Skip to content

پانچواں راستہ… پاڑہ چنار

پاڑہ چنار(کرم ایجنسی) پاکستان کے شمال مغربی قبائلی پٹی کا وہ حصہ ہے جس کے تین اطراف افغانستان کا سرحد ہے اور ایک طرف پاکستان کا ضلع ہنگو ہے. یہاں لگ بھگ چھ لاکھ افراد زندگی بسر کر رہے ہیں. شہر کو ملک کے دیگر شہروں سے ملانے والی واحد شاہراہ پر پچھلے ڈیڑھ سال سے مقامی اور غیر ملکی شدت پسندوں کا عملی کنٹرول ہے. اور ہر طرح کے ٹریفک کے لئے بند ہے.

مقامی قبائل نے شر پسندوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی بجائے باقی تین اطراف پر توجہ دیتے ھوئے افغانستان کے لمبے اور کٹھن راستے کا انتخاب کیا کہ شائد حکومت کو کبھی اس علاقے کا بھی خیال آئیگا.

آپ سب کو معلوم ہے کہ افغانستان وہ ملک ہے جس کے بارے میں ہمارے حکمران اور سیاسی قائدین یہ کہتے کہتے تھکتے نھیں کہ وہاں حکومت کی حکمرانی دارالحکومت کے خاص احاطے تک محدود ہے. بقول ان کے “بےبس حکومت” نے اپنے چھ صوبوں سے گزرنے والی ساڑھے آٹھ سو کلومیٹرطویل سڑک کوسفر کے لئے  قدرے محفوظ بنایا. دوسری طرف دنیا کی چھٹی بڑی فوجی طاقت رکھنے والا ملک اپنے مکینوں کے لئے محض پچاس کلومیٹر کا راستہ دو سال سے زائد عرصے میں صاف نہیں کر سکا. اس دوران شاہراہ پرتسلسل سے  ہونے والے اغواء اور قتل کے دلخراش واقعات پر کارروائی تو دور کی بات ہے بلکہ قوم کو بھی بے خبر رکھا گیا.

آج ایک اطلاع آئی ہے کہ آخر کار دو سال تک خدمت گذاری کرنے کے بعد افغان حکومت نے بھی پاڑہ چنار کے شہریوں پر راستہ مکمل طور پر بند کر دیا. یوں اب اپریل 2007 سے ملک سے کٹنے والا علاقہ چاروں طرف سے محصور ہو گیا ہے.

مقامی ابادی نے پانچویں راستے کی تلاش میں حکومت سے فضائی راستہ فعال بنانے کا مطالبہ کیا تو حکومت نے نہ صرف معذرت کرلی. بلکہ ایک نجی فضائی ادارے کو بھی سہولیات منقطع کرنے کی تنبیہ کی جو منہ مانگی قیمت پر  شاز و نادر اپنے چھوٹے جہاز CESSNA چلایا کرتی تھی. ادویات، اشیائے خورد و نوش، تعلیم و ترقی اور بیرونِ علاقہ ملازمت کے مواقع کا فقدان ایک الگ قصہ ہے. آئے روز معمولی نوعیت کی بیماریوں میں مبتلا مریض ہسپتال میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں.

اب سوال یہ نہیں کہ پانچواں راستہ بند ہونے کے بعد وہاں کے باشندوں کے پاس کیا بچتا ہے. ہو سکتا ہے کسی دن یہاں سے علیحدگی کا نعرہ اٹھے اور پھر اسکو پوری قوت کے ساتھ کچلنے کے لئے حکومت یک لخت حرکت میں آکر اپنی طاقت ثابت کرے.

اصل سوال یہ ہے کہ اس عظیم انسانی سانحے کے ذمہ دار کون ہیں؟

حکومت کی طویل مجرمانہ غفلت کو اگر واحد ذمہ دار قرار دیا جائے تو نا انصافی ہوگی.

شرپسندوں کی وکالت میں پیش پیش وہ سیاسی قائدین بھی اس کھیل میں شامل ہیں جو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی خاطر روز نام نہاد اپریشنز کا رونا روتے ہیں. اور دن رات اس واقعہ سے توجہ ہٹانے میں مصروف ہیں. ملک میں انصاف کرنے کے لئے متحرک ایک قائد بھی اس واقعے کو امریکی سازش کا نام دے کر پردہ ڈالنے سعی کرتا رہا ہے. مذہب کے نام پر سیاست کی دکان کھولنے والے قائدین  آئے روز غزہ کی باتیں تو کرتے رہتے ہیں لیکن کبھی انکے لبوں سے پاڑہ چنار کا ذکر نہیں سنا.

معمولی نوعیت کے واقعات پر از خود نوٹس لینا ہمارے چیف جسٹس کا محبوب مشغلہ ہے. سادہ لفافوں میں بھیجی گئی نام نہاد شکایات پر حکومتی اداروں اور اہلکاروں پر سیخ پا ہونا اسکا روز کا معمول ہے.لیکن نصف ملین ابادی سے زندگی کا بنیادی حق چھیننے پر پُر اسرار طور پر خاموش ہے. اور 2134 لوگوں کے دستخطوں اور شناختی کارڈ کی کاپیوں سمیت پاڑہ چنار کے عوام کی پٹیشن کو بااسانی ردی کی ٹھوکری میں ڈال دیا.

قومی سطح کے انسانی حقوق کے علمبردار سوات میں شدت پسندوں کے اُوپر سیکیورٹی اداروں کی جانب سے ہونے والے مظالم کے غیر مصدقہ رپورٹوں اور افواہوں پر حشر برپا کرلیتے ہیں. لیکن پاڑہ چنار کے انسانیت سوز داستان کی تفصیلی رپورٹ ملنے پربھی ٹس سے مس نہیں ہوتے.

بریکنگ نیوز کے ذریعے عوام میں اشتعال پیدا کرنے والی منفرد پاکستانی میڈیا بھی پاڑہ چنار کی خبر اس وقت چلاتی ہے جب وہ خبر بین الاقوامی میڈیا کے کئی چکر کاٹ چکی ہوتی ہے.

آخر میں سوات کی فتح پر بغلیں بجانے والی فوج بھی کرم ایجنسی اور پاڑاچنار میں شرپسندوں کے علاقے سے گذرتے ہوئے صلواتیں بھیجتی ہیں. اور انکی زیرِحفاظت فوڈ کانوائے پر جب شر پسندوں نے حملہ کرکے بارہ ٹرک لوٹ کر جلائے اور مسافروں کو بے دردی سے قتل کیا تو وہ لڑ لڑ لڑ لڑ کر ایک گولی چلائے بغیر بحفظ و آمان واپس کوہاٹ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے.

اگر کہیں پولیٹکل ایجنٹ کے قافلے پر حملہ ہوا تو تین گھنٹے کی شدید مقابلے کے بعد قافلے میں شامل اکلوتے مقامی باشندے کی قربانی دیکر رفوِ چکر ہو گئے اور شر پسندوں کا بال بھی بیکا نہیں گیا.

8 thoughts on “پانچواں راستہ… پاڑہ چنار”

  1. شکریہ ڈاکٹر ارشاد.

    میں قارئین سے آپ کا تعارف کراتا چلوں. ڈاکٹر ارشاد میرے دوست ہیں اور ہماری دوستی کو دس سال سے زیادہ ہو چکے ہیں. ڈاکٹر ارشاد کو میں نے اپنے بلاگ پر لکھنے کی ترغیب دی تھی، مگر مجھے علم نہیں تھا کہ ان کی ابتدا ہی اتنی دھماکہ خیز ہو گی.

    میرے بلاگ پر کچھ تکنیکی وجوہات کی بنا پر تحریر کے مصنف کا نام نہیں ظاہر ہو رہا، مجھے امید ہے میں جلد ہی اس مسئلے کا حل نکال لوں گا.

    پاڑہ چنار کے انسانی المیے پر مجھے جتنا ڈاکٹر ارشاد سے اتفاق ہے، اتنا شائد ہی کسی کو ہو. یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ پاکستان کہ محب وطن عوام کے ایک بہت بڑے حصے کو اس طرح نظر انداز کر دیا گیا ہے. اور یہ آج کل کی بات نہیں ہے، بلکہ اس مرتبہ تو یہ المیہ سنہ 2007 سے شروع ہوا اور اب تک حل نہ ہو سکا. کرم ایجنسی میں بھی حکومتی رِٹ قائم کرنے کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ ملک کے دوسرے حصوں میں، مگر کچھ نامعلوم وجوہات کی بنا پر ملک کا یہ خوبصورت علاقہ بری طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے.
    مجھے امید ہے کہ اب جب کہ لوگ آواز بلند کرنے لگے ہیں، حکومت اپنی پُراسرار خاموشی توڑتے ہوئے اس انسانی المیے کا کوئی حل نکالے گی تاکہ اِن لوگوں کا ملک کی وحدت میں یقین باقی رہ سکے.

  2. بہت ہی الم ناک صورت حال ہے اور ہر دن مقامی لوگوں سے اصل خبر اور اصل حالات سن کر تو جی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔۔

    ڈاکٹر ارشاد صاحب کو مستقل لکھنے پر لگائیں جی تاکہ پورے پاکستان سے اردو بلاگز کے ذریعے وہ خبریں بھی سامنے آئیں جو ہمارا پیشہ ور صحافی دکھانا نہیں چاہتا یا اپنے نظریات کا تڑکا لگا کر دکھاتا ہے۔ ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم دکھاتا ہے۔

  3. اسماء پيرس

    مجھے تو ان لوگوں کی زندگی کے بارے ميں سوچ کر بخار سا چڑھنے لگا ہے ويسا ہيب جيسا ميرے بچوں کو تکليف ہوتی ہے تو ميری طبعيت بھی مارے غم کے خراب ہونے لگتی ہے

  4. عمار عاصی

    درست فرمایا. پاڑا چنار کی آبادی ایک طویل عرصے سے ان مشکلات کا شکار ہے. حکومت نے اس معاملے سے مجرمانہ غفلت اٍختیار کر رکھی ہے اور میڈیا بھی خاموش ہے.

  5. فرحت حسین

    ارشاد بھائی! میں فرحت حسین ہوں اور پاراچنار سے تعلق رکھتا ہوں اور پاراچنار کو پاڑہ چنار نہیں لکھتا… میں بھی پاراچنار کے بارے میں لکھتا ہوں اور میرا دعوی ہے کہ میں نے سب سے زیادہ اپنی دھرتی کے بارے میں لکھا ہے بہرحال مجھے خوشی ہے کہ آپ نے بھی قلم اٹھایا ہے. اگر ممکن ہو تو اپنا تعارف کرائیں.

  6. فرحت معذرت کے ساتھ، میں ایک عرصہ سے انٹرنیٹ اور بقول ڈاکٹر صاحب کے مہذب دنیا سے دور تھا- جسکی وجہ سے میں ٹائم پر جواب نہ دے سکا- میرا سرسری تعارف تو میرے محترم دوست ڈاکٹر منیر عباسی صاحب نے کیا ہے- باقی علاقائی سطح پر میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہوں- فیس بک پر بآسانی دستیاب ہوں- شکریہ

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں