Skip to content

نوح علیہ السلام کی عمر کا قضیہ

حضرت نوح علیہ السلام ایک جلیل القدر پیغمبر تھے۔ ان کی بد قسمت قوم ساڑھے نو سو برس تک ان کی اپنے درمیان موجودگی کاخاطر خواہ فائدہ نہ اٹھا سکی۔
نوح علیہ السلام کی جدوجہد کی جھلکیاں قرآن مجید میں مختلف مقامات پہ ہمیں ملتی ہیں۔ اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نیکی کی طرف بلانے کے لئے ان کو جس استقامت کا مظاہرہ کرنا پڑا تھا، وہ ان تمام شخصیت کا خاصہ تھا جن کو اللہ تبارک و تعالی نے اپنے نبی کی حیثیت سے چُنا تھا۔
گزشتہ دنوں محمد علی مکی صاحب کے بلاگ پرنوح علیہ السلام کی عمر کے بارے میں محترمہ عنیقہ ناز صاحبہ کا یہ تبصرہ پڑھنے کو ملا

یا نوح علی السلام کی عمر کے بارے میں قرآن میں کوءئ تذکرہ ہے. مجھے یقین ہے کہ نہیں ہے. آج تک اس حوالے سے میں نے قرآن کی کوئ آیت نہیں پڑھی. البتہ احادیث ضرور لوگ کہیں سے نکال کر لے آئیں گے. انکی حیثیت پہ مجھے تو شبہ رہتا ہے.

اور مجھے چنداں حیرت نہ ہوئی۔ دین سے بیزاری تو آج کل ہم بزعم خود پڑھے لکھے لوگوں کا خاصہ ہے۔
میں یہاں کسی پر کفر و ایمان کا لیبل چسپاں نہیں کرنے آیا مگر آپ خود اندازہ لگا لیں، کوئی قرآن نہ پڑھتا ہو، حدیث کی صحت پر شک کرتا ہو اور اپنے آپ کو بہتر مسلمان تصور کرتا ہو۔ کیسے ممکن ہے؟
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اب اگر بغض یزید میں قرآن کی اس آیت کا یہ کہہ کر بھی انکار کر دیا جائے کہ یہ اسرائیلیات میں سے لیا گیا ایک قصہ ہے جو کہ، میرے منہ میں خاک، قرآن کے مصنف نے اس میں قصے سے متأثر ہو کر شامل کیا ہے تو پھر سر ہی پیٹا جا سکتا ہے۔

تھیم کی ترتیبات کی وجہ سے یہ تصویر شائد مکمل نیہ دیکھی جا سکے مگر یہ سورہ عنکبوت کی آیت نمبر ۱۴ ہے۔
[nggallery id=4]

27 thoughts on “نوح علیہ السلام کی عمر کا قضیہ”

  1. ڈاکٹر صاحب اللہ پاک سبکو محفوظ رکھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قفل پڑجانے کا مطلب تو پتہ ہی ہوگا آپکو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بار پھر رب کریم سے دعا ہے کہ وہ سبکو محفوظ رکھے آمین

  2. منیر بھای، تصویر کا سائز اگر آپ چھوٹا کر دیں اور ایسے کر دیں کہ جو مکمل دیکھنا چاہے اس پر کلک کر کے پوری تصویر دیکھ لے تو بلاگ کی ترتیب پر بھی اثر نہیں ہو گا۔

    میں تو یہ بات اکثر جگہوں پر کہی ہے کہ اگر آپ نے کسی دنیاوی موضوع پر پی ایچ ڈی کر لی ہے تو اس سے آپکو دینی معملات میں علامہ بننے کا سرٹیفیکیٹ نہیں ملتا ۔ لیکن پاکستان میں شرح خواندگی کی کمی کی وجہ سے جو چند پڑھ لکھ جاتے ہیں وہ اپنے آپکو اندھوں میں کانا راجہ سمجھ کر ہر جگہ منہ ماری کرتے ہیں ۔

    صاف سی بات ہے کہ اگر آپکو کسی چیز کا پختہ علم نہیں ہے اور اپکا ایمان کچا ہے تو خاموشی اختیار کریں ۔ لیکن کیا کریں عادت سے مجبور ہیں ۔ آپ نے جو یہ پکڑ کی ہے اس سے آخری جملے مین احادیث کی صحت پر شبے والی کہانی کا بھی راز کھل گیا ۔

    عربی کا ایک مقولہ ہے جسکا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے کہ انسان جس چیز سے جاہل ہوتا ہے اسکا دشمن ہوتا ہے ، بس یہاں بھی کچھ اسی طرح کی کہانی نظر آرہی ہے ۔

  3. آپ کی یہ پوسٹ بغض عنیقہ ناز کی نئی قسط ہے۔
    بھول چوک بڑی بات نہیں ، عنیقہ ناز مذکورہ آیت بھول گئی ہوں گی۔ ہر بندے کو قرآن ازبر یاد نہیں۔ تاہم آپ کی منافقت یہاں سے واضح ہے کہ آپ مکی صاحب کی پوسٹ اور تبصروں سے صرف نظر کر گئے۔ مکی صاحب کو اس آیت کا علم ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس آیت کی صحت کور رد کررہے ہیں۔ بلکہ یہی نہیں ، وہ قرآن کی دیگر آیات کے بھی منکر ہیں۔
    مذکورہ آیت کے دفاع اور مکی صاحب کے اعتراض کی رد میں میرا تبصرہ وہاں موجود ہے۔
    اگلی دفعہ چول مارے سے قبل انصاف سے کام لیجئے گا۔

    1. آپ کا یہ تبصرہ حمایت عنیقہ نباز کی مثٓال ہے۔ آپ یہاں بھی چول مارنے سے باز نہیں آئے۔ میرے مراسلے کی آخری چند سطور ریکھ لیجئے گا۔ جس جس نے مکی صاحب کی وہ پوسٹ دیکھی ہے، وہ بخوبی واقف ہوگا ان چند جملوں کی سیاق و سباق سے۔

  4. گونگلؤں سے مٹی جھاڑنے والے آپ کے اڑھائی جملے پڑھ چکا ہوں۔ لیکن آپ کی رگ منافقت کس بات پر پھڑکی ہے، وہ بالکل واضح ہے!

  5. مجھے بھی آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ بعض خواتین و حضرات اتنے یقین کے ساتھ کیوں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ فلاں چیز قرآن میں نہیں ہے یا اسلام میں تو ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی.
    شاید انہیں یہ یقین ہے کہ یہ سب کچھ جانتے ہیں…

  6. مکی صاحب کی دماغی صحٹ مشکوک ہے۔
    لیکن بغض معاویہ یا بغض مسلمانی میں علمی دریاوء بھونکنے سے پہلے کچھ دیر رک کر سوچ کیوں نہیں لیتے۔
    ایک کم پڑھے لکھے بندے بھی کو اس آیت کا علم ہے۔
    ایک طرف دعوی علمیت ہے اور دوسری طرف بغض مسلمانی میں ہڈی پہ نظر پڑی نہیں اور بھونکنا شروع کردیا

    1. یاسر آپ کو علم ہو گا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ہمیں احتیاط کرنی ہوگی۔ بہت سی باتیں ہیں، سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا، مگر قرآن پہ اعتراض؟ نا ممکن۔ اس پہ کوئی سمجھوتہ نہیں۔

  7. DuFFeR - ڈفر

    آجکل ماسی بشیراں سے پا مقبول تک ہر کوئی مفتی بنا پھرتا ہے۔ چوتھا کلمہ سن لو تو ٹوھڑی سینے میں موریان کرنے لگتی ہے
    جسٹ چِل مین

  8. ڈاکٹر صاحب !
    اگر ہوسکے تو فیڈ برنر پر اکاونٹ بنا لیں اور ای میل کے ذريعے سبسکرپشن کا اختیار اپنے سائیڈ بار میں ڈال دیں تاکہ لوگوں کو آپکی نئی پوسٹ کے بارے آسانی سے معلوم ہو سکے .

  9. سورت 29 ۔ العنکبوت ۔ آيت 14 کا مين نے ٹيکسٹ ميں ترجمہ لکھ ديا ہے ۔ جس قاری کو اس پر کئی شک ہو اگر اس کے پاس با ترجمہ قرآن شريف ہے تو اسے کھول کر تصديق کر لے ۔ اگر گھر ميں نہيں ہے گھر کی قريبی مسجد ميں جا کر ديکھ لے

    اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس برس کم ہزار برس رہے پھر ان کو طوفان (کے عذاب) نے آپکڑا اور وہ ظالم تھے
    We (once) sent Noah to his people, and he tarried among them a thousand years less fifty: but the Deluge overwhelmed them while they (persisted in) sin.

    ميں ان نام نہاد پڑھے لکھے خواتين و حضرات کو کئی بار مشورہ دے چکا ہوں کہ جس موضوع پر بات کريں پہلے مطالعہ کر ليا کريں مگر ايسے مشورہ کے جواب ميں مجھے مطالعہ کی ہدائت دی جاتی ہے ‏

  10. محترم منیر عباسی صاحب!

    محمد علی مکی نے کسی بات کو چھپایا نہیں۔ بلکہ جو سوچا وہ کہہ ڈالا۔ اور ایسے لوگ اپنی عقل کے آخری گھوڑے کو دوڑانے کے بعد باآخر وہیں پہ رکتے ہیں جہاں سے خدا کو کھوجنے کا آغاز کرتے ہیں مگر اس بار وہ خدا پہ اور جس مذھب سے انکا تعلق ہو اس پہ نہائت شدت سے ایمان لے آتے ہیں۔

    یا پھر ان میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی افتاد طبع کے ہاتھوں بدستور عمر کا ایک حصہ اسی نفسیاتی ایپچ میں کاٹ کر آخری عمر میں سورۃ الفاتحہ مکمل سیکھنے کے کے لئیے کسی مولوی کامل عالم سے رجوع کرتے ہیں۔

    ہر دو صورتوں میں جب اسطرح کوئی اپنا آپ ننگا کر دے یعنی وہ ہر اس حد سے گزر جائے جس سے پار ہونے کے تصور سے ہی ایک مسلمان کے رونگھٹے کھڑے ہوجائیں تو سوچ لیں کہ انہوں نے اپنے لئیے جو رستہ منتخب کیا یے وہ عقل کل کی بنیاد پہ ایسا رستہ چننے والا پہلا انسان نہیں۔

    تاریخ ایسی ہزاروں مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جنہوں نے عقل کل کو ایمان کا معیار سمجھا اور گمراہی کے اندھیروں میں گم ہو گئے۔ مگر ایمان والوں کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ کیونکہ ایمان بغیر دلیل کے ہوتا ہے اور عقل سے دلیل ماننے والے اپنے زعم میں اپنے آپ غلطاں و پیچاں رہتے ہیں۔

    قرآن کریم سے ہر کوئی اپنے ظرف کے مطابق استفادہ کرتا ہے۔ جس کا جتنا ظرف زیادہ ہے وہ اتنا ہی اس سے استفادہ کر لیتا ہے اور جو کم ظرف ہیں۔ وہ اس پہ ایں آں دیگر است سے ہچر مچر اور افلاظونیاں بگھارتے ہوئے خالی دامن رہ جاتے ہیں۔

    قرآن کریم نہ تو تاریخی کتاب ہے اور نہ ہی اس میں سائنسی یا عقلی فامولے، استعملات اور سائنسی اسرار ر رموز کی کتاب ہے۔ یہ کلام اللہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے کل عالم انسانیت کی فلاح کے لئیے نازل کیا ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ یہ ہدایت کے زمرے میں ان قوموں کا بھی زکر کرتی ہے جو اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے نابود ہوگئیں تانکہ ہم مسلمان عبرت پکڑیں اور ان جیسے اعمال اپنانے سے باز رہیں۔ اب اس بات کو کوئی تاریخی حوالے منتے ہوئے اسے جھٹلانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ اس کی عقل ناقس کا قصور ہے کیونکہ قرآن کریم اگر تاریخی کتاب ہوتی یعنی صرف علم تاریخ کی کتاب ہوتی اور خدا نخواستہ یہ کلام اللہ نہ ہوتا اور کسی انسان یا ادارے نے چھاپی ہوتی تو اسمیں علم تاریخ کے سبھی تقاضوں کے عیں مطابق تاریخ پہ بات چیت ہوتی اور اسمیں یہی معاملہ سائنس و حکمت کے ساتھ ہے۔ جس کے حوالے بھی مسلمانوں کو انکی بھلائی کے لئیے دیے گیئے ہیں ۔ اسلئیے قرآن کریم کو سائینس سے یا سائنس سے قرآن کریم سے سائنس کو ثابت کرنا میری رائے میں درست نہیں اور اس سے اجتناب برتنا چاہئیے اور جو لوگ اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے یوں کرنے پہ مصر ہیں یا تو وہ گمراہ ہیں یا پھر وہ گمراہی کے ساتھ ساتھ کسی مخصوص ایجنڈے پہ کام کر رہیں۔

    محمد علی مکی ایمان اسلام کو پاتے ہیں یا نہیں یہ وقت بتائے گا مگر کم از کم اس شخص نے اپنی تحریروں سے یہ واضح کر دیا کہ وہ اپنی ذاتی عقل کو ہی ہر شئے کا معیار و پیمانہ سمجھتا ہے خواہ وہ اس سے گمراہی کے اندھیروں میں ہی کیوں نہ گم ہوجائے۔ اسلئیے ایسا شخص کسی کے ایمان اور دین کے لئیے خطرہ نہیں ہوتا بلکہ صاحب ایمان و اسلام اس کی حالت پہ ترس کھاتے ہیں اور راہ ہدایت کی دعا مانگتے ہیں۔ اور انشاء اللہ وہ ایمان اسلام پہ نہ صرف یقن لائے گا بلکہ کوئی عجب نہیں اسلام کا داعی ہو۔

    مگر جو عبداللہ بن ابی بریگیڈ کے گندے انڈے جو ہر سو ہر جگہ منافقت کا گند پھیلائے ہوئے ہیں۔ جو منہ مومناں اور کرتوت کافراں ہیں۔ انکا محاسبہ پاکستان ، میڈیا، اور انٹرنیٹ وغیرہ پہ ہوتے رہنا ضروری ہے کہ یہ مکاری اور چاپلوسی سے اپنی منافقت کو جسے یہ اپنی روائتی بزدلی کی وجہ سے اعلانیہ کہنے سے ڈرتے ہیں اسے عام اور کم علم افراد کو قسم قسم کی ہمدردیوں کے جھانسے میں پھیلاتے ہیں۔

    اسلئیے کافر سے ذیادہ منافق کو بدتر اور زیادہ قابل سزا قرار دیا گیا ہے کہ کافر جو سمجھتا سوچتا ہے وہ برملا کہتا ہے جبکہ منافقین درپردہ مسلمانوں سے غداری کرتے ہیں۔

    جہاں تک حضرت نوح علیۃ والسلام کی عمر ساڑھے نو سال کے بارے یہ عقل کے خیالی گھوڑے دوڑاتے ہیں تو ان عقل کے اندھوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ اگر ہاتھی کی عمر دوسو سال اور کچھوؤن کی عمر تین سو سال آج کے دور میں بھی ہوتی ہے تو یہ نشانی ہے ۔ ثبوت ہے کہ جسطرح خیال کیا جاتا ہے کسی دور میں اس دنیا میں عظیم الجثہ ڈائنو سار پائے جاتے تھے اور انکی عمریں بہت لمبی تھیں تو کیا کسی کو شک ہے کہ حضرت نوح علیۃ والسلام کا دور اور طوفان اس سے بھی قدیم ہو گزرا ہو اور تبے انسانوں کی عمریں بھی طویل ہوتی ہوں۔ یا تب سورج کے گرد زمین کے چکر کا جسے ہم سال مانتے ہیں وہ دورانیہ مختصر وقت کا ہوتا ہو ۔ یا کیا عجب کہ سورج بتدریج گرم ہوا ہو اور سیارے خدا کی حکمت سے دور ہوتے چلے گئے ہوں اور انکا دورانے کا وقت بڑھ گیا ہو۔ اللہ تعالٰی کو ہر بات اور عمل کی قدرت ہے۔ جبکہ سائنس بار بار اپنے ہی تخلیق کردہ نظریات اور قوانین کو متواتر مسترد کرتی رہی ہے اور خدا جانے کیب تک کرتی رہے گی اور یوں عقل انسانی کو کسوٹی ماننے والے گمراہ ہوتے رہے گے۔

    کیونکہ جیسے پہلے عرض کیا ہے کہ قرآن کریم علم تاریخ کی کتاب نہیں یہ کلام اللہ ہے اسلئیے اللہ تعالٰی کی شان کو منظور نہیں کہ وہ ہر پیغمبر کے اداوار کو سالوں میں بیان کریں کہ کونسے سن یا دور میں کسی پیغمبر علیۃ والسلام کو بیجھا اللہ کی شان ہے کہ اس نے اپنے کلام کے ذریئے ھدایت کی مد میں محض ضمنا اس میں کچھ دور گنوا دئیے ہیں۔

  11. میرا خیال هے که محاوره بغض معاویه هے، بغض یزید نهیں. شائد آپ کو یونهی یزید کی یاد آ گئ هو گی.

  12. محمد سعید پالن پوری

    قرآن پرجو اعتراضات کئے جارہے ہیں وہ اس وقت صحیح ہوتے جب یہ مان لیا گیا ہوتا کہ پہلے لوگوں کی کتابوں میں آنے والے سارے کے سارے مضامین جھوٹے ہیں ۔ایسے میں کسی مضمون میں قرآن کے گذشتہ کتابوں سے میل کھانے کی صورت میں کہا جا سکتا تھا کہ یہ مضمون چونکہ فلاں کتاب قدیم میں آچکا ہے اور کتب قدیمہ ساری کی ساری جھوٹی ہیں۔ پس اس مضمون کے قرآن میں آنے کی وجہ سے قرآن بھی جھوٹا ہوا۔ حالانکہ یہ مانا ہی نہیں گیا ہے۔ مانا یہ گیا ہے کہ کتب ماضیہ ساری کی ساری جھوٹی نہیں ہیں ان میں کچھ جھوٹ در آیا ہے اور چونکہ یہ معلوم نہیں ہے کہ کونسا مضمون صحیح ہے اور کونسا غلط۔ اس لئے حضور ﷺکی جانب سے ہدایت ملی کہ (عام حالات میں) کتب ماضیہ کی نہ تصدیق کرو نہ تکذیب۔
    چونکہ قرآن کتب ماضیہ کی تصدیق بھی کرتا ہے ایسے میں اگر کوئی مضمون کتب ماضیہ کا قرآن کے بیان کردہ مضمون سے میل کھاجائے(جیسےعمر نوح بارے تورات کا
    مضمون قرآن کے مضمون سے میل کھارہا ہے)تو اس مضمون کی تصدیق ہی کی جائے گی نہ کہ اس مضمون کی وجہ سے قرآن کی تکذیب کہ تورات جھوٹی کتاب ہے اسکا مضمون لانے کی وجہ سے قرآن بھی جھوٹا ہوگیا ۔ جیسا کہ علی صاحب کی پوسٹ پڑھ مجھے لگا کہ وہ ایسا ہی کہنا چاہ رہے ہیں۔
    مختصربات یہ کہ قرآن کو کسوٹی بنایا جائے گا اور دنیا بھر کی کتابوں میں مذکور صحیح اور غلط افسانے اسکی سان پر رکھے جائیں گے ۔جو مضمون قرآن سے میل
    کھائے گا اسکی تصدیق کیجائے گی چاہے وہ گذشتہ قوموں کی کتابوں میں آیا ہو۔اسکے بارے میں یہ سمجھا جائے گا کہ اس میں کتر بیونت سے کام نہیں لیا گیا ۔ اور جو مضمون قرآن کے مضمون سے ٹکرائے گااسکو رد کر دیا جائے گاکہ بالیقین اس میں کتر بیونت کام لیا گیا ہے۔ اور جن مضامین پر قرآن خاموش ہوگا ان پر خاموشی ہی اختیار کی جائے گی۔ نہ تصدیق ہوگی نہ تکذیب

  13. یعنی کہ اگر قرآن کی آیت نہیں پڑھی تو وہ قرآن میں بھی نہیں ہے، بعد میں شرم سے پانی پانی ہونے کے بجائے مزید ڈھٹائی سے کہتے پھریں گے کہ جناب میرا مطلب تو کچھ اور تھا۔ شرم انکو مگر نہیں آتی۔۔۔

  14. ميری مندرجہ ذيل تحرير پر ايک پی ايچ ڈی کيمسٹری کا تبصرہ پڑھ کر ديکھيئے اُسے کيمسٹری کا کتنا علم ہے اور تاريخ کا بھی کتنا علم ہے
    کيا اللہ کا کلام جھُٹلايا جا سکتا ہے ؟ نعوذ باللہ من ذالک
    ممی بنانے کے طریقے میں نمک استعمال کیا جاتا ہے۔ جسم پہ خوب اچھی طرح نمک ملا جاتا ہے۔ اس لئے نمک کا ممی میں موجود ہونا کوئ حیران کن بات نہیں۔ میرا خیال ہے اس تحقیقداں نے کچھ اور ثبوت دئیے ہونگے

  15. یاسرخوامخواہ جاپانی: مرض کا تعین تو کردیا آپ نے اب علاج کبھی تجویز فرمائیں 🙂

    انکل ٹام: آپ کا مقولہ کچھ یوں ہے: الناس اعداء ما یجہلون

  16. اول تو قرآن کریم کے بارے میں بات کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا چاہیے کہ یہ بائیولوجی، کیمسٹری یا کیلکولس کی کتاب نہیں۔ یہ اللہ کا مبارک کلام ہے جس میں کی جانے والی باتوں کو جھٹلانہ یا انہیں اپنی خواہش کے مطابق ڈھالنا آسان نہیں۔

    اور اگر کوتاہی میں کسی نے اس بارے میں اپنی یادداشت کے مطابق غلط اظہار خیال کر ہی دیا ہے تو معذرت کی جاسکتی ہے۔ اس میں ہی بڑا پن ہے کہ انسان اپنی غلطیوں کا اعتراف کرے۔

  17. مجھ ےعلم ہوا کہ اس تحریر کے بارے میں عنیقہ ناز صاحبہ نے تبصرہ وہیں کیا ہے ، یعنی مکی صاحب کے بلاگ پر۔
    http://makki.urducoder.com/?p=2475&cpage=1#comment-2899
    مندرجہ بالا ربط انھی کے تبصرے کا ہے۔ خود مطالعہ کر لیجئے۔
    مسئلہ یہ نہیں کہ کون معصوم ہے۔ غلطی ہر ایک سے ہو سکتی ہے۔

    مگر غلطی کر کے اس پر ڈھٹائی سے جمے رہنا اور بڑی غلطی ہے۔ میں عنیقہ ناز صاحبہ کی توہین کر کے کچھ حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ خالصتا دینی و اخروی معاملہ ہے۔ میری ان سے درخواست ہے کہ محض اپنی انا کی خاطر اس غلطی پر اب جان بوجھ کر نہ جمی رہیں۔ اس سے انھی کو نقصان ہوگا۔

  18. آخر کار مجھے بلھے شاہ کے اس مصرعے کی سمجھ آہی گئی کہ
    علموں بس کریں او یار
    اب پتہ چلا کہ انہوں نے کس علم کی بات کی تھی۔۔ مرشد یا تو آپ کی بین الیکٹرانک ہے، یا آپ کے پھیپھڑے بڑے طاقتور ہیں، جو آپ لگاتار بین بجاتے چلے جارہے ہیں، بھینس کے سامنے

  19. عثمان کی مکی کی تازہ ترین تحریر پر بحث قابل مطالعہ ہے۔۔۔ اچھی کوشش کی ہے انہوں نے مکی کو سمجھانے کی۔۔۔ لیکن یہاں آ کر اس کے بلکل برعکس جس طرح عنیقہ کی غلطی کی پردہ پوشی کرنے کی درخواست کر رہے ہیں۔۔۔ یہی بات مجھے حیران بھی کرتی ہے۔۔۔

    مجھے قرآن کے ہر حرف پر کامل یقین ہے الحمدللہ اور اس بات پر بھی کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حرف کے پیچھے کوءی نا کوءی حکمت رکھی ہے۔۔۔ کچھ حکمتیں عیاں کر دیں۔۔۔ اور کچھ پوشیدہ رکھیں۔۔۔ حضرت نوح علیہ السلام سمیت باقی انبیاٴ کی عمریں کیا ہیں، بلند قامت قد کے جوان کس قوم میں تھے، ان کے قد کیا تھے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اگر قرآن نے ان باتوں کی زیادہ وضاحت نہیں کی تو بے شک اس کے پیچھے بھی اللہ تبارک تعالٰی کی کوءی نا کوءی حکمت ہوگی۔۔۔ جب اللہ قرآن میں مکھی کے پر کے بارے میں ارشاد فرما سکتا ہے، تو اس کے پیچھے بھی حکمت ہے۔۔۔
    مکی صاحب سے کچھ عام سے سوالات اپنی عقل کے مطابق پوچھے۔۔۔ پتا نہیں، جواب کیوں نہیں دے رہے۔۔۔ یا تو انہیں میرے سوالات اتنے اہم نہیں لگے۔۔۔ یا پھر وہ جواب دینے میں کسی کنفیوزن کا شکار ہیں۔۔۔

  20. یہ تحریر آج کے سنڈے میگزین میں پڑھی ۔

    http://76.12.127.225/jang_mag/detail_article.asp?id=12945

  21. مکی صاحب کھسک گءے ہیں، انکا علاج یہ ہے کہ انہیں نظر انداز کردیں۔

    عنقیہ ناز اور مکی صاحب میں بہت فرق ہے، مکی صاحب قرآن پر رد کر کے کفر کی سرحد پر پہنچ چکے ہیں، دعا ہے کہ اللہ انہیں جلد ہدایت اور اس راستے سے واپس پھر دے جس پر وہ چل پڑے ہیں البتہ عنیقہ صاحبہ اپنی تحاریر سے روشن خیال انتہا پسندی کی دھند میں پھنسی ہوئی ضرور معلوم وتی ہیں لیکن فلحال سرحد کے اس طرف ہی ہیں۔

    1. ڈاکٹر جواد صاحب۔ معذرت کہ آپ کو زحمت ہوئی، مگر فیڈ کا یہ مسئلہ میرے ساتھ ہمیشہ سے ہی رہا ہے۔ ابھی پیڈ ہوسٹنگ پہ بھی آ رہا ہے۔ کیا آپ مجھے اور تفصیلات سے آگاہ کریں گے؟ ہو سکتا ہے میں کوئی حل ڈھونڈنے میں کامیاب ہو ہی جاؤں۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں