Skip to content

پرانا جال , پرانے شکاری

اب جب کہ مختلف ذرائع نے اس خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان نے شام کی خانہ جنگی میں حصہ لینے کی غرض سے وہاں اپنا ایک مرکز قائم کر لیا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ شام میں ہونے والی خانہ جنگی پر ایک غیر جانبدار نظر ڈالنی چاہئے۔

پہلے مجھے یہ اعتراف کر لینے دیجئے کہ میرے اب تک کے شام کے مطالعے کی وجہ سے شائد یہ کام ممکن نہ ہو۔ مگر ہمارے معاشرہ میں غیر جانبدار مطالعہ کی روایت ہے ہی نہیں۔ آپ یا تو میری طرف ہو یا اُن کی طرف۔ بات ختم۔

ہمارے ذرائع ابلاغ نے اس معاملے پر بھی چُپ سادھی ہوئی ہے۔ اور وجہ سمجھ آتی ہے۔ یہ تنخواہ دار دانش ور تنقید کریں تو کس پر؟؟ باغیوں پر کر سکتے نہیں کہ اس سے ولی نعمت ناراض ہو جائیں گے۔ اور بشار الاسد پر تو ہر گز نہیں کہ وہ ایران کا حمایت یافتہ حکمران ہے اور اس ملک میں آپ سُنیوں پر، ان کے عقائد پر ، سعودی عرب پر، وہابیوں پر امریکہ پر غرضیکہ ہر چیز پر تنقید کر سکتے ہیں۔ اگر نہیں کر سکتے تو ایران پر ۔ اس سے کچھ لوگوں کے جذبات بھڑک سکتے ہیں اور آپ پر فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کا الزام بھی لگ سکتا ہے۔ معاف کیجئے گا، ایم کیو ایم بھی انھی ممنوعہ چیزوں میں شامل ہے جس پر یہ تنخواہ دار دانشور بات نہیں کر سکتے۔

شام کا مسئلہ سیدھا سادہ ہے۔

بشار الاسد کی حکومت کےخلاف جو بغاوت اٹھی ہے وہ امریکہ ، اسرائیل، ترکی اور سعودی عرب کے تعاون سے چل رہی ہے۔ ان سب ممالک کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔
امریکہ اس لئے کہ روس کی حمایت یافتہ ایک مضبوط حکومت کو ڈھانے سے جو نفسیاتی اور تزویراتی برتری امریکہ کو ملے گی وہ ایک نعمت غیر مترقبہ ہو گی۔

اسرائیل اس لئے کہ حزب اللہ کا ایک بڑا پشت پناہ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ اور اس کے بعد ایران کا مشرق وسطیٰ میں اثر کافی کم ہوجائے گا۔

ترکی اس لئے کہ عراق کے بعد اب شام کو کمزور کر دینے سے کردستان جیسے ایک بڑے درد سر سے نجات مل جائے گی۔

سعودی عرب:: سچ تو یہ ہے کہ مجھےا بھی تک سمجھ نہیں آئی کہ سعودی عرب کا کیا مفاد ہے مگر اس کی امریکہ نواز پالیسیاں ذہن میں رکھیں تو کچھ کچھ سمجھ آ جاتی ہے کہ فرمانبرداری کی جا رہی ہے۔

ایران ، حزب اللہ اور روس بشار الاسد کی حمایت کر رہے ہیں اور یہ حمایت منطقی طور پر ایک رد عمل ہے اور درست عمل ہے۔ اس مثلث کے تعلقات بہت پرانے ہیں اور کچھ پیچیدہ سے بھی ہیں۔ روس اور شام کے درمیان مضبوط تجارتی اور اقتصادی تعلقات ہیں اور ان تعلقات کو بچانے کے لئے روس کو شام کی مدد کرنی ہی ہو گی۔ شام اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کی مدد کر رہا ہے اور ایران حزب اللہ کو اسلحہ شام کی مدد سے پہنچا رہا ہے۔

زیادہ تفصیل سے جاننے کے لئے اس ربط کا مطالعہ کریں۔ یہ ربط انگریزی میں ہے۔ ایک مختصر سا سلائیڈ شو بھی آپ کو کم و بیش یہی معلومات دے گا۔
شام میں اس وقت ایک پراکسی وار چل رہی ہے اور یہ وہی صورت حال ہے جو ستر کی دہائی میں افغانستان میں تھی۔ جب مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے مملکت پاکستان کے وسیع تر مفاد کی خاطر افغانستان میں جہادی گروپوں کے ذریعے دخل اندزی شروع کی تھی۔ اس کے بعد کیا ہوا، سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔

حال آنکہ اسد خاندان علاوی سوچ کا حامل ہے۔ علاوی کیا ہیں؟ بہت سے لوگ ان کو اثنا عشری شیعہ سمجھتے ہیں۔ کچھ سمجھتے ہیں یہ مسلمانوں ہی کا ایک عام سا فرقہ ہیں اور بہت سے لوگوں کو علم ہی نہیں۔ بہت عرصہ قبل میں نے اسد خاندان اور علاویوں کے بارے میں ڈینیل پائپس کے کچھ مضامیں پڑھے تھے۔ ڈئنیل پائپس کی شہرت اس کے متعصب افکار کی وجہ سے اچھی نہیں اور یہ مسلمانوں کے بارے میں کچھ اچھے خیالات نہیں رکھتا۔ اس کا یہ نسبتا طویل مضمون آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ سن ۱۹۲۰ تک علاویوں کو نُصیری یا انصاری کہا جاتا رہا اور یہ ان کے افکار کی وجہ سے تھا۔ ۱۹۲۰ کے آس پاس جب فرانس نے شام پر قبضہ کر لیا تو ان کا نام بدل کر علاوی رکھ دیا گیا اور اس کا ایک بہت بڑا اثر ہوا۔

پہلے نام کی وجہ سے یہ گمان ہوتا تھا کہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں اور نصاریٰ سے تعلق رکھتے ہیں، اور دوسرے نام سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کی اولاد میں سے ہیں۔ بہتر یہ ہوگا کہ میں ایک عدد اقتباس آپ کی خدمت میں پیش کردوں۔ مندرجہ ذیل سطور ڈینئل پائپس کے متذکرہ بالا مضمون سے نقل کی گئی ہیں

‘Alawis today number approximately 1.3 million, of which about a million live in Syria. They constitute some 12 percent of the Syrian population. Three-quarters of the Syrian ‘Alawis live in Latakia, a province in the northwest of Syria, where they make up almost two-thirds of the population.

‘Alawi doctrines date from the ninth century A.D. and derive from the Twelver or Imami branch of Shi’i Islam (the sect that predominates in Iran). In about A.D. 859, one Ibn Nusayr declared himself the bab (“gateway to truth”), a key figure in Shi’i theology. On the basis of this authority, Ibn Nusayr proclaimed a host of new doctrines which, to make a long story short, make ‘Alawism into a separate religion. According to Ibn Kathir (d. 1372), where Muslims proclaim their faith with the phrase “There is no deity but God and Muhammad is His prophet,” ‘Alawis assert “There is no deity but ‘Ali, no veil but Muhammad, and no bab but Salman.” ‘Alawis reject Islam’s main tenets; by almost any standard they must be considered non-Muslims.

Some ‘Alawi doctrines appear to derive from Phoenician paganism, Mazdakism and Manicheanism. But by far the greatest affinity is with Christianity. ‘Alawi religious ceremonies involve bread and wine; indeed, wine drinking has a sacred role in ‘Alawism, for it represents God. The religion holds ‘Ali, the fourth caliph, to be the (Jesus-like) incarnation of divinity. It has a holy trinity, consisting of Muhammad, ‘Ali, and Salman al-Farisi, a freed slave of Muhammad’s. ‘Alawis celebrate many Christian festivals, including Christmas, New Year’s, Epiphany, Easter, Pentecost, and Palm Sunday. They honor many Christian saints: St. Catherine, St. Barbara, St. George, St. John the Baptist, St. John Chrysostom, and St. Mary Magdalene. The Arabic equivalents of such Christian personal names as Gabriel, John, Matthew, Catherine, and Helen, are in common use. And ‘Alawis tend to show more friendliness to Christians than to Muslims.

یہ تو ایک مختصر سا تعارف تھا۔ شام میں جو لوگ باغیوں کے روپ میں حکومت سے لڑ رہے ہیں وہ کون ہیں؟ اتنا تو ہم جان چکے ہیں کہ پاکستانی طالبان کا ایک گروپ بھی وہاں پہنچ چکا ہے۔ مگر یہ فساد تو بہت پہلے سے ہو رہا تھا۔ اس بلاگ پر شام میں لڑنے والی جہادی تنظیموں پر کافی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ کاش معاملہ اتنا آسان ہوتا۔ کاش بات یہیں تک رہتی۔ مگر کیا کریں وہی لونڈا جس کے سبب مسلمان بیمار ہوئے، وہی ان جہادی تنظیموں کی مدد کر رہا ہے۔

وکی پیڈیا پر فری سیرین آرمی پر لکھے گئے ایک آرٹیکل کا کچھ حصہ آ پ کے لئے :

Croatian General Marinko Krešić confirmed that there are between 80 and 100 Croat mercenaries between the ages of 40 and 60 helping the Free Syrian Army. They are veterans from the Croatian War of Independence (1991–95) or Bosnian War (1992–95), but also fought as mercenaries in Iraqi War (2003–11), Libyan civil war, Tunisian revolution and Egyptian revolution. Krešić stated that some are serving as security, instructors while others are killing. He also stated that they are very well trained and that “they are the one who will probably kill rather than be killed”. Krešić stated that their payment is up to 2,000 US$ a day due to “rich foreign donators”. He also added that the majority of the volunteers coming from the Balkans to help the FSA are Serbs and citizens of Bosnia and Herzegovina.[149][150][151] Sources close to the Belgrade military circles confirmed that the former members of the Kosovo Liberation Army are also aiding the FSA. They are mostly instructors who train the rebels mostly for the urban and the guerrilla warfare.[152] A first reported death of a member of the Kosovo Liberation Army was announced on 13 November. Naman Demoli, a former member of the KLA was killed near Syrian-Turkish border.[153]

There are dozens of Kuwait’s volunteers entering from Turkey that are fighting in ranks of the FSA. The volunteers are given Syrian IDs as a precautionary measure in case they are arrested, before they are armed and sent to fight in different locations across the troubled country.[154]

شام میں اس وقت ایک پراکسی وار چل رہی ہے۔ جن کے درمیان یہ جنگ چل رہی ہے وہ اپنے اپنے گھروں میں محفوظ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کی جغرافیائی سرحدیں یا تو اس قتل عام سے بہت دور ہیں یا پھر انھوں نے اپنی حفاظت کا اپنی دانست میں بندوبست کیا ہوا ہے۔ اس پراکسی وار کا ایندھن بے گناہ شامی عوام ہیں۔ اور سونے پہ سہاگہ کے مصداق اس پراکسی وار کو درست ثابت کرنے کے لئے بہت طاقتور پروپیگنڈا بھی کیا جا رہا ہے۔ انٹرنیٹ پر سرسری سی تلاش کے بعد بہت سا ایسا مواد مل جائے گا جو جذباتی ، جہادی سوچ رکھنے والے مسلمانوں کے لئے ایک دھچکا ثابت ہوگا۔ شام میں ہونے والے قتل عام کو درست ثابت کرنے کے لئے بہت سے جواز گھڑے جا رہے ہیں۔ ایک تو سٹینڈرڈ سنی بمقابلہ شیعہ جواز ہے۔ کچھ اسے شام کی سنی اکثریت کا حکمران اقلیت کے خلاف رد عمل دکھا رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب بھونڈے جواز ایک خود مختار ملک میں دخل اندازی کو درست ثابت کرنے کی مد میں جھوٹ کا پلندہ ہی ہیں۔

شام میں غاصب کون ہے؟ ڈاکٹر جاوید جمیل کا یہ تبصرہ پڑھ لیجئے۔

شام میں باغی گروپوں میں جہادی لوگوں کی شمولیت ایک سوالیہ نشان ہے۔ وہی امریکی حکومت جو یمن اور پاکستان میں ڈرون حملوں کے ذریعے ان تنظیموں کو تباہ کرنے پر تُلی ہوئی ہے وہی حکومت اور اس کے یورپی حواری ایک طرف تو شامی حکومت پر اسلحہ بیچنے پر پابندی لگا رہے ہیں اور دوسری طرف ان جہادیوں کو مسلح کر رہے ہیں۔ یہ دوغلی پالیسی کسی کو نظر کیوں نہیں آتی؟ یہاں تک کہ چیچنیا سے قفقاز سینٹر جیسا ادارہ بھی جنگجو بھیج رہا ہے اور گزشتہ دنوں کی بوسٹن بمبنگ کے دوران اس کا تذکرہ سی آئی اے کے ایک ادارے کے طور پر ہوا تھا۔

یہی غیر مسلم حکومتیں شامی باغیوں کو مسلح کر رہی ہیں، ترکی اور دیگر ہمسایہ ممالک اسلحہ پہنچانے میں ان کی مدد کر رہے ہیں اور سعودی عرب اور قطر کا پیسہ استعمال ہو رہا ہے۔ کس کے خلاف؟؟ بشار الاسد کے خلاف۔ ہلاک کون ہو رہا ہے ؟ بے گناہ عوام۔ فائدہ کس کو ہوگا؟ جس نے یہ جنگ چھیڑی ہے۔

شام میں جاری اس دخل اندازی کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر مغری دنیا میں مارکیٹ کیا جا رہا ہے۔ جہاں تک مسلم دنیا کا تعلق ہے تو وہاں ان اصولوں کی ضرورت نہیں۔ جذباتی اور بے روزگار نوجوانوں کو جہاد اور یومیہ الاونس کے نام پر لبھا کر جنگ کا ایندھن بنایا جا رہا ہے۔ یہ وہی صورت حال بنتی نظر آ رہی ہے جو کہ افغانستان کی جنگ کے دنوں میں تھی۔ پاکستان میں کام کرنے والی جہادی جماعتیں سی آئی اے کا پیسہ لے کر نوجوانوں کو جہاد کے نام پر افغانستان میں امریکہ اور رو س کے درمیان چھڑی جنگ کا ایندھن بنا رہی تھیں اور باقی ہم وطن یا تو اس جہاد سے ہونے والی آمدنی سے جائدادیں بنا رہے تھے یا پھر سوئے ہوئے تھے۔

مجھے امریکی جنرل ڈیمپسے کے اس تجزئے سے مکمل اتفاق ہے کہ اگر یہی صورت حال رہی تو شام ایک اور افغانستان بن سکتا ہے۔

دوسری طرف ہمارا نوجوان حساس ذہن شام میں جاری اس فساد کے بارے میں کیا سوچتا ہے اس کی جھلک اس اقتباس میں موجود ہے ۔

یہ امت رفض کے کوہ گراں سے دیوانہ وار جاٹکرائی ھے جس کہ پاس اپنے آپشن بھی یہی ہیں کہ وہ اس سیلاب کہ آگے اپنی جان و مال سے بند باندھ دے وگرنہ وہ اس صفوی سلطنت کو بھی بہا کر لے جائے گا اور رفض کے ساتھ آخری معرکہ ھوکر رھے گا جس کہ بعد وہ پھر صدیوں تک سر نہ اٹھا سکے گا، رفض کا مقصد واضح اور متعین ھے ، وہ اس جاں گسل معرکے کہ پہلے محاذ پر ہی ہار نہیں ماننا چاھتا اس لیے اس نے اپنے بہترین لشکر یعنی حزب اللہ وغیرہ میدان میں اتاردیئے ھیں جو کہ اسی مذھبی جذبے سے آراستہ ھیں جن سے ان کا فریق – اسی طرح ہر ٹیم کہ کچھ مقاصد ہیں مغرب اس تلاش میں ھے اس عوامی مومینٹم سے وہ عنصر نکال لے جو کہ اس کہ کچھ جمہوری و صہیونی مفادات کی پاسداری کا نگہبان بن جائے ، عربی ٹیم ایک تیر سے دو شکار کرنا چاھتی ھے ،رفض بھی ختم ھوجائے یا کم از کم اس کے لیے خطرہ نہ رھے اور اس کے اقتدار کا پایا بھی جما رھے ،جس کو “قطبی اسلام” سے شدید خطرہ دوچار ھے ، مگر ان سب ٹیموں کہ مقاصد کچھ بھی ھوں اس میں کوئی شک نہیں ھے کہ اللہ تعالی نے “امت” کہ لیے شائد سب سے ضروری محاذ کھول دیا ھے جو کہ ان کو عقیدہ بھی سکھا کر رھے گا ! کیونکہ خالص عقیدہ ، خالص کفر کہ زیر مقابل وجود میں آتا ھے اور کچھ شک نہیں کہ روئے زمین پر اس وقت نصیریوں و رافضیوں سے بڑھ کر کسی کا شرک نہیں ھے ، اسی لیے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ نصیریوں کو یہود و نصاری سے بھی بد تر کفار قرار دیتے تھے ! شائد یہی وجہ ھے کہ شامی جہاد سارے کا سارا سلفی قیادت کہ زیر اثر ھے ، سیکولر و لبرل عناصر بیرون ملک صرف چند “سرکاری و قومی مفادات ” کی میٹنگز تک محدود ہیں مگر میدانی حقیقتوں میں ان کا وجود کہیں بھی نہیں پایا جاتا ، اور جہاں جہاں ان کا نام موجود ھے ھے وہ بھی اصل میں ایک اسلامی چہرہ ھے جو کہ وطنی عصبیت میں جہاد کہ جذبے سے سرشار ھے مگر اس کہ لیے تحریک اسی مذھبی تعیلم سے پکڑتا ھے جو کو قرآن و سنت کا نام دیا جاتا ھے ، کسی بھی اور خطے میں جہاں کہ اسلام کہ نام پر کوئی تحریک بپا کی گئی ھو یا جہاد کو شروع کیا گیا ھو عوام کو اسلام کی طرف اور خاص طور پر سلفی اسلام کی طرف ویسے راغب نہیں کیا جیسے کہ شام کہ اندر جہاد نے کیا ھے ۔ شائد ہم جدید تاریخ میں پہلی بار ایک پوری قوم کو اسلام کہ لیے جان دینے پر آمادہ دیکھ رھے ھیں !
نسل انسانی اور اسلامی تاریخ کہ اس سب سے شاندار معرکہ میں ضرورت ا س امر کی ھے کہ اس معرکہ پر بھرپور توجہ مرکوز رکھی جائے اور اس کہ احوال کی زیادہ سے زیادہ خبر بہم پہنچائی جائے تاکہ عامۃ المسلمین بھی یہ جان سکیں کہ اسلام کی رفعتوں کہ جان لڑا دینے والے یہ لوگ کون ھیں جن پر ادھر کا” ڈالر نوش میڈیا” بے خبری کا پردہ ڈالنا چاھتا ھے اور کسی مخصوص ملکی مفاد کہ پیش نظر “علمائے قوم” کی زبانوں پر بھی اس معرکے کا قرار واقعی زکر آنا ممنوع قرار پایا ھے اس لیے اوپر پیش کردہ ایک تمہید کہ بعد جو کہ اس معرکہ کی سمجھ آنے کہ لیے ضروری تھی ارض شام میں بر سر پیکار تنظیموں کا ایک مفصل تعارف پیش کیا جاتا ھے تاکہ ادھر کہ لو گ بھی جان سکیں کہ سوا لاکھ سے زائد مظلوم مسلمانوں کا خون بہانے والے درندوں ٹکرانے والے شیر کون ہیں اور ان کا بیک گراونڈ کیا ھے

پرانا جال , پرانے شکاری

2 thoughts on “پرانا جال , پرانے شکاری”

  1. تبصرے سے پہلے ایک درخواست ۔ بلاگستان ہو یا اُردو سیارہ یا کوئی اور اگریگیٹر آپ کا بلاگ کھولنے کی کوشش ناکام رہتی ہے ۔ از راہِ کرم اسے ذرا درست کیجئے یا کرایئے ۔ اب تبصرہ ۔
    آپ نے وہ سچ بول دیا ہے جو میرے ہموطن بڑے بڑے دانشوار کہلوانے والے نہیں کہہ سکتے ۔ کمال تو یہ ہے کہ آپ نے وہ سچ بھی لکھ دیا ہے جس پر منوں بلکہ ٹنوں مٹی ڈال کے اسے اپنی طرف سے ہمیشہ کیلئے دفن کر دیا گیا تھا اور اس کا سارا ملبہ آج تک وردی والے ضیاء الحق پر ڈالا جاتا ہے گو درست ہے کہ الاؤ ضیاء الحق کے زمانہ میں بھڑکا تھا
    ”شام میں اس وقت ایک پراکسی وار چل رہی ہے اور یہ وہی صورت حال ہے جو ستر کی دہائی میں افغانستان میں تھی۔ جب مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے مملکت پاکستان کے وسیع تر مفاد کی خاطر افغانستان میں جہادی گروپوں کے ذریعے دخل اندزی شروع کی تھی“۔
    آپ کی عمر اتنی زیادہ نہیں ہے ۔ لازم ہے کہ آپ کا مطالعہ بڑا وسیع ہے ۔ اللہ مزید ہمت دے

  2. کافی محنت کی آپ نے۔اور دلچسپی سے اسے پڑھا۔
    حقیت یہی ہے کہ شام ہو یا مصر یا دیگر اسرائیل کے آس پاس کے مسلم ممالک ان میں انتشار افراتفری صرف اسرائیل کے مفاد میں ہے۔
    فرض کرتے ہیں۔کہ اخوان المسلمین جیسی تنظیمیں اسرائیل کے آس پاس کے ممالک پر مضبوط حکومتیں بنا لیتی ہیں۔بے شک یہ حکومتیں اعتدال پسند امن پسند ہی کیوں نہ ہوں۔
    کیا اس کے بعد اسرائیل مسلسل اپنی من مانی کرنے قابل رہے گا؟فلسطین کے سرحدیں کھول دی جائیں گئیں۔محصور مسلمان دوسرے ممالک میں آسانی سے آنا جانا شروع کردیں گے۔اور اسرائیل کے وجود کیلئے خطرات بڑھتے جائیں گے۔
    اہل اسلام کا اصل مسئلہ مسلک کے نام پر ایک دوسرے کیلئے شدید بغض رکھنا ہے۔پہلے مسلکی دشمن کو دیکھتے ہیں اور اس کے بعد دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔صرف چند لاکھ کےنفوس کروڑوں کے ہجوم کو
    اپنی مرضی کے مطابق استعال کر رہے ہیں۔اور یہ ہجوم سوچنے سمجھنے کا تکلف نہیں کر رہا ہے۔ایک جاپانی رسالہ میں کسی یہودی کا انٹرویو پڑھا تھا۔اس سے پوچھا گیا کہ کیا آپ مستقبل میں اسرائیل کے وجود کیلئے خطرہ محسوس کر تے ہیں؟ تو ان یہودی صاحب کا جواب تھا۔کہ پہلے یہ بتائے کہ ایک ذہین شخص کیلئے بیوقوف بھیڑوں کا ریوڑ کسی خطرے کا باعث بن سکتا ہے؟

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں