Skip to content

میرے سٹیریو ٹائپ

ہم لوگ سٹیریو ٹائپس کے مطابق چلنے کے عادی ہیں۔ سٹیریو ٹائپ کو اس لغت
نے کچھ اس طرح اردو میں ترجمہ کیا ہے کہ :کسی گروہ کے عقائد و رویے جو متعین ہو چکے ہوں ۔ میں آس پاس نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے یوں نظر آتا ہے کہ ہم سب اپنے اپنے نظریات سے جڑے رہنے میں ہی عافیت و راحت محسوس کرتے ہیں۔ دور کیوں جائیے میں اپنی ذات کو جب دیکھتا ہوں تو میرے بہت سے ایسے خیالات ہیں جن کے مطابق دنیاوی امور کو برتنا میرے لئے زیادہ آسان ہے بنسبت حقائق کی روشنی میں ان خیالات کو بدلنا۔ یہ اصول شاٗئد ہر جگہ منطبق نہ ہو۔ اور کچھ استثنائی حالتیں بھی موجود ہیں جیسے کے مذہبی عقائد۔

یہ سٹریو ٹائپ ہماری زندگی میں ہر جگہ کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مثلا کسی علاقے میں رائج روایات سے معمولی سا اختلاف بھی انسان کو اپنوں سے قطع تعلق کی بے رحم صورت سے آشنا کر سکتا ہے۔ اور بعض اوقات یہ سٹیریو ٹائپ موجود ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آتے۔
جب میں نے اپنے ایک ہم جماعت سے برطانیہ میں پاکستانیوں یا دیگر ایشائیوں سے امتیازی سلوک بارے استفسار کیا تو انھوں نے بتایا کہ اگرچہ قانونی طور پر ایسے کسی عمل پر پابندی ہے جس سے نسل پرستی جھلکتی ہو مگر اَِٹس ان دی اٗیر۔ یعنی موجود ہوتے ہوئے بھی نا موجود ہے۔

وطن عزیز بھی ایسی اقوام کا ملغوبہ ہے جو اپنے اپنے سٹیریو ٹائپس سے جڑی کولہو کے بیل کی مانند ایک چکر میں اپنا سفر طے کر رہی ہیں۔ اور یہ سٹریو ٹائپس کسی ایک خاص قوم کے ساتھ مخصوص نہیں۔ ہر ایک قوم نے اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز کرنے کے لئے دوسروں کے بارے میں کچھ خیالات یا نظریات گھڑ لئے ہیں اور ان پر سختی سے کاربند بھی ہے۔ اپنی میراث پر فخر کوئی بری بات نہیں مگر جب یہ فخر ایک خاص حد سے بڑھ کر دوسروں سے نفرت یا ان کی تحقیر میں تبدیل ہو جائےتو بُری بات ہے۔ بلکہ قابل نفرین عمل بن جاتا ہے۔

علاقائی نسبت سے قطع نظر، انھی سٹریو ٹائپس میں سے کچھ مذہب سے متعلق ہیں۔ کچھ لوگ اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ وہ مذہبی احکامات کے لغوی معانی ہی کو اصل سمجھتے ہیں، اور غالبا یہی اصول خوارج کا تھا۔ اس فتنہ نے امت مسلمہ کو بہت نقصان پہنچایا۔ دوسری جانب وہ لوگ ہیں جو مذہبی احکامات کی تاویلات میں اس قدر آگے چلے گئے ہیں کہ دین کی اصل روح بگڑ چکی ہے۔ ہمارے آس پاس بہت سے ایسے لوگ ہمیں نظر آ جائیں گے جو دینی احکامات کی اپنی من مانی تاویل کر کے خوش بیٹھے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی مل جائیں گے جو دین کے انھی احکامات پہ ہی عمل کریں گے جو ان کو اچھے لگیں گے اور اگر بُرے لگیں تو کوئی نئی تاویل سامنے لے آئیں گے۔
لا مذہبیت میں بھی کچھ ایسے رجحانات سامنے نظر آتے ہیں۔ لا مذہب یا دہرئیے عام طور پر مذہب کے نام پر وقوع پذیر ہونے والے تاریخی واقعات کو بطور مثال پیش کر کے مذہب سے لوگوں کو متنفر کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔ موجودہ دور میں رچرڈ ڈاکنز ایسا ہی ایک دہریہ ہے جس کی کتاب دی گاڈ ڈیسیپشن کے کچھ صفحات پڑھنے کا موقع ملا۔

اس سلسلے میں کچھ لوگوں نے مذہب پر عمل پیرا لوگوں کی تضحیک کے لئے ایک اصطلاح مذہب پرست بھی ایجاد کر لی ہے۔ گویا مذہب پرست ہونا ایک جرم ٹھہرا۔
یہاں بات تفصیل سے کی جائے تو بہت بحث کی بہت سی نئی جہتیں کھل سکتی ہیں مگر میرا ارادہ قطعا اس طرف جانے کا نہیں ہے۔

ہم سب اپنے اپنے سٹیریو ٹائپس کے غلام ہیں۔ ہم مذہب پرست ہوں یا دہرئیے، ہم اپنی انا کی تسلی کی خاطر کسی دوسرے کی بات سننے کو تیار نہیں۔ ہم صرف اس لئے کسی کی بات نہیں سنیں گے کہ اس کی بات کچھ وزن رکھتی ہوگی۔ اور یہ رویہ علمی حلقوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ عام زندگی میں بھی ہم دوسر کی بات سمجھے بغیر اپنا رد عمل فوری طور پر پیش کر دیتے ہیں جس سے نفرتیں بڑھتی ہیں، گھٹتی نہیں۔
بات بات پہ فتوے، مرنے مارنے کی باتیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں تمام حدوں کو پار کرلینا، اس سے ایک ہی بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمیں اپنا سٹیریو ٹائپ حق بات کے مقابلے میں زیادہ عزیز ہے۔

میں بھی، جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کچھ سٹریو ٹائپس کے سحر میں بندھا ہوا ہوں۔ ان سے نجات
پانا میرے لئے ممکن نہیں، شائد کسی کے لئے بھی ممکن نہیں۔

فی الحال اردو پلگ ان موجود نہیں ہے، لہذا اردو میں تبصرہ ہر کس و ناکس کے لئے ممکن نہ ہوگا۔

7 thoughts on “میرے سٹیریو ٹائپ”

  1. بہت خوب محترم منیر عباسی صاحب!آپ نے اسٹریو ٹائپس پہ بہت عمدہ لکھا ہے۔
    تاہم کچھ حقیتیں اس دنیا میں ایسی بھی ہیں جو صدیوں سے تبدیلل نہیں ہوئیں اور محض اسٹریو ٹائپ نہ کہلوائے جانے کے شوق میں ایسی حقیقتوں کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ اور اور ان پہ عمل پیرا ہونا نہیں چھوڑا جاسکتا۔

  2. محترمی جاوید گوندل صاحب، آمد کا شکریہ۔ آپ نے جس بات کی طرف توجہ دلائی ہے وہ درست ہے اور اس کی طرف میں نے پہلے پیرا گراف کے اختتامی جملے میں اشارہ بھی کیا ہے۔

  3. محمد سعید پالن پوری

    پوسٹ کچھ کہنے کو تو چھوڑتی ہی نہیں بس چوم کے جارہے ہیں

  4. بلاگنگ میں واپسی مبارک
    اصل میں یہ سٹیریو ٹائپ وائپ کچھ نہیں ہے
    آپ کی رجعت پسندی اور دھماکہ خیالی ہے جو ایسی تحاریر کا محرک ہے

  5. بہت ہی عمدہ تشریح کری ہے ڈاکٹر صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واقعی ہم لوگ تو اپنی انا کی خاطر کسی کی بھی نہیں سنتے جس کا خمیازہ آخر میں اٹھانا ہی پڑے گا

  6. شکر ہے کہ آپ نظر آئے ۔ ميں آپ کا ای ميل پتہ اپنے پاس تلاش کرتا رہا مگر نہ مل سکا يا بہت پرانا تھا جس کے بعد آپ نے بدل ديا تھا ۔ ايک دو جگہ آپ کے تبصرے ديکھنے سے ڈھاس بندھی تھی کہ ڈاکرز کيلئے کام کرتے ہوئے آپ کو غائب کر نہ ديا گيا ہو ۔
    ميں نے ايسے کئی مواقع بھگتے ہوئے ہيں ۔ بس اللہ کی مہربانی رہی تھی کہ مجھے اندر نہ کيا جا سکا گو ايک بار بغير عدالتی حکم مجھے اُٹھانے کی 8 دن کوشش کی جاتی رہی تھی ۔ يہ 1973ء کا واقعہ ہے ۔ اس کے بعد بھی ريٹارمنٹ مانگنے تک بہت کچھ بھگتا

  7. محمد سعید پالن پوری صاحب: آمد کا شکریہ۔ بس حوصلہ افزائی چاہئے۔

    استاذی:: کوئی پروگرام وغیرہ نی کرنا خوش آمدید وغیرہ کا؟ سوکھے منہ ہی مبارکباد؟

    ضیا الحسن: جی اور یہ رویہ صرف مذہب اور لا دینیت تک ہی محدود نہیں، دفتروں میں بہت سے کام، سکولوں میں بہت سے طلبا کا مستقبل اور معاشرتی زندگی کے بہت سے مسائل انھی سٹیریو ٹائپس ہی کی وجہ سے موجود ہیں۔

    افتخار اجمل صاحب::بس کچھ سُستی اور کچھ دوسری وجوہات کی بنا پر بلاگ کی طرف توجہ نہ دے سکا۔ اس دوران فیس بک کافی منڈھ کے استعمال کی۔ البتی ڈاکٹرز کے لئے کام ابھی بھی جاری ہے۔ آپ کی دعائیں چاہئیں۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں