ڈاکٹر عشرت العباد آج رات وطن واپس پہنچ کر شائد کل سے دوبارہ بحیثیت گورنر سندھ اپنے فرائض ادا کرنا شروع کر دیں۔ یہ سب حسب توقع ہورہا ہے۔ جب 27 جون 2011 کو ایم کیو ایم نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا تو مجھے ایک لمحے کو بھی شبہ نہیں ہوا کہ اس مرتبہ یہ فیصلہ اٹل ہے۔ کہیں ایک خیال دل میں آتا تھا کہ کل کلاں کو یہ سیاست دان دوبارہ ایک دسترخوان پر بیٹھے ہوں گے۔ اور اس دسترخوان کے تمام لوازمات عموما نیم مردہ عوام سے نچوڑے جاتے ہیں۔
حکومت سے علیحدگی کے وقت ایم کیو ایم کے نمائیندوں نے بہت سے گلے شکوے کئے، اور یہ تأثر دینے کی کوشش کی کہ ان کا پیمانہ صبر لبریز ہوچکا تھا اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے ایک متعین حد تجاوز کرنے کی صورت میں ہی ایم کیو ایم نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ سارا جھگڑا آزاد جمو و کشمیر قانون ساز اسمبلی کی دو نشستوں کا تھا جن پر خیبر پختونخوا کی ایک سیٹ کے ساتھ مختلف وجوہات کی بنا پر انتخابات ملتوی کئے گئے تھے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا 27 جون 2011 سے لیکرآج کی تاریخ تک، کراچی کے حالات اتنے بہتر ہو گئے ہیں کہ اب ان دو نشستوں پر انتخابات کرائے جا سکیں؟ میرا جواب نفی میں ہے۔ وہ اس لئے کہ ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کے بعد کراچی میں غیر اعلانیہ طور پر لسانی فسادات پھوٹ پڑے، غیر اعلانیہ اس لئے کہا کہ کسی نے اگر چہ صاف تو یہ نہیں کہا، مگر عملا صورت حال یہی تھی۔ ان دو نشستوں کی خاطر اصولی سیاست کے نام پر ڈیڑھ سو انسانوں کا خون بہا دیا گیا۔ صرف دو نشستوں کی خاطر۔
اڑتی اڑتی سُنی ہے کہ اگلے چند دنوں میں انھی نشستوں پر انتخابات کرائے جا رہے ہیں۔ کیا پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کووہ دو نشستیں دے کر راضی کیا ہے یا اسے کچھ اور ضمانتیں بھی دینا پڑی ہیں، یہ تو وقت بتائے گا۔ مگر جب یہی سب کچھ کرنا تھا تو ڈیڑھ سو انسانوں کو مروانے کی کیا ضرورت تھی۔
بار بار کے روٹھنے اور مان جانے کے اس کھیل سے صرف اور صرف ایم کیو ایم کی ساکھ متأثر ہو رہی ہے۔ مگر سیاست کے اس نگر میں جہاں یہ کہہ کر اپنے قول کا مذاق اڑایا جاتا ہو کہ وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے، صرف ایم کیو ایم ہی گنہ گار نہیں۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔
بجا فرمایا آپ نے سب سیاستدان ننگے ہیں۔
اللہ ہم پر اپنا کرم کرے اور ان جرائم پيشہ لوگوں سے بچائے
آپ نے کہا کہ “ایم کیو ایم کی ساکھ متاثر ہورہی ہے”
پتا نہیں یہ کونسی ساکھ ہے جو متاثر ہورہی ہے۔
یہ لوگ بے ساکھ
ننگ وطن
اور
وطن فروش
اور
غیر ملکی ایجنٹ ہیں (رحمان ملک نے کہا کہ کراچی میں اسلحہ اسرائیل سے آرہا ہے)
سارے کے سارے سیاستدان اسی طرح کے بے غیرت ہیں۔ ہر کوئی اپنی کرسی مضبوط کر رہا ہے چاہے اس کے لیے سینکڑوں کا خون بہہ جائے۔ مرکزی حکومت بھی تو اپنی کرسی تگڑی کرنے کےلیے شمالی علاقوں میں ڈرون حملے کروا رہی ہے۔
منر بھائی!
بجا فرمایا ۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔
ان سب کو دریا برد کردینا چاہئیے۔ خس کم ۔ جہاں پاک
“بار بار کے روٹھنے اور مان جانے کے اس کھیل سے صرف اور صرف ایم کیو ایم کی ساکھ متأثر ہو رہی ہے۔”
بھول ہے آپ کی۔
یہ قوم اتنی جاہل ہے کہ کل پھر انہی سیاست دانوں کو ووٹدینے کھڑی ہو گی اور ہاں
وہ بھی صبح صبح 9 بجے،
یقین نہ آئے تو شرط لگا لیجئے مجھ سے (:
Comments are closed.