Skip to content

مُفتا سب کے لئے نقصان دہ ہے۔

میں نے جب کچھ برس قبل اپنی پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ شروع کی تو اس بات کا اندازہ مجھے اور گھر والوں کو بخوبی تھا کہ کچھ غیر معینہ مدت تک تو یہ کام بیگار ہی ہوگا۔ اپنے باقی دوستوں کی طر ح مجھے بھی بغیر کسی معاوضہ کے ہسپتال میں کام کرنا ہوگا۔ بہر حال یہ سلسلہ گیارہ ماہ تک چلا۔اس دوران مجھے کوئی ذریعہء آمدنی بھی ڈھونڈنا تھا۔ اور جلد ہی مجھے ایک ایسی این جی او میں شام کی نوکری مل گئی جو تھیلاسیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کے لئے کام کرتی ہے۔ وہ ایک سال جو میں نے ان بچوں کے ساتھ گزارا ، بہت اچھا سال تھا، مجھے اس بیماری کی انسانی جہات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ انسانی فطرت کے جتنے بھی رنگ ہوسکتے ہیں وہ سب مجھے ان مریضوں، ان کے والدین یا سرپرستوں میں دیکھنے کو ملے۔ وہاں میں نے ایک بات دیکھی کہ مریضوں کے لئے اگرچہ سہولیات کافی تھیں، مگر ایک مقررہ رقم ان سہولیات کے استفادے کے بدلے ادا کرنا ضروری تھا۔ جو کچھ ان کو فراہم کیا جاتا اس کا خرچہ یہ سو یا ڈیڑھ سو روپے پورا نہ کرسکتے تھے مگر ادا کئے جانے ضروری تھے۔ اگر ڈسفرال کا ایک انجکشن بازار میں 90 روپے کا ہے تو اکثر مریضوں کو 45 روپے میں ملتا تھا، مگر مفت نہ ملتا تھا۔ شروع شروع میں تو یہ بات بری لگی۔ میں نے سوچا اس ترتیب کا بدلنا ضروری ہے، یہ تو کاروبار ہے، خدمت نہیں۔

مگر میں یہ بات کر نہ سکا کیونکہ کچھ ہی عرصے بعد میں اس ترتیب کی حکمت سے آگاہ ہوچکا تھا۔ اس این جی او میں بلا رنگ و نسل، و مالی حیثیت کے سب کو یکساں سہولیات فراہم کی جاتی تھیں، اور چونکہ ہم انسان اکثر ناشکرا پن ہی کرتے ہیں، تو بہت سے لوگوں کی اس این جی او سے کچھ زیادہ ہی توقعات  بندھ چکی تھیں۔ مثلا ایک لڑکا جو کہ ایل ایل بی کر رہا تھا ، وہ چاہتا تھا کہ اب اس کی تعلیم کا خرچہ بھی یہ این جی او اٹھائے کیونکہ وہ تھیلاسیمیا کا مریض تھا۔ حال آنکہ وہ ایک متمول خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔  میں نے اندازہ لگایا کہ جو رقم ان سب مریضوں سے لی جاتی ہے وہ این جی او کے لئے گو کہ ناکافی ہوتی ہے مگر مفید اس طرح ثابت ہوتی ہے کہ اس طرح فالتو لوگوں کا بوجھ نہیں رہتا۔ جنھوں نے مفتا لگا کر تنگ بھی کرنا ہوتا ہے وہ اس کم رقم کی وجہ سے زیادہ آتے نہیں اور یوں ملازمین کی توجہ ان  مریضوں پہ زیادہ رہتی ہے جو واقعی مستحق ہیں۔ اس کا میں اتنا قائل ہوا کہ جب ہری پور سے تعلق رکھنے والے ایک پر جوش نوجوان نے تھیلاسیمیا ہی کےمریضوں کے لئے ایک سنٹر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تو میں نےسب سے پہلےاسے یہی مشورہ دیا کہ “خبردار ، کوئی بھی چیز مفت نہ فراہم کرنا۔” اس نے حسب توقع اعتراض کیا اور ایک مختصر بحث کے بعد بات مان گیا کیونکہ میں اس کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا کہ اس کے اپنے وسائل لا محدود نہیں ہیں۔ اور اگر وہ اسی طرح سب کچھ مفت فراہم کرن لگا تو اس کا تمام سرمایہ پہلے کچھ مہینوں میں ہی ختم ہو جائے گا اور اگر اس نےسرمائے کا بندوبست جلد نہ کیا تو اسے پھر یہ تمام سہولیات قیمتا فراہم کرنی ہوں گی اور یہ قدم اس کو لے ڈوبے گا۔ کیونکہ مفت کے عادی لوگ قیمت ادا نہ کریں گے اور الٹا شکایت کریں گے کہ یہ شخص ہمارے نام پہ آنے والا پیسہ کھا گیا ہے۔ چونکہ ایسی ایک دو مثالیں ہمارے سامنے تھیں۔ اس لئے بات سمجھنا مشکل نہ رہا۔

یہ بات مجھے اس طرح یاد آئی کہ میرے ایک دوست کے پاس عزیز رشتہ داروں کیطرف سےصدقات و خیرات کی مد میں بھیجی گئی کچھ رقم ہوتی ہے۔ ایک مناسب رقم سے وہ دوائیں خرید لیتا ہے، اور پھر کسی جمعے یا اتوار والے دن  کسی ایک دور دراز گاؤںمیں پہنچ کر ایک میڈیکل کیمپ سجا لیتا ہے۔ میڈیکل کیمپ میں شامل ہونےوالے ڈاکٹر اکثر ٹرینی ہوتے ہیں۔ ان کو گھومنے کا موقع مل جاتا ہے۔ فی سبیل اللہ کام  ہوتا ہے اور مقصد بھی پورا ہوجاتا ہے۔ اگر کبھی نفری کم پڑ جائے، کوئی گھر گیا ہو، یا کسی کی ڈیوٹی ہو، تو پھر مجھے ساتھ شامل کر لیا جاتا ہے ورنہ عموما میں نہیں ہوتا۔ گزشتہ دنوں  ہی ہم ضلع مانسہرہ کی یونین کونسل بحالی گئے اور وہاں تقریبا ڈیڑھ سو مریض دیکھے۔ ان میں سوائے معدودے چند کے باقی سب واقعی بیمار تھے اور ان سب کو سٹینڈرڈ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی دوا ملی۔ وہ بھی صرف 30 روپے کے بدلے میں۔  اب یہ 30 روپے کہاں سے آگئے؟ اس کا جواب وہی ہے کہ جو بیمار ہے، اس کے لئے تیس روپوں کی کوئی وقعت نہیں۔ کیونکہ اس کو طبی مشورہ اوردوا مفت مل رہی ہے۔اور جس نے مفتا  مارنا ہے اس کی جان جاتی ہے جیب سے پیسے نکالتے ہوئے۔ لہذا مفت خورےاس قسم کے کیمپوں سےدور رہتے ہیں اور ڈاکٹروں پر کام کا بوجھ بھی نہیں ہوتا۔ میرے جو قارئین خدمت کے کاموں سے تعلق رکھتے ہیں انھیں اس طرح کے کاموں میں درپیش مشکلات کا بخوبی ادراک ہوگا۔ خودمجھے علاقہ چھچھ ، ضلع اٹک میں ایک مرتبہ اس صورت حال سے دوچار ہونا پڑا کہ ایک خاتون ساری دوائیں لینے کےبعد پیرا سیٹامول کی گولیاں لینے کے لئے دوبارہ حضرو سے بیس کلومیٹر کا سفر طے کرنے کو  صرف اس لئےتیار تھی کہ“  یہ دوائیاں ہمار ےلئے آتی ہیں “۔ یہ اور بات کہ دوبارہ آنےکے لئے اسے پیرا سیٹامول کی قیمت سے چار گنا زیادہ رقم خرچ کرنا پڑتی۔جب ایک مرتبہ اعلان ہو جائے کہ ایک سہولت مفت ہے تو وہ لوگ جن کو ضرورت نہیں ہوتی، وہ بھی فیض حاصل کرنے پہنچ آتے ہیں۔ اس طرح کئی مستحق لوگ رہ جاتے ہیں اور رش اور بوجھ کی وجہ سے کام کا معیار بھی متأثر ہوتا ہے۔

بہرحال اب تک کے جتنےبھی ایسے کیمپوں میں جانے کا اتفاق ہوا،  ہر بار ایک نیا مزہ آیا۔ مختلف جگہ، مختلف لوگ اور راستہ، اور ہر بار سفر کے ساتھی مختلف۔  یہ ایک نیا تجربہ تھا۔  میں اب سوچتا ہوں کہ میڈیکل کیمپ ہو تو ایسا ہو۔ انسان اپنے ساتھ اچھی چیزیں لے کر جائے، اچھے ڈاکٹر ہوں، اور معمولی سی معائنہ فیس مفت خوروں کو دور رکھنے کے لئےہو۔  مجھے احساس ہے کہ یہ قانون ہر جگہ لاگو نہیں ہو سکتا۔ کسی قدرتی آفت سے متأثرہ علاقے میں متأثرین سے داخلہ فیس لینا بھیانک مذاق ہی ہوگا۔ مگر اختیاری حالات میں اس پر ضرور عمل کرنا چاہئے تاکہ جو لوگ اس قسم کی سہولت سے مستفید ہو رہے ہوں، ان کو بھی احساس ہو کہ یہ سب کچھ مفت نہیں اور اس کی قدر کرنا لازم ہے۔

میں اکثر اخباروں میں پڑھتا ہوں کہ پاکستان میں سب سے زیادہ رقم خیرات اور صدقات کی مد میں خرچ کی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں، مگر کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اتنی زیادہ رقم خرچ کرنے کے باوجود اس کا کوئی اثرکیوں  دکھائی نہیں دیتا۔ میرے خیال میں اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ اتنی زیادہ رقم بے ترتیبی سےخرچ ہو رہی ہے۔ اگر مخیر حضرات مل بیٹھ کر ایک غیر سرکاری سا نظام ہی بنا ڈالیں تو بہت سے ثمرات جلد ہی دیکھنے کو ملیں گے۔ اور اگر اس میں حکومت کو بھی شامل کر لیا گیا تو جو تھوڑا بہت فائدہ غریبوں کو ہو رہا ہ وہ بھی نہیں ملے گا۔ مثال کے طور پر ہمارے صوبے میں گزشتہ برس کے سیلاب میں بہت نقصان ہوا۔ جس کے بس میں جتنا تھا اس نے متأثرین کے لئے کام کیا۔ مگر اس وقت میرا اپنے دوستوںسے اختلاف ہوا کچھ باتوں پہ۔ اول میں نے ان سے کہا کہ ہر تیسرے یا پانچویں دن میڈیکل کیمپ لگانے سے اچھا ہے کہ کچھ ڈاکٹرز کی وہاں ایک ایک ہفتے کی ڈیوٹی لگا دیں۔ میڈیکل کیمپوں پہ  اتنا خرچہ بہت کم فائدہ دے گا۔ مگر جیسا کہ ہوتا ہےاس بات پر کسی نے کان نہیں دھرے۔ دوسری بات میں نے ان سے یہ کی کہ سیلاب سے متأثرین کو دواؤں سے زیادہ خوراک، پوشاک اور سر چھپانے کی جگہ کی تلاش ہوگی۔آپ اس بارے میں سوچو۔ مگر جس کو بھی اپنی پی آر بنانے کاخیال آتا کچھ نوجون ڈاکٹروں کو جمع کیا اور ایک عدد میڈیکل کیمپ بنا لیا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ تیسری بات یہ تھی کہ میڈیا پہ میدانی علاقوں کی کوریج زیادہ تھی اور پہاڑی علاقوں میں ہونے والے نقصانات کا بہت کم تذکرہ تھا۔ اس لئے کافی عرصے تک تو کسی کو خیال بھی نہیں آیا کہ دریائے سندھ جن پہاڑوں سے گزر کر آتا ہے وہاں بھی نقصان تو ہوسکتا ہے۔ بہر حال جب تک ہم وہاں پہنچے، این سی ایچ ڈی نے کافی کام کر لیا تھا۔ یہ کچھ وجوہات تھیں جنھوں نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ اس سارے خیراتی نظام میں درستگی کی بہر حال گنجائش ہے۔

16 thoughts on “مُفتا سب کے لئے نقصان دہ ہے۔”

  1. یہ باتیں بہت کم لوگوں کو سمجح آتی ہیں!!!
    مفت قانونی امداد کا بحٰ کچح ایسا ہی معاملہ ہے!!‌ضرورت مند اور عادی ملزم کا فرق سمجھاتے سمجھ میں نہیں آتا یار لوگوں کو۔

  2. صدقہ کرنا معمول ہے میرا، تاہم اس کے لیے کسی بندے کی پُتر جیسی تنظیم کو تلاش کیا کرتا ہوں جیسا کہ اخوت، جو کہ مائیکرو قرضے فراہم کرنے والا ایک غیر سرکاری ادارہ ہے پنجاب میں۔ یہ دس ہزار سے زائد قرض نہیں دیتے، اور بلاسود دیتے ہیں۔

  3. ڈاکٹر صاحب۔۔۔ مفت خوری تو اب عادت سی بنتی جا رہی ہے ہمارے معاشرے میں۔۔۔ انکم سپورٹ کی مد میں جو رقم خرچ کی جا رہی ہے، اس کا آڈٹ تو ہوتا نظر نہیں آ رہا۔۔۔ لیکن اس کے عوض جو ہڈ حرامی اور مفت خوری کی عادت ہمارے معاشرے میں پنپ رہی ہے، وہ مستقبل میں‌بڑے مسائل کھڑے کر دی گی۔۔۔۔۔ اس کے بارے میں بھی ہمیں ابھی سے سوچنا ہوگا۔۔۔

  4. پاکستان ہے غریب سا ملک بے چارا 😛 یہاں تو مفت میں زہر بھی بانٹا جا رہا ہو تو عوام دو دو مرتبہ لینے کی خواہش مند ہوتی ہے ابھی مفت کی جنگ تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں

  5. بہت خوب ۔۔۔۔ میں اس بات کی بھرپور تائید کروں گا کہ طبی سہولتیں مفت نہیں ہونی چاہیں مفت نا صرف سسٹم کو خراب کرتا ہے بلکہ حقدار کا حق بھی اسی وجہ سے مارا جاتا ہے۔ اس سے یہ اصول سعودیہ میں میڈیکل انشورینس کمپنیز نے خوب سمجھا ہے۔ کسی وقت میں یہاں بھی مفتا چلتا تھا تو یار لوگوں نے جی بھر کے اس مفتے کا غلط استعمال کیا۔ ہر مریض کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ اگر پوری فارمیسی نا تو کم از کم آدھی فارمیسی کی دوائیں ڈاکٹر سے لکھوالے اور دنیا بھر کے ٹیست کروالے ۔ لیکن جب سے انشورینس کمپنیز نے ہر چیز پر %20 کا اصول لاگو کیا ہے تب سے مریضوں کی %75 فیصد طبی شکایتیں ختم ہو گئی ہیں۔۔۔ 😀

  6. ڈاکٹر صیب یہ کیا بات کر دی آپ نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے یہاں تو مثل مشہور ہے ‘ہفتہ جائے پر مفتہ نا جائے’ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لولز

    یہ تو ایک مذاق کی بات تھی ۔۔۔۔ مگر ڈاکٹر جواد صاحب نے ٹھیک کہا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ جن سے میڈیکل انشورنس والوں نے بیس فیصد ادائیگی منجانب مریض ہوگی تب سے لوگ اسی فیصد ٹھیک رہنے لگے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 🙂

    1. یاسر یہ امداد والا قافلہ جہاں بھی جاتا ہے وہاں بڑے بڑوں کی عزت پامال کر دیتا ہے۔ جو مانگنے کے عادی نہیں ہوتے وہ بھوکے پیاسے رہ جاتے ہیں اور جو عادی ہوتے ہیں وہ تقسیم کرنے والوں کی عزت کو خاطر میں نہیں لاتے۔

  7. بہت خوب جناب۔ زبردست تحریر ہے۔ باتیں آپ کی ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ ویسے بھی مفت کی چیز کی لوگ کم ہی قدر کرتے ہیں جبکہ اگر بے شک تھوڑی سی قیمت لی جائے تو قدر بھی ہوتی ہے۔

  8. جناب بلال محمود صاحب:: جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے آپ کا یہ پہلا تبصرہ ہے اس نقار خانے میں جہاں کام کی بات کم ہی ہوتی ہے۔ آپ کو خوش آمدید کہتے ہوئے امید کرتا ہوں کہ آپ کی آمد کے بعد آپ کے تبصروں کا سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔

    عمران اقبال:: میرا خیال ہے کہ اگر کوئی ایک سسٹم ایسا ہو کہ جس میں‌ فنڈز پیدا کرنے کا کام ایک قابل اعتبار اور مستقل ذریعے سے لیا جا سکے تو غربا اور مساکین پر اس طرح کی رقم خرچ کرنا بری بات نہیں تصور کی جانی چاہئے۔ کیونکہ اس طرح مستحقین کی مدد کے لئے ایک مستقل ذریعہ موجود ہوگا۔ مگر بد قسمتی سے یہ انکم سپورٹ والے پروگرام محض ڈھکوسلے ہیں، جو رقم یہ پروگرام دیتے ہیں اس کا عشر عشیر ہی شائد مستحقین کو ملتا ہو۔

    ڈاکٹر جواد اور ضیاالحسن:: ہمارے ملک میں اب بھی کچھ محکمے ایسے ہیں جہاں مفت علاج کی سہولت موجود ہے اور اس سہولت کا جس طرح فائدہ اٹھا کر محکموں کو تھوک لگائی جا رہی ہے وہ تصور بھی نہیں کی جاسکتی۔ اور میرا تو اس صورت حال کا تقریبا تین سال کا تجربہ بھی رہا ہے۔

    شاکر بھائی، اخوت کا نام میں نے بھی سنا ہے اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ تنطیم آپ کی رقم کا درست استعمال کرتی ہے تو اچھی بات ہے، اللہ آپ کی محنت کو ضائع نہ ہونے دے گا۔

  9. آپ نے جو باتیں لکھی ہیں وہ درست معلوم ہوتی ہیں۔۔۔۔ اور جو اوپر عبدالقدوس نے لکھا کہ مفت میں زہر بھی ملے تو دو دفعہ لینے کا سوچیں گے۔۔۔۔

  10. خالد حمید

    بہت اچھی بات کی جانب توجہ دلائی آپ نے۔
    سہی کہا۔۔۔ مفت میں ملے تو دو۔۔۔۔
    ہفتہ جائے مفتہ نہ جائے۔۔۔۔۔۔۔

  11. بہت خوب جناب، اب مختلف فلاحی اداروں کی حکمت عملی کچھ سمجھ آئی ورنہ میں تو یہی سمجھا تھا کہ جب مدد کرنی ہے تو فیس کیسی۔۔۔۔

  12. افتخار راجہ

    پاکستان میں کیمپنگ ہوتی تھی تواسطرح کے بہت سے مسائل سامنے آتے تھے، بہت ہی مشکل ہوتی ہے خاص کر دیہات کے انھپڑھ لوگوں کو سمجھانا مگر معمولی فیس سے ایک اچھا فلٹر بن جاتا ہے، ہم نے فری کیمپ سے شروع کیا تھا پھر پرچی فیس کے نام پر دو روپے اور دس تک پہنچ گئے۔

    مگر یہ ہے کہ ہمیشہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کےلئے یہ رقم بھی بوجھ ہوتی، اس سلسلہ میں ضروری ہے کہ بہت احتیاط کی جائے کہ کسی ضرورت مند کہ ضرورت نہ جائے۔

  13. ڈاکٹر جواد احمد خان: بہت خوب ۔۔۔۔ میں اس بات کی بھرپور تائید کروں گا کہ طبی سہولتیں مفت نہیں ہونی چاہیں مفت نا صرف سسٹم کو خراب کرتا ہے بلکہ حقدار کا حق بھی اسی وجہ سے مارا جاتا ہے۔ اس سے یہ اصول سعودیہ میں میڈیکل انشورینس کمپنیز نے خوب سمجھا ہے۔

    ثابت ہوا یہ بیماری دیگر قوموں میں بھی پائی جاتی ہے ، پاکستانی اکیلے نہیں۔ (:

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں