Skip to content

واویلا قبل از مرگ؟

تازہ ترین ڈرون حملے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال بہت پیچیدہ ہے۔ ملک و قوم کی کشتی کو اس نئے بھنور سے نکالنے کے لئے یہ منتخب دماغ کیا پالیسی بناتے ہیں یہ اگلے چند دنوں یا ہفتوں میں واضح ہو جائے گا۔

مجھے ڈر ہے کہ اس مرتبہ بھی عجلت کا مظاہرہ کر کے اس صورت حال کو اور بگاڑ دیا جائے گا۔ ڈرون حملے اور ان کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں بہت متنازعہ ہیں۔ جس طرح سے ہماری قوم دو واضح گروہوں میں تقسیم ہوئی ہے، یہ ان حملوں کا ہی اعجاز ہے۔

ان حملوں کی موافقت یا مخالفت میں اپ کو ادھر اُدھر نظر دوڑانے پر بہت سے دلائل مل جائیں گے ، میں فی الوقت ان دلائل کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ دلائل کی بنیاد پر موجود یہ خلیج اتنی گہری ہوچکی ہے کہ اب شائد ہی اس خلیج کو پاٹا جا سکے۔

میں اِس تازہ ترین حملے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے رد عمل پر حیران ہوں۔ عمران خان، سید منور حسن اور دائیں بازو کے دوسرے رہنماؤں کے بیانات تو متوقع تھے۔ سنی اتحاد کونسل اور وحدت المسلمین کی طرف سے خاموشی معنی خیز تو ہے ہی، مگر متوقع بھی تھی۔

زیادہ حیرانی مسلم لیگ نواز کی طرف سے دیئے گئے بیانات پہ ہوئی۔ یوں لگا کہ حکومت اب بھی اپنی ترجیحات کا تعین نہیں کر سکی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک طالبان پاکستان نے پاکستان میں کافی تباہی مچائی ہے/۔ ہزاروں، ہزاروں نہیں تو سینکڑوں بے گناہ شہریوں کو ہلاک کیا ہے۔ ان کی شقاوت قلبی کا مظاہرہ مغویوں کو ذبح کرنے کی وڈیوز کے سامنے آنے سے بھی ہوا۔

ایک زمانے میں یہ گروہ ملک کی سلامتی کو درپیش واحد بڑا خطرہ تھا اور “ہماری جنگ” کا واحد ٹارگٹ بھی ۔۔ اب ایسا کیا ہوگیا کہ اپنے ہی دشمن کے لئے ایسے  بیانات دیئے جا رہے ہیں کہ یوں لگتا ہے تحریک طالبان کے سربراہ پہ نہیں، اسلام آباد میں ایوان صدر پر ڈرون حملہ ہوا ہے۔

آج وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی طرف سے کی گئی پریس کانفرنس کے کچھ اقتباسات کو پڑھنے کا موقع ملا تو جانے کیوں ایسا محسوس ہوا کہ ہمارے طاقتور وزیر داخلہ تحریک طالبان کو اپنی صفائی دے رہے ہوں کہ یہ کام ہم نے نہیں کیا، ہم تو امن کے لئے سنجیدہ تھے درمیان میں ظالم سماج آ گیا اور دو چاہنے والے دل یک جا نہ ہو سکے۔

کیا یہ معذرت خواہانہ رویہ صرف اس لئے اختیار کیا گیا کہ تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے کسی متوقع سخت رد عمل سے بچا جا سکے؟ ایک طرف خیبر پختونخوا میں سیکورٹی کے اقدامات سخت کر دیئے گئے ہیں، ڈیرہ اسماعیل خان میں شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ بغیر شناختی کارڈ کے باہر نہ نکلیں اور آمدو رفت ک مسے کم کر دیں اور دوسری جانب وزیر داخلہ کی طرف سے ایسی معذرت خواہانہ پریس کانفرنس۔۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ حکومت کی ترجیحات کیا ہیں۔

مجھے نہ جانے کیوں ایسا لگا کہ چوہدری نثآر کی یہ کانفرنس ایک طرح کا واویلا قبل از مرگ تھا۔

واویلا قبل از مرگ؟

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں