکری ہی بے فکری تھی۔ جاگا وہ بھوک کی وجہ سے تھا، لہذا جاگنے کے بعد سب سے پہلا کام نکڑ والی دکان سے ادھار پہ مزید سودا لانا تھا۔ معمول سے فارغ ہو کر جب وہ کمپیوٹر کے پاس بیٹھا تو اس نے دیکھا کہ اس کے پاس آج کوئی کام نہ تھا۔ چنانچہ اس نے فیس بک کھولنے کا فیصلہ کیا ۔ فیس بک کھولتے ہی پہلا جھٹکا اسے ایک عدد پیغام کی صورت میں ملا۔ پیغام اُسی لڑکی کی طرف سے تھا جس نے اسے چند دن پہلے دوستی کی دعوت بھیجی تھی۔ پیغام پڑھنے کے بعد بھی وہ گو مگو کی حالت میں کافی فیر تک بیٹھا رہا ۔۔ پھر اُس نے تجسس سے مجبور ہو کر اپنی طرف سے جتنا اچھا لکھ سکتا تھا ، ایک جواب لکھ کر ارسال کر دیا۔ تھوڑی دیر تک انتظار کرنے کے بعد اس نے دوبارہ دیکھا تو اس لڑکی کا کوئی جواب نہیں آیا تھا۔ اپنے آپ کو بلا وجہ کوستے ہوئے اس نے کمپیوٹر بند کیا تو اسے احساس ہوا کہ اُس کی ہتھیلیاں گیلی ہو چکی ہیں اور اس کے دل کی دھڑکن خلاف معمول تیز ہے۔۔

Pages: 1 2 3

6 thoughts on “کولہو”

  1. بہت پر تجسس ابتدا ہے، اگلی قسط کا انتظار شروع ہو گیا ہے

  2. جناب عالی، کیا آپ نے مکمل تحریر کے مطالعہ کے بعد اپنے اشتیاق کا اظہار کیا ہے؟ یہ پوری تحریر تین صفحات پر مشتمل ہے۔ تینوں صفحات کا لنک تحریر کے آخر میں دیا ہوا ہے میں نے۔

  3. بہت خوب ۔۔۔۔۔ انداز میں بہت پختگی ہے۔ اختصار سے لکھنے میں بھی مہارت نظر آرہی ہے۔ مگر موضوع؟؟؟
    اگر موضوع اور کہانی کچھ ایسی ہو کہ جس کے اختتام کے بارے میں حتمی طور پر کہنا ممکن نا ہو تو ہی زیادہ مزہ آتا ہے۔ نیم مزاحیہ اور نیم افسردہ قسم کے اختتام مختصر افسانوں کی پہچان بن چکی ہے۔ اس کے باوجود ایک نہایت عمدہ کوشش ہے اگلی قسط کا انتظار رہے گا۔

    1. جناب، اختصار ضروری تھا۔ اور دوسری بات یہ کہ اس کی بقیہ اقساط ہمیں اپنے آس پاس بکھری ہوئی نظر آ سکتی ہیں۔ اس کو جاری رکھنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

  4. ام عروبہ

    السلام علیکم
    بہت دلچسپ سا انداز اور کہانی ہے- آغاز کی طرح انجام بھی دلچسپ ہے- ادھورا سا اور تشنہ سا- اورمیرے لئے تو اسکی آخری قسط آپ کا آخری کمنٹ ہے- یعنی کچھ to whom it may concern یا انجام حسب زائقہ، جیسا۔ ۔ ۔
    کولہو کے بیلوں کو اس سے زیادہ کی توقع بھی نہیں کرنی چاہئے- وہ دائرے کے قیدی ہی تو رہتے ہیں-

  5. علامتی اور بیانیہ کہانی کا فیوژن لگا مجھے۔
    دلچسپ ہے۔ میری ناقص رائے میں اسے ذرا اور تفصیل سے لکھا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں