Skip to content

کالی بھیڑیں

بات تو نہ جانے کس موضوع سے شروع ہوئی تھی،مگر شرکاء گفتگو اب تھک چکے تھے۔ ایک بزرگ جن کو لیڈر کی عرفیت سے جانا جاتا تھا، کھانا کھا کر، عشا کی نماز پڑھ کر سو چکے تھے۔

ابا جان نے اچانک مہمان سے پوچھاکہ کیا وہ اُس کاروبار کے بارے میں جانتے ہیں جو کہ کراچی کے ایک معروف مدرسے کی سرپرستی میں ہو رہا ہے؟
وہ تھوڑی دیر خاموش ہوئے اور پھر انھوں نے ان لوگوں کے بارے میں بتانا شروع کیا۔ ان میں سے کچھ کو میں غائبانہ سہی، مگرجانتا بھی تھا۔ اس کاروبارکو مکمل اسلامی کاروبار کانام دیاگیا ہے اور مشہوری کی خاطر ایک نیکنام شخص کوفائدہ پہنچاکر اس کی مثال سب کو دی گئی۔ تقریبا آٹھ دس افراد اس اسلامی کاروبار کو دیکھ رہے ہیں۔ منافع بے تحاشہ ہے اور کچھ لوگوں نے تو صرف تین لاکھ روپے کی سرمایہ کاری سے 65 لکھ روپے تک بنانے کا دعوی بھی کیا ہے۔ جو کہ حیرت انگیز بات ہے۔ پہلے اس کاروبار کا دفتر مدرسہ کے اندر تھا، مگر اب اس دفتر کو باہر کہیں منتقل کر دیا گیا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ منتظمین یہ بات بتانے سے قاصر ہیں کہ وہ کون سا جادوئی کاروبار ہے جس میں اتنا زیادہ منافع ہے۔ صڑف ایک چھوٹے سے دفتر میں کام ہورہا ہے۔ کوئی فیکٹری نہیں۔ کوئی گودام نہیں۔ کچھ بھی نہیں۔ یہ بھی سُننے میں آیا کہ لوگوں نے میزان بینک میں اپنے کھاتے خالی کرا کر اس کاروبار میں جھونک دئیے ہیں۔ اس موقع پر ابا جان نے تیجی ابراہیم اور دادا بھائی کی کمپنیوں کاذکر چھیڑدیا۔ بڑے بڑے حاجی اور عالم لوگوں کے نام منتظمیں میں شامل تھے۔ وہ کاروبار فراڈ ثابت ہوا۔ جنرل مشرف کی حکومت میں کچھ گرفتاریاں تو ہوئی تھیں،مگر ڈوبا ہوا پیسہ مکمل واپس نہ کیا جا سکا۔گجرات کے ڈبل شاہ کا نام لے کر میں نے اپنا حصہ ڈالا۔

خلاصہ یہ نکلا کہ یہ ایک سُودی کاروبار ہے اور کھلا سود ہے۔مگر چونکہ سب لوگ حلال و حرام کی تمیز کھو چکے ہیں اس لئے سب دولت کے لالچ میں ، کیا عالم اور کیا جاہل، اس کاروبار میں اپنا سرمایہ لگا رہے ہیں۔ یہ سب کُھلا سود ہے مگرافسوس ۔۔

اس پر یہ بات سامنے آئی کہ دارالعلوم کراچی کے ایک مدرس نے یہ کام کچھ عرصہ قبل شروع کیا تھا، مگر چونکہ انتظامیہ محتاط ہے،لہذا انھوں نے اس کو آگے نہ بڑھنے دیا اور ان کو مدرسے سے نکال دیا۔ابھی کچھ دن پہلے کراچی میں نیشن والا کمپنی کا دو ارب روپے کا فراڈ سامنے ایا۔ اب جب یہ فراڈ سامنے آئے گا اور علما اس سودی کاروبار میں ملوث نظر آئیں گے تو پتہ نہیں یہ دھماکہ خیز انکشاف کتنے لوگ برداشت کرپائیں گے ۔۔

اور بہت سی باتیں سامنے آئیں مگر میں تھکا ہوا ہوں۔لکھ نہیں پا رہا۔شائد اس لئے کہ ترتیب خلط ملط ہورہی ہے۔ اس لئے وہی لکھوں گا جو درست یاد ہے۔

ہمارے صوبہ کے ایک تاریخی اور بہت اہم مدرسے کے ایک استاد کی وفات کچھ عرصہ پہلے ہوئی۔ ان پر یہ الزام لگایا جاتا رہا تھا کہ انھوں نے تحریک ریشمی رومال کے دنوں میں٘ شیخ الہد مولانا محمود الحسن کی انگریزوں کے لئے جاسوسی کی تھی۔ وہ مالٹا میں شیخ کے ساتھ جیل میں بھی اسی مقصد کے لئے رہے۔
قاضی حسین احمد مرحوم کے مامو٘ں اور سُسر مولانا لطف الرحمان جوکہ ابا جان کے استاد رہے ہیں، نے ایک مرتبہ اپنے درس کے دوران یہ کہا کہ علما میں سے کچھ لوگ ایسے بھی رہے جو کہ انگریزوں کے لئے جاسوسی کرتے رہے۔ اور اس ضمن میں ایک عالم مولانا عبدالحق حقانی کا بھی لیاجاتا رہا۔ ثبوت کسی کے پاس نہیں تھا۔۔۔

جی نہیں یہ عبدالحق حقانی صاحب مولانا سمیع الحق حقانی کے والد نہیں ہیں۔

ان مولانا کی اولاد میں سے کچھ لوگ پاکستان کے لئے سفیر کے طور پراپنی خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ بہر حال۔۔۔

یہ باتیں اس لئے بے معنی سی ہیں کہ ان کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے۔ یہ باتیں گفتگو میں سامنے آتی ہیں اور لوگ کڑیوں سے کڑیاں ملا کر اپنے طور پر حالات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ہمارےعلما َء دیوبند کی تاریخ میں کالی بھیڑیں ہوں گی۔۔ کسے علم تھا۔ جسے تھا اور ہے، شائد وہ خاموش ہے۔۔

1 thought on “کالی بھیڑیں”

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں