Skip to content

ملاقات

آج ایک عالم دین سے ملاقات ہوئی۔
وہ مجھے پہلے سے جانتے تھے ۔ مگر میرے ذہن سے نکل چکا تھا کہ میری ان سے کب ملاقات ہوئی تھی۔ لہذا ان کا تعارف کرانے سے پہلے مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا میں ان کو جانتاہوں ؟
میں نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر مجھے ان کا نام اور جائے سکونت بتائی گئی اور یہ بھی بتایا گیا کہ یہ بہت جید عالم دین ہیں۔ کتابیں پڑھی ہیں اور مدرسوں سے فارغ ہیں۔ وفاق المدارس سے فارغ التحصیل نہیں اور یہی ان کی خوبی ہے۔

اس پر ایک قاری کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا وفاق المدارس واقعی اتنی بری چیز ہے؟ اس پر تفصیلی بات پھر کبھی۔ مگر ایک بات ہے کہ وفاق المدارس دینی مدارس میں دی گئی تعلیم کو ایک متعین سٹینڈرڈ پر لانے کی ایک کوشش ہے۔ میرے ایک کزن کا یہ کہنا ہے کہ تعلیم کے آغاز یا اختتام اور اس کی مدت کا فیصلہ طالب علم کی استعداد پر ہونا چاہئے۔ بہت سےذہین طالب علم کم مدت میں کم پورا کر لیتے ہیں اور بہت سے اوسط درجہ کے طالب علم زیادہ وقت لیتے ہیں۔ گھوڑے اور گدھے کو ایک ہی چھڑی سے ہانکنا مناسب نہیں۔ ا نھوں نے کافی کوشش کی تھی کہ میں درس نظامی ان کے پاس پڑھوں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں یہ آٹھ سال کا نصاب ان کے پاس چار سال کی مدت میں ختم کر سکتا ہوں مگر مجھے تو ڈاکٹری کا شوق تھا۔

مجھے علم نہیں کہ اس نظام تعلیم کی کیا خوبی یا خامی ہے۔ کسی دن ابو کے ساتھ بیٹھ کر تفصیل پوچھوں گا۔ مگر جیسا کہ ہوتا آیا ہے۔ یہ ایک نظام ہے اور اس کی خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس کی خوبیاں زیادہ ہیں یا خامیاں۔ اور اگر خامیاں کم ہیں اور نقصان زیادہ ہے تو بھی اچھی بات نہیں۔ اس نقصان کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے۔ کیونکہ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے ہمارا معاشرہ اچھے علماء سے محروم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس محرومیت کا نقصان معاشرے ہی کو ہونا ہے۔

ان شاء اللہ کبھی تفصیل سے لکھوں گا اس موضوع پر۔

2 thoughts on “ملاقات”

  1. جہاں تک میرے علم میں ہے درسِ نظامی دین اسلام کی تعلیم کیلئے نہیں بنایا گیا تھا بلکہ دین اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے نظامِ حکومت چلانے والوں کی تدریس کا نصاب تھا ۔ بلا شُبہ درسِ نظامی کی پڑتال اور درجہ بندی ہونی چاہیئے لیکن اس خیال سے نہیں کہ نصاب یا مندرجات بوسیدہ ہیں بلکہ اس لئے کہ انہیں مزید آسان فہم بنایا جائے ۔ کچھ نکالے بغیر نئے وقوع پذیر ہونے والے مضامین شامل کئے جائیں اور دوسرے علوم کی ترقی سے استفادہ حاصل کیا جائے بالخصوص کمپیوٹر سائنس سے تاکہ اس علم کو حاصل کرنے اور محفوظ کرنے میں آسانی ہو ۔ میرے اکثر پڑھے لکھے یا اہلِ اختیار ہموطنوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے ذہن فرنگی تہذیب میں اٹکے رہتے ہیں ۔ سمجھتے ہیں کہ انگریزی بولنے سے ترقی ہو جاتی ہے ۔ داڑھی والا دہشتگرد نظر آتا ہے اور دین پر عمل کرنے والا بیوقوف ۔ تو اس فعال اور نیک قومی خدمت کی طرف کو توجہ دے گا ؟ ان پڑھے لکھے روشن خیالوں نے سکول کالج اور یونیورسٹی کے نصابوں کا جو حال پچھلی آدھی صدی مین کیا ہے وہ آپ کے سامنے ہے ۔ اس کے ساتھ ہی کافی مقدار میں لوگ سمجھنے لگے ہیں کہ تعلیم صرف او اور اے لیول سے حاصل ہوتی ہے ۔ مقامی نصاب تو شاید گدھوں کیلئے ہے

  2. انکل، بات درس نظامی کی نہیں ہو رہی۔ بات وفاق المدارس کے آنے کے بعد کی ہو رہی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں وہاں بھی اب امتحان میں کامیابی کے لئے گیس پیپرز، خلاصوں اور نوٹس کی وبا چل پڑی ہے؟

    چونکہ ہر طالب علم نے ہر درجے یا کلاس کا نصاب ایک مدت میں ختم کرنا ہوتا ہے اور اساتذہ نے بھی اس نصاب کو ختم کرانا ہوتا ہے تو پھر شارٹ کٹ ڈھونڈے تو جائیں گے ہی۔ اور ان شارٹ کٹ کے اختیار کرنے کے بعد جو کچھ ہوگا وہ آپ کے سامنے ہوگا۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں