Skip to content

کرپشن مکاو —- فیس دو سو روپے

اس سے پہلے کہ آپ کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوں ، میں آپ کے سامنے عبدالقادر حسن کا وہ کالم رکھنا چاہوں گا جو روزنامہ ایکسپریس کی 26 اکتوبر 2010 کی اشاعت میں‌شامل تھا۔ اس کالم کو میرے اس مراسلے کی تمہید بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ مذکورہ کالم آپ اس ربط پر پڑھ سکتے ہیں۔

میں‌عبدالقادرحسن کے غیر سیاسی کالم کبھی کبھار پڑھتا ہوں، مگر اس کالم کی طرف میری توجہ جب کئی لوگوں‌نے دلائی تو مجھے اس کو ڈھونڈنا پڑ‌گیا۔ اگر آپ یہ سطور پڑھ رہے ہیں‌تو غالبا آپ وہ کالم بھی پڑھ چکے ہیں۔

اس کے بعد میں‌آپ کے سامنے دو تصاویر رکھنا چاہوں‌گا۔ ایک تصویر آج کے اخبار کی ہے اور ایک تصویر اتوار سات نومبر کو شائع ہونے والے ایک اخبار کی ہے۔

[nggallery id=3]
پتہ نہیں‌کیوں‌لوگ یہ سمجھتے ہیں‌کہ ڈاکٹر جو کچھ بھی کر رہے ہیں‌وہ ناجائز ہے۔ یہ سپیشلسٹ‌ڈاکٹر اس مقام تک پہنچتے پہنچتے اپنی زندگیاں‌ بتا دیتے ہیں۔ اور اس کے بعد کیا ہوتا ہے، اس کا ایک نمونہ آپ دیکھ ہی چکے ہیں۔

اپنے آس پاس ہونے والے واقعات کو دیکھ کر اور جو کچھ لوگ کہتے ہیں‌وہ سن کر میرے ذہن میں‌جو خیالات آتے ہیں‌وہ کچھ یوں‌ہیں۔

اس ملک میں‌تمام کرپشن کے زمہ دار ڈاکٹر اور ان کی فیسیں‌ہیں۔
اس ملک میں‌کوئی ذخیرہ اندوز نہیں‌ہے، ناجائز منافع خور نہیں‌ہے۔ کوئی رشوت نہیں‌لیتا۔ کوئی دوسرے کا حق نہیں‌غصب کرتا۔ سب فرشتے ہیں، متقی ہیں، اور اگر مجرم ہیں، ان خراب حالات کے ذمہ دار ہیں‌تو وہ سب ڈاکٹر ہیں۔

سٹیل مل میں‌کرپشن ہو، ریکو ڈک کی کانوں‌کا سکینڈل ہو، چینی کی ذخیرہ اندوزی ہو، ریلوے تباہ کرنا ہو یا سرکاری اداروں میں‌سیاسی بنیادوں‌پر بھرتی کر کے ان اداروں‌کو تباہ کرنا ہو، ان سب کی بنیادی وجہ ڈاکٹروں‌کی فیس ہے۔ اس فیس کو کم کر کے دو سو کر دیا جائے تو سارے ملک سے کرپشن ختم ہو جائے گی۔ پھر بے شک گاڑیوں‌کے مستری معمولی مرمت کر کے آپ کو لوٹیں، ددھ والے دودھ ملا پانی بیچیں، اینٹیں‌پیس کر مصالحے کے نام پر بیچی جائیں‌یا پھر مٹھائی کے نام پر آپ کے ہر ایک کام کے لئے دفاتر میں‌آپ سے رشوت لی جائے، معاشرے میں‌کرپشن نہیں‌ہوگی۔ بس ڈاکٹروں‌کی فیس دو سو روپے کرنے کی دیر ہے۔

پتہ نہیں‌کیوں‌مجھ پر یاسیت کایہ دورہ کیوں آیا ہے، مگر ۔ جب 22 سال کی تعلیم کے حصول کے بعد بھی ایسا سلوک سپیشلسٹ ڈاکٹر کا مقدر ہے تو پھر یہ ملک چھوڑ جانا اچھا۔

11 thoughts on “کرپشن مکاو —- فیس دو سو روپے”

  1. ڈاکٹر صاحب، کس کس بات کوروئیں‌گے؟
    اور دوسری بات یہ کہ جو استدلال آپ کا ہے، وہی ان سب کا بھی ہے جن کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے۔
    آرام سے سعودیہ نکل جائیں، دھڑا دھڑ جارہے ہیں‌آپ کے بھائی بند، یعنی کہ ڈاکٹران پاکستان

  2. میرا خیال تھا کہ آپ اس مسئلہ کو ذرا بہتر انداز میں‌ زیر بحث لا سکتے تھے بجائے اس کے کہ جو کچھ آپ نے جھنجھلاہٹ کے عالم میں‌ لکھا ہے۔ بلاشبہ ڈاکٹروں کو ان کا حق ملنا چاہیے۔ لیکن مسئلہ کو حل کرنے کے لئے سرکاری اور نجی سطح پر سستی انشورنس کی بنیادوں پر کوئی نظام ہونا چاہیے۔ کہ ڈاکٹروں کو بھی ان کا حق ملے اور مریض کی حق تلفی بھی نہ ہو۔
    پاکستان جیسے ملک میں‌ کسی سفید پوش کے لئے ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کی فیسیں‌دینا کوئی آسان بات نہیں۔ پھر جن اسپیشلسٹ کا ذکر آپ نے فخریہ انداز میں‌کیا ہے انھوں نے کوئی ایسے فخریہ کارنامے انجام بھی نہیں‌دیے۔ پیشہ ورانہ مہارت اور تحقیق تو ایک طرف ہے۔ میرے ایک دوست کی والدہ کے سر میں‌ٹیومر ہے۔ موصوفہ لاہور کے معروف ہسپتالوں میں چار آپریشن کروا چکی ہیں۔ لاکھوں روپے ان ڈاکٹروں کے پیٹ میں جاچکے ہیں۔ لیکن شفاء تو ایک طرف ، مرض کی تشخیص ہی اب تک نہیں ہو پارہی۔ بلکہ غلط سرجری کے سبب مرض مزید بگڑ چکا ہے۔
    شکر کیجئے کہ وہ ڈاکٹر حضرات پاکستان میں ہیں۔ کچھ دوسرے میں ممالک میں ایسے ڈاکٹروں کے لائسنس کینسل کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیتے ہیں۔

  3. آپ کے بلاگ کا سانچہ کچھ ٹھیک نہیں‌ ہے۔ کئی درست چیزیں‌ درست کرنے کی ضرورت ہے۔

  4. میں عثمان کی بات سے بڑی حد تک اتفاق کرنا چاہوں گا۔ درحقیقت کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جس میں تمام افراد دودھ میں دھلے ہوئے ہوں یا تمام لوگ گند میں نہائے ہوئے ہوں۔ اسی طرح کالم نگار عموماَ مخصوص واقعات کو بنیاد بنا کر شعبے پر جو تنقید کرتے ہیں اس کا مقصد بھی یہ نہیں ہوتا کہ آپ ہی اس کا اصل مخاطب ہیں۔ بلکہ مقصد تو یہ ہے کہ پیشے سے وابسطہ شخص اپنے آپ کو پرکھے اور نشاندہ برائیوں کو موجود پائے تو اس سے چھٹکارا حاصل کرے۔

  5. میں بھی عثمان کے تبصرے سے متفق ہوں۔بے شک ڈاکٹری ایک مہنگا ترین پیشہ ھے۔لیکن بات وہی نظام کی آجاتی ہے۔کوئی بہتر نظام نہ ہونے کی وجہ سے مریض اور ڈاکٹر دونوں جھنجھلاٹ کا شکار ہوتے ہیں۔
    یہاں جاپان میں پاکستان سے کورس کرنے کیلئے کئی ڈاکٹر حضرات آتے رہتے ہیں۔لیکن ان ڈاکٹر حضرات کی دلی حالت بھی کچھ آپ کی طرح ہی ہوتی ھے۔
    باقی ملک سے نکل جانے کی بات بھی ٹھیک اگر آپ اسے مناسب سمجھیں۔
    یہ پوسٹ پڑھ کر یہ شعر ذہن میں آیا۔ہو سکتا ھے۔موضوع پر فٹ شٹ نہ ہو۔
    اے فکر سخاواتی! اے طاہر لاہوتی !
    پرواز سے کیا حاصل! جو کچھ ھے زمین پر ھے!

  6. ميں ڈاکتر نہيں ہوں مگر ڈاکٹروں سے علاج ضرور کرايا ہے اور کافی کرايا ہے کيونکہ 70 سال کا ہو چکا ہوں ۔ ہمارا اصل مسئلہ جو ہے اس کی طفر کوئی توجہ نہيں ديتا ۔ جس مُلک ميں اس کی صافی آمدن سے اس کی انتظاميہ پر زيادہ خرچ ہوتا ہو باقی اخراجات قرض لے کر پورے کئے جاتے ہوں اور قرض کي قسط مزيد قرض لے کر ادا کی جاتی ہو ۔ اور جس کے عوام جو ان کے ناجائز کام کرے يا ايک دو دن انہيں پلاؤ مرغ کھلائے يا گاڑی پر بٹھا کر ليجائے يا مُکا دکھائے اُسے ووٹ ديتے ہوں وہاں آپ ڈاکٹر کی فيس کے پيچھے پڑ جائيں کيا اسے عقلمندی کہا جائے گا ؟
    روزانہ سن سن کر کان پک گئے کہ پی آئی اے اربوں کے خسارہ ميں جا رہا ہے ۔ اس ہمارے بپھرے شہزادوں کا يہ حال ہے کہ
    Saudi government temporarily impounded PIA plane for defying deadline accorded for the Haj flights but later set free after imposing fine of Rs4.8 million on Thursday afternoon. The special flight was carrying 189 passengers and crew including three sisters of Interior Minister Rehman Malik, his two brothers-in-law, PM Gilani’s real younger brother and MPA Mujtaba Gilani, his sister, a few newsmen close to the interior minister landed Jeddah airport on Thursday.

  7. اظہرالحق

    اب کیا کہوں ، کرپشن کرنے کا موقع نہیں ملا اسلئے زندگی میں کامیابی نہیں ہو سکا، میری دعا ہے کہ اب اتنی کرپشن ہو گی ہے ، اسے اجتہاد سے جائیز قرار دیا جاے، رہی بات ڈاکٹروں کی ۔۔ ۔ تو بھائی پاکستان میں جو بھوکا نہیں مر سکتا وہ ڈاکٹر ہے ، کسی نے کہا کہ ڈاکٹری مہنگی ہے ، مگر ڈاکٹری نہیں ڈاکٹر ضرور مہنگا ہے

  8. اب ڈاکڑ اتنے بھی معصوم نہیں جی!
    طب اور تعلیم کا شعبہ دیگر شعبہ ہائے جات سے مختلف ہے، اس لئے ان دو طبقوں کو اپنے الو سیدھے رکھنے چاہئے۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں