Skip to content

چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے

امجد اسلام امجد کی یہ خوبصورت غزل جگجیت سنگھ کی آواز میں سننے کو ملی۔

 

چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے
کتنے غم تھے جو ترے غم کے بہانے نکلے

فصلِ گل آئی، پھر اِک بار اسیرانِ وفا
اپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلے

ہجر کی چوٹ عجب سنگ شکن ہوتی ہے
دل کی بے فیض زمینوں سے خزانے نکلے

عمر گذری ہے شبِ تار میں آنکھیں ملتے
کس افق سے مرا خورشید نہ جانے نکلے

کوئے قاتل میں چلے جیسے شہیدوں کا جلوس
خواب یو ں بھیگتی آنکھوں کو سجانے نکلے

دل نے اِک اینٹ سے تعمیر کیا تاج محل
تونے اک بات کہی، لاکھ فسانے نکلے

دشتِ تنہائی ہجراں میں کھڑا سوچتا ہوں
ہا ئے کیا لوگ مرا ساتھ نبھانے نکلے

میں نے امجد اسے بےواسطہ دیکھا ہی نہیں
وہ تو خوشبو میں بھی آہٹ کے بہانے نکلے

httpv://www.youtube.com/watch?v=GT0N57z0MWk

1 thought on “چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے”

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں