Skip to content

نا مکمل مقدمہ اردو

میں نامور کالم نگار اور نقاد مرحوم مشفق خواجہ جو کہ خامہ بگوش کے قلمی نام سے لکھتے تھے اور جانے بھی جاتے تھے، کے بارے میں کچھ معلومات تلاش کر رہا تھا کہ میں اس لنک پر جا پہنچا۔

لنک پر موجود مضامین پڑھتے پڑھتے میں سید سردار احمد پیرزادہ کے لکھے گئے مضمون تک جا پہنچا جس کا عنوان تھا ، “اردو کے لیے اب فارسی اہم ہے یا سندھی ، بلوچی ، پشتو اور پنجابی“۔ میں آپ کی آسانی کے لئے پورے مضمون کو یہاں نقل کر رہا ہوں۔

کچھ دلائل ایسے ہیں جن سے میں جزوی طور پر متفق ہوں اور میں نے بارہا ان کا ذکر بھی کیا ہے۔ آگر آپ نے میری تحریر اجالے کے بعد اور  بلال محمود کی تحریر, اردو کے نام پریاروں کو روتی پھتو پر میرا تبصرہ پڑھا ہے تو آپ بخوبی جان جائیں گے کہ میرا مؤقف کیا ہے۔

بہر حال پیرزادہ صاحب کا مضمون اس جملے کے بعد سے شروع ہو رہا ہے۔  بسم اللہ کیجئے۔

ایک رائے کے مطابق اردو زبان کی پیدائش میں عربی، فارسی اور ترکی زبانوں کا اہم حصہ ہے۔ اُن دنوں جب حملہ آور ہندوستان میں آتے تھے تو اُن کے لشکروں میں عربی، فارسی اور ترکی زبان بولنے والے سپاہی شامل ہوتے تھے۔ اُن کے میل جول نے ایک نئی زبان کو جنم دیا تاکہ مختلف نسلوں کے لوگوں کا آپس میں ابلاغ آسان ہو سکے۔ یہ عمل خود بخود فطری انداز سے چلتا رہا اور نئی زبان یعنی اردو کی شکل آہستہ آہستہ واضح ہوتی گئی۔ اردو زبان کو لشکریوں کی زبان بھی کہتے ہیں لیکن ان حملہ آور لشکروں کے سربراہ عموماََ فارسی بولتے تھے جس کے باعث لمبے عرصے تک ہندوستان کے حکمرانوں کی زبان فارسی ہی رہی۔ اسی لئے فارسی ایلیٹ کی زبان تصور کی جاتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے حالات بدلے اور حکمران بھی بدل گئے۔ پھر انگریز کا دور آیا۔ اس حملہ آور نسل کے لشکریوں میں نہ تو عربی، فارسی، ترکی کے سپاہی شامل تھے اور نہ ہی ان لشکروں کے سربراہوں کا فارسی سے کوئی تعلق تھا۔ فتح کئے جانے والے ملک میں عام لوگوں کے ساتھ کام کاج چلانے کے لئے انگریزوں کو کسی نہ کسی زبان کی ضرورت فطری تقاضا تھی۔ چونکہ انگریزوں نے اقتدار ایسے افراد سے چھینا تھا جو فارسی بولتے تھے

لہٰذا فاتحین کی فطرت کے مطابق انگریز شکست خوردہ ہندوستانی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ اُن کی زبان فارسی کو بھی شکست دینا چاہتے تھے۔ اس لئے انہوں نے ہندوستان میں سرکاری کام کاج چلانے کے لئے فارسی کو سرے سے ہی رد کر دیا لیکن دوسری طرف ہندوستان کے باشندوں کو اپنے نئے حکمرانوں کی زبان انگریزی نہیں آتی تھی۔ ہندوستان کی مقامی زبان سنسکرت جس کی آسان شکل ہندی ہے پورے ہندوستان میں نہ بولی جاتی تھی نہ سمجھی جاتی تھی اس لئے انگریزوں کو ہندی سے بھی زیادہ فائدے کی توقع نہ تھی۔ انگریزوں کی آمد تک اردو زبان اپنی شناخت قائم کر چکی تھی جو ہندوستان کی تقریباََ تمام بڑی زبانوں کے ساتھ تعلق داری رکھتی تھی۔ سادہ اور تمام علاقوں میں کسی حد تک سمجھی جانے والی زبان کے باعث انگریزوں نے اردو زبان کو اپنے استعمال میں رکھا اور کسی حد تک ترقی بھی دی۔ مثلاََ بلوچستان میں انگریزوں نے اردو زبان کو بہت سہارا دیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پاکستان بننے سے پہلے بھی خان آف قلات کی پارلیمنٹ میں سرکاری زبان اردو تھی۔ا سی طرح کشمیر میں انگریزوں کا بہت آنا جانا تھا، وہاں بھی اردو بہت پروان چڑھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انگریزوں کو اردو زبان سے محبت تھی بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ انگریز بہت ہی سمجھدار اور سائنٹفک حکمران تھے۔ اُن کے خیال میں اردو زبان کو ترقی دینے سے دو بڑے فائدے ملتے۔ ایک تو یہ کہ یہاں کے سابق حکمرانوں کی نشانی فارسی زبان سے چھٹکارا، دوسرا ہندوستان کی عام آبادی سے رابطے میں آسانی کیونکہ مقامی آبادی انگریزی بول چال سے ناواقف تھی۔

ہندوستان میں ایک نیا دور اُس وقت آیا جب انگریز چلے گئے اور ہندوستان اور پاکستان دو علیحدہ علیحدہ ملک بن گئے۔ انگریزوں کے تقریباََ ۱۰۰برس کے اقتدار میں انہیں اتنی کامیابی تو ضرور ہوئی کہ انہوں نے فارسی زبان کو دیس نکالا دے دیا۔ پاکستان بننے کے بعد اردو زبان کو قومی زبان بنانے کی بات کی گئی جس کے تین نتیجے سامنے آئے۔ پہلا یہ کہ کچھ حصوں میں اِسے قبول ہی نہیں کیا گیا اور اندر ہی اندر مزاحمت پکنے لگی جس کا نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں سامنے آیا۔ دوسرا یہ کہ اِسے کچھ حصوں میں قبول کر لیا گیا مگر اپنی اپنی مادری زبان کو نہیں چھوڑا گیا جن میں سندھ، سرحد اور بلوچستان کے علاقے شامل تھے۔ تیسرا یہ کہ اِسے کچھ حصوں میں دل و جان سے قبول کیا گیا اور اپنا سب کچھ بھول کر اِسے اپنا لیا گیا جس میں پیش پیش پنجاب تھا یا کراچی اور حیدرآباد جیسے وہ شہر جہاں آباد ہونے والے اکثریتی لوگوں کی مادری زبان اردو تھی۔ پاکستان کے بعد اردو کے لئے سب سے زیادہ قربان ہو جانے والا علاقہ پنجاب ہی تھا جہاں کے مکینوں نے اپنی مادری زبان کو اپنی نئی نسل تک نہیں پہنچایا اور اب صورتحال یہ ہے کہ جب ۲ سندھی ملتے ہیں تو سندھی بولتے ہیں، ۲پٹھان ملتے ہیں تو پشتو بولتے ہیں، ۲ بلوچ ملتے ہیں تو بلوچی بولتے ہیں لیکن ۲پنجابی ملتے ہیں تو اردو بولتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ پاکستان میں اردو کو اب تک قومی زبان کی حیثیت سے عملی طور پر نافذ نہیں کیا گیا لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ اردو زبان نے پاکستان میں اپنا دائرہ کار بڑھایا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اردو زبان کو پنجاب کے علاوہ بھی دوسرے صوبوں کے لوگوں نے دل و جان سے قبول کرنا شروع کر دیا ہے بلکہ اردو زبان رابطے کی زبان کا کام دے رہی ہے بالکل ویسے ہی جیسے انگریزوں نے اپنے مفتوحہ علاقوں میں لوگوں سے رابطے کے لئے اردو زبان کو استعمال کیا۔ اردو کا پاکستان میں رابطے کی زبان کی حیثیت سے آگے بڑھنا کسی فرد یا ادارے کا کمال نہیں بلکہ یہ ایک فطری عمل ہے۔ البتہ اس فطری عمل میں کچھ مشکلات ضرور پیدا کی جاتی ہیں جن میں سے ایک کا سامنا اس وقت ہوتا ہے جب کوئی سکالر کسی دوسری زبان کی تحریر کو اردو زبان میں ترجمہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو عموماََ دیکھا گیا ہے کہ ترجمے کے لئے صرف فارسی الفاظ کو ہی تلاش کیا جاتا ہے اور اِس کی دلیل میں کہا جاتا ہے کہ اردو زبان کی اساس فارسی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اردو زبان کی اساس عربی اور ترکی زبانیں بھی تھیں تو اُن میں سے ترجمے کے لئے الفاظ تلاش کیوں نہیں کئے جاتے؟ اس کا جواب بالکل سیدھا سیدھا یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اب ہمارے ہاں ترکی زبان کو بولنے اور سمجھنے کا رواج بالکل ختم ہو چکا ہے جبکہ عربی زبان سے بھی ہمارا تعلق صرف مذہبی کتابوں تک ہی رہ گیا ہے۔ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ فارسی زبان بھی ہمارے ملک کے بہت ہی کم حصے میں سمجھی جاتی ہے تو پھر ترجمہ کرتے ہوئے فارسی کے الفاظ کا ہی چناؤ کیوں کیا جاتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اردو زبان میں ہونے والا ترجمہ عام لوگوں کی سمجھ سے باہر ہوتا ہے اور تمسخر کا نشانہ بنتا ہے۔ ہماری روزمرہ زندگی میں انگریزی زبان کے الفاظ زیادہ شامل ہو رہے ہیں کیونکہ انگریزی زبان پوری دنیا سمیت ہمارے ملک میں بھی سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ یہاں انگریزی کی حمایت اور فارسی کی مخالفت کرنا مقصود نہیں بلکہ حقیقت کو تسلیم کرنے کی بات ہے۔

ایک زمانہ تھا جب ہم قومی زبان کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے فرانسیسیوں، جاپانیوں اور چینیوں کی مثال دیتے تھے کہ انہوں نے انگریزی کو دفع کر کے اپنی زبانوں کو ترجیح دی لیکن اب سٹڈی کریں تو پتہ چلتا ہے کہ انگریزی زبان فرانسیسیوں اور جاپانیوں سمیت چینیوں کے لئے بھی بہت اہم ہوتی جا رہی ہے جس کی مثال یہ ہے کہ یورپ یا امریکہ جانے والے چینی ورکر انگریزی زبان سیکھنے کے لئے ٹیوشن رکھتے ہیں اور ان کے ٹیوٹر زیادہ تر پاکستانی ہوتے ہیں۔ ایک اور دلچسپ ڈیٹا ملاحظہ ہو کہ چینی اتنی بڑی تعداد میں انگریزی سیکھ رہے ہیں کہ مستقبل میں جس قوم میں سب سے زیادہ انگریزی بولنے والے لوگ ہوں گے وہ چینی ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عقلمند لوگوں نے اپنی مادری زبان کے ساتھ ساتھ وقت کی زبان کو بھی اپنا لیا ہے۔ اب ہم اپنی صورتحال پر غور کریں تو ہم نے ابھی تک اردو زبان میں ترجمہ کرنے کے لئے فارسی کی ضد نہیں چھوڑی بیشک اسے عام لوگوں میں قبول ہی نہ کیا جا رہا ہو۔ اگر ہمارے ترجمہ کرنے والے فارسی زبان کی بجائے پاکستان کی اپنی زبانوں یعنی پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو، کشمیری، سرائیکی اور دیگر زبانوں سے الفاظ تلاش کریں تو وہ الفاظ ہمارے لئے جانے پہچانے بھی ہوں گے اور قابل قبول بھی لیکن اس کے لئے ہٹ دھرمی کو چھوڑنا ضروری ہے۔

فارسی کا عَلم بلند کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ ہمارا تہذیبی اور ادبی ورثہ فارسی میں ہے مگر فارسی کے یہ علمبردار سندھی، بلوچی، پشتو اور پنجابی وغیرہ کے ہزاروں برس پرانے قیمتی تہذیبی ورثے کو کیوں بھول جاتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ فارسی حملہ آوروں کی زبان تھی، انہی کی تہذیب اور انہی کا ادب تھا۔ ہماری تہذیب اور ادب ہمارے اپنے علاقوں میں گم کر دیا گیا ہے جن میں سندھ، بلوچستان، پنجاب، خیبرپختونخوا، کشمیر اور سرائیکی وغیرہ کے علاقے شامل ہیں۔ تہذیب اور کلچر ہمیشہ اُسی علاقے کا ہوتا ہے جس کی مٹی سے وہ افراد جنم لیتے ہیں۔ پاکستان میں نئی نسل کے اندر فارسی زبان میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر فارسی پڑھنے والے طلباء بہت کم میسر ہیں۔

لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فارسی پاکستان کی نئی نسل کی زبان نہیں ہے۔ کیا ہم اس حقیقت کو بھی تسلیم نہیں کریں گے؟ اگر اردو میں پاکستانی زبانوں کے الفاظ شامل ہونے لگیں تو اِس میں سب کے لئے اپنائیت کا احساس ہوگا۔ اب ہمیں فیصلہ یہ کرنا ہے کہ اردو کے لئے فارسی اہم ہے یا سندھی، بلوچی، پشتواور پنجابی وغیرہ؟ ورنہ فیصلہ وقت کو کرنا پڑے گا۔

+_+_+_+_+_

 نا مکمل مقدمہ اردو

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں