Skip to content

مکالمہ

“اچھا ہوا ہم وقت پہ نکل آئے، چار گھنٹے کا سفر ہے، دن کی روشنی میں ہی واپس پہنچ جائیں گے”.
“ہاں، ویسے بھی ہمارے کرنے کو اور کچھ تھا ہی نہیں”.
“ان لوگوں سے ملاقات اچھی رہی”.
“ہاں”.
“کیاکھانے کا یہ انتظام مدرسے کی جانب سے کیا گیا تھا؟”
“نہیں۔ اس کا انتظام طلبا ء چندہ کر کے کرتے ہیں”.
“مگر اتنے سینکڑوں کی تعداد میں طلبا ء اور پھر دستار بندی کی تقریب میں شرکت کے لئے آنےو الے مہمانوں کی خدمت طلبا ء کے لئے مہنگی پڑ جاتی ہو گی۔ مدرسہ کی طرف سے ضرور کوئی نہ کوئی انتظام تو ہوتا ہوگا”.
” ” شائد۔ مگر ہمارے وقت میں ایسا کوئی سلسلہ نہ تھا۔ سب کام سادگی سے سر انجام پاتے تھےبلکہ اس طرح کے کھانے کا تو رواج ہی نہ تھا”.
“اچھا!” .
” ہاں۔ دورہ کے اختتام پر سب فارغ ہونے والے طلبا ء کی دستار بندی خاموشی سے کی جاتی اور اس کے بعد وہ گھروں کو لوٹ جاتے”.
“کیا اِس مدرسے میں بھی ایسا ہوتا تھا؟”.
” یہ تو بہت بعد میں بنا ہے۔ پہلے تو دورہ حدیث خاص الخاص مدارس میں ہی ہوتا تھا۔ ایسا نہ ہوتا تھا کہ ہر گلی کوچے میں بننے والا مدرسہ دورہ حدیث کرا رہا ہو۔ مثلا دارالعلوم دیوبند،اکوڑہ خٹک میں مولانا عبدالحق مرحوم اور غورغشتی (چھچھ ، ضلع اٹک ) میں مولانا نصیرالدین کے پاس دورہ حدیث ہوتا تھا۔ مولانا ایک سال بڑا دورہ حدیث اور دوسرے سال چھوٹادورہ حدیث کراتے تھے، وہ بھی فی سبیل اللہ۔ آج کل تو ایک دوڑ لگی ہوئی ہے دورہ حدیث کرانے کی۔ اور میں سمجھتا ہوں اس میں وفا ق المدارس کا قصور زیادہ ہے”.
” ارے، وفاق المدارس کو آپ کیسے ذمہ دار ٹھہرا سکتے ہیں”.
” وہ اس طرح کہ وفاق المدارس نے تعلیم کا ایک یکساں نظام نافذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس کے نتیجے میں اسی انگریزی تعلیمی نظام کی خامیاں یہاں بھی آ چکی ہیں جن پر ہم لوگ تنقید کرتے رہے ہیں، مثلا گیس پیپر، گزشتہ امتحانوں کے پانچ سالہ پرچے، کون سا سوال دہرائے جانے کے زیادہ امکانات ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ اس پر مستزاد یہ کہ طلبا ء کی توجہ تحصیل علم کی بجائے پاس ہونے پر زیادہ ہوتی ہے۔ اسی دورہ حدیث کے امتحان میں شمولیت کے لئے ہر مدرسہ نے دورہ حدیث کا اہتمام کیا ہے جس کا مطلب سوائے شہرت کے کوئی نہیں ، یعنی کہ ہمارے ہاں اتنی اعلی تعلیم کا حصول ممکن ہے ۔ اور یہ کہ مدرسے کا نام ان مدارس کی فہرست میں شامل ہو جائے جن میں زیادہ پڑھایا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ میرے بیٹے نے ایک بات کہی تھی جو مجھے بہت اچھی لگی۔ اُس کا کہنا تھا کہ دین کی کمرشلائزیشن ہو چکی ہے”.
“ہا ہا ہا ۔ دین کی کمرشلائزیشن ۔ یہ کیا بات ہوئی بھلا”۔
” ہاں نا۔ مثلا اب اسی تقریب کو لے لو۔ اتنے مشہور علما کو یہاں بلانے کا مقصد کیا ہے؟ ایک تقریر سے تو کوئی کسی کو نہیں سکھا سکتا۔ اتنے مشہور علما کی موجودگی کا مطلب یہی بنتا ہے کہ اپنے ادارے کی تشہیر کی جائے۔ اس تشہیر کا فائدہ زیادہ طالب علموں کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے اور زیادہ چندے کی صورت میں بھی”.
“ارے میں نے تو ایسا سوچا بھی نہ تھا”.
” ہاں یہ کمرشلائزیشن ہی تو ہے۔ اب میرے بھائی کی مثال لے لو۔ کتنا جید عالم تھا۔ مرتے دم تک ایک ہی مدرسے میں حدیث پڑھا تا رہا۔ اور جب اُس کی وفات ہوئی تو اس کی وفات کو کمرشلائز کر دیا گیا۔ اپنی زندگی میں اس کی خدمت میں نے بہت کی۔ یہاں تک کہ اس کا کیرئیر بھی سمجھو میں نے بنایا”-
اچھا !”۔
“ہاں!، اول اول جب جامعہ اشرفیہ میں اسامیاں نکلیں تو میں نے ہی اسے گاؤں سے بُلا کر وہاں پڑھانےپر آمادہ کیا ۔ یہ اور بات کہ میں خود اس ماحول سے نہ جُڑ سکا۔ وجوہات تو تم جانتے ہی ہو”۔
“جی”۔
“اچھا تو میں بات کر رہا تھا اپنے بھائی کی۔ اس کے مرض الموت میں میں اس کی ایسی خدمت نہ کر سکا جیسی مجھے کرنی چاہئے تھی، مگر یہ بھی تو دیکھو کہ میرا سارا گھرانہ منتشر تھا۔ اگر میں ان سب کا خیال نہ رکھتا اور اس کے پاس، ملک کے آخری سرے چلا جاتا تو پیچھے کیا ہوتا؟”
“یہ تو ہے”.
“بہر حال، اس کی وفات کے تیسرے دن ایک عدد تعزیتی ریفرنس منعقد کیا گیا. بڑے بڑے نام اس میں شریک ہوئے ، بڑی تقریریں ہوئیں ، طفیلیوں نے اس کی خدمات کو سراہا، مدرسے کا مہتمم اس گرانقدر عالم کی رحلت پر افسوس کرتا رہا اور جس کو سب سے زیادہ دُکھ پہنچا یعنی میں ، اس کا بھائی، مسجد کے دالان میں ایک طرف بیٹھا خاموشی سے سُنتا رہا. کسی نے پوچھا تک نہیں. کیونکہ میری باتوں میں شائد کمرشلائزیشن نہیں تھی. میں کہتا تو کہتا بھی کیا . شائد اپنے بھائی کا غم بیان کرنے کے لئے میرے پاس جو الفاظ تھے وہ ان سامعین کے لئے مناسب نہ تھے. نہ کسی نے پوچھا مجھے اور نہ میں نے اظہار کیا. سب نے اُس کی موت کو اپنی تشہیر کا ذریعہ بنا ڈالا”.
“افسوس ہوا یہ سب سُن کر”‘.
“مگر ہم سب انسان ہیں اور اپنا فائدہ کسے عزیز نہیں ہوتا؟”.
“یہ بھی ٹھیک ہے”.
” تو اُس موقع پر بھی مجھے اپنے بیٹے کی بات یاد آئی کہ یہ کمرشلائزیشن ہے دین کی. کیونکہ یہ کمرشلائزیشن کا زمانہ ہے. فی زمانہ فائدہ نقصان پیسے کے ترازو میں تولا جاتا ہے”.
“مگر آپ ایک بات بھول رہے ہیں ، جیسا کہ آپ نے اپنے مرحوم بھائی کے بارے میں بتایا ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے واقعی بہت محنت کی تھی، تو اگر ان کو خراج تحسین پیش کر ہی دیا گیا تو آپ کو تو خوش ہونا چاہئے، آپ الٹا اپنی خفگی ظاہر کر رہے ہیں یہ کیوں؟”.
“نہیں ایسی بات کوئی نہیں، اُس نے جو کچھ کیا اُس کا اجر اللہ ہی دے سکتا ہے، مگر مجھے در اصل اپنے اساتذہ کی ایک بات یاد آ گئی کہ جب ہر کام میں تکلفات دخیل ہو جائیں، اورسادگی کی بجائے تکلفات کو اہم سمجھ لیا جائے تو سمجھ لو کہ تنزل کا زمانہ آ پہنچا. درحقیقت یہ تکلفات تنزل ہی کا ایک نشان ہیں”.

1 thought on “مکالمہ”

  1. ام عروبہ

    السلام علیکم
    سہی کہا آُپ نے کہ تکلفات بہت بڑھ گئے ہیں اور دکھ اسی بات کا ہے کہ مذہبی طبقہ بھی سادگی کی بجائے تکلفات کی دلیل اور تاویل کر کے اسکو گلے سے لگا رہا ہے-
    اور عام لوگوں کا یہ رویہ ہے کہ اگر آپ سادگی اختیار کریں تو وہ آپ کو ہمدردی ، رحم اور بے چارگی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اگر انکو سادگی سے ڈیل کریں تو اس کو اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں- کر لو گل-

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں