Skip to content

ٹھکرائے جانے کا ڈر

مجھے انتظار کرنا تھا۔ میرا دوست مجھے اپنے کمرے میں انتظار کرنے کا کہہ کر باہر چلا گیا۔ اس کے علاقے سے تعلق رکھنے والے کچھ طُلبا ء آپس میں جھگڑ پڑے تھے اور سینئر ہونے کے ناتے یہ اس کمیٹی میں شامل تھا جس نے تصفیہ کرنا تھا۔ وقت گزاری کی خاطر میں نے ٹی وی کا ریموٹ ہاتھ میں لیا اور چینل بدلنے لگا۔

ٹی وی پر ہر چینل پر سب کچھ ایک جیسا تھا۔ پاکستانی ہوں یا بیرونی چینل، سب کی ترکیب ایک جیسی تھی۔ پاکستانی نیوز چینلز رجنی کانت کی سالگرہ پر اس کی تامل یا تیلگو فلموں کے ٹوٹے چلا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اگر ہم نے ان ناقابل فہم زبانوں میں بنی فلمیں نہیں دیکھی ہیں تو ہم اس عظیم فنکار کے فن کو دیکھ نہ سکنے کے باعث کتنے بد قسمت ثابت ہوئے ہیں۔ کچھ خبریں کسی نہ کسی جگہ دھماکے یا حادثے سے متعلق تھیں اور بس!
خبروں کے بعد کسی نہ کسی چینل پر چینل کے ایک رپورٹر یا میزبان کی زبانی معاشرے کے مجرموں کے احتساب کی کارروائی دکھائی جانے لگی۔ ان سیلف سٹائلڈ تھانیداروں پر تین حرف بھیج کر میں نے چینل بدلنے کی ٹھانی۔ میوزک چینلز نظر آئے۔ ایک دو علاقائی زبان کے چینلز پر میوزک پروگرام دیکھنے کو ملے۔ سب کی ترتیب اور موسیقی ایک جیسی تھی۔ کوئی فرق نہیں نظر آیا۔ پشتو موسیقی کا ایک پروگرام ،جس میں ماضی کے معروف گلوکار گلزار عالم کو بطور جج بٹھا کر اس پروگرام کو کچھ اچھا بنانے کی ایک بھونڈی سی کوشش کی گئی تھی، اتنا ہی بُرا تھا۔ پروگرام کی میزبان جوڑی کسی طور بھی پشتون معاشرے کی عکاس نہیں تھی۔ پروگرام کی موسیقی، اور گانوں کے الفاظ گرامر کی غلطیوں سے پُر، کسی اور ہی معاشرے کی عکاسی کر رہے تھے۔ مجھے یہ سب عجیب سا نہیں لگا۔ جس چینل کو بھی دیکھا، جس پروگرام کو بھی دیکھا، وہاں ایک ہی کلچر نظر آیا۔ جینز، ٹی شرٹ اور مغربی موسیقی کے آٹھ سُروں پر مشتمل ایک بے ہنگم سا شور۔

چینلز کے لیبل کو اگر ایک لمحے کے لئے میں نظر انداز کر دیتا تو مجھے یہ سب پروگرام ایک ہی معاشرے کے مختلف کرداروں کی ترجمانی کرتے نظر آتے، جو کہ ہمارا معاشرہ ہر گز نہ تھا۔

ہماری زندگی میں مغربیت کچھ زیادہ ہی داخل ہو گئی ہے۔ اور اب اتنی زیادہ دخیل ہو چکی ہے کہ اب اس کو بُرا کہنا بھی عجیب سا لگتا ہے۔ میں نے سوچا ہمارا معاشرہ کہاں گیا؟

آخر کیا بات ہے کہ ہم سب اس دوڑ میں آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایسی دوڑ جس میں مفید باتیں سیکھنے کی بجائے ہم بُری باتیں ہی سیکھے جارہے ہیں۔ اکثر لوگ اس سوال کا جواب کچھ یوں دیتے ہیں کہ اگر مغرب اتنا ہی بُرا ہے تو آج سے کمپیوٹر استعمال کرنا بند کر دو۔ گاڑیاں بھی وہیں سے درآمد ہوئیں، مت استعمال کرو۔ گدھے اور گھوڑے کا استعمال شروع کر دو۔ یہ طرز استدلال اتنا ہی بُرا ہے جتنا کہ ان لوگوں کا طرز عمل جو مغرب پر صرف تنقید ہی کرتے رہتے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنے طرز معاشرت کو نہیں بھولنا چاہئے۔ ہمارے وطن پاکستان میں طرز معاشرت یکساں نہیں ہے۔ اور طرز معاشرت کا فرق شمال سے لے کرجنوب تک ہر جگہ نمایاں ہے۔ ہمارے لوگوں کو حق ہونا چاہئے کہ وہ اپنے طرز معاشرت کے مطابق زندگی جئیں۔ ترقی اور جدیدیت کے نام پر ایسا طرز زندگی لوگوں پر نافذ کرنا جو کہ ان کی روایات سے میل نہیں کھاتا ان پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ افسوس کسی کو اس بات کا احساس نہیں۔ ہم پر ایسا طرز معاشرت نافذ کیا جا چکا ہے جس کے نقصانات فوائد سے زیادہ ہیں۔ اس طرز معاشرت کی بنیادی اکائی میں مرد و زن کا آزادانہ اختلاط ہے۔ اس طرز معاشرت کے اصول اور اخلاق بہت مختلف ہیں۔ اس طرز معاشرت میں جو چیزیں یا کام جائز ہیں وہ ہمارے اپنے طرز معاشرت میں ناپسندیدہ بھی ہو سکتی ہیں۔ بہت سی ایسی باتیں ہیں جو ہم صرف اس لئے کر جاتے ہیں کیونکہ ان کا کرنا “پولیٹیکلی کریکٹ ” ہوتا ہے۔ اگر نہ کریں تو تنقید کا باعث بنیں گے۔ ہم نہیں چاہیں گے کہ ہمیں صرف اس لئے ٹھکرایا جائے کہ ہم ایسی بات کر رہے ہیں جو معاشرے سے مختلف ہے۔

مغربی طرز معاشرت کو اپنائے بغیر بھی ترقی ہو سکتی ہے اور وہ زیادہ پائدار ترقی ثابت ہوگی۔ مگر افسوس ترقی کے برآمد کنندگان یہ نہیں چاہتے۔ ترقی کے ساتھ ساتھ ہماری مجموعی معاشرتی اخلاقیات کا رُخ اپنی طرف موڑا جا رہا ہے۔ اور ہم چونکہ کشکول پھیلائے بیٹھے ہیں، ہم احتجاج بھی کر نہیں سکتے۔ ہمارے ٹی وی چینل ہوں یا اخبارات یا ریڈیو پروگرام۔ سب ایک ہی طرز معاشرت کی نمائندگی کر رہے ہیں اور جدیدیت کے نام پر ایسی چیز پیش کر رہے ہیں جو کم از کم ہماری نہیں ہے۔

جدیدیت کے نام پر ہم اور کچھ تو سیکھنے سے رہے، صرف نت نئے موبائل فون اور کمپیوٹر خرید کر اپنے آپ کو “اِن” رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنے اپ کو مغربی نقطہ نظر سے معاشرتی طور پر اہم ثابت کریں کیونکہ بنیادی طور پر یہ ٹھکرائے جانے کا ڈر ہی ہوتا ہے جو افراد کو ایسے ایسے کام کرنے پر مجبور کر دیتا ہے جو وہ عام حالات میں کبھی نہ کرتے۔

پتہ نہیں اس خوف سے ہم کب نجات حاصل کریں گے؟

1 thought on “ٹھکرائے جانے کا ڈر”

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں