Skip to content

قصہ شروع کے دن کا

پاکستان کے دینی مدارس میں بہت عرصے سے ایک بات چلی آ رہی ہے کہ ہر نئی کتاب، یا مضمون بدھ کے دن سے شروع کی جاتی ہے.
منگل کا دن اکثر گردان یا دہرائی کے لئے رکھا جاتا ہے. میرے والد ایک عالم دین بھی ہیں، لہٰذا میں نے جب ان سے اس بارے میں استفسار کیا تو انھوں نے بتایا کہ حال آنکہ اس بات کی کوئی خاص سند نہیں ہے مگر عام رواج یہی رہا ہے کہ نئی کتاب بدھ کے دن سے شروع کی جاتی رہی ہے. اسی لئے بدھ کو پشتو میں ” د شروع روز ” یعنی شروع کرنے کا دن کہا جاتا رہا ہے.

پاکستان کے کافی مدارس میں یہ رواج تو اب معدوم ہوتا چلا جا رہا ہے مگر، آج بھی مردان اور قریبی اضلاع میں شروع کے دن کو تسلیم کیا جاتا ہے.

آج میرے لئے شروع کا دن تھا. میں نے کل فیس بک کو چھوڑنے کے فیصلے کے بعد اپنی مصروفیات کو دوبارہ ترتیب دیا اور فیصلہ کیا کہ آج سے اپنے پیپر کے لئے پڑھائی شروع. اور چونکہ حسن اتفاق سے آج شروع کا دن بھی ہے تو یہ ایک اچھا شگون ثابت ہو سکتا ہے.
مگر .. صبح سویرے مجھے بتایا گیا کہ آج ہنگامی طور پر ایک بہت ضروری کام کے سلسلے میں مجھے اپنے والد کے ساتھ اوگی جانا ہوگا.
حکم سے سرتابی کیا کرتے اس لئے اُن کے ہم رکاب ہو گئے.
دوران سفر والد صاحب نے شروع والی روایت کے بارے میں بتایا. انھوں نے بتایا کہ ہندوستان میں دو علمی سلسلے تھے. ایک شاہ ولی اللہ رحمۃاللہ علیہ کا خاندان اور دوسرے خیرآبادی علما جن میں مولانا فضل حق خیر آبادی اور دوسرے مشہور ہیں. انھوں نے اور ان کے بیٹوں نے مشکوۃ کی عربی اور فارسی میں تشریحات لکھیں. اور ہندوستان کے علما میں مشکوۃ ہی رائج تھی کہ شاہ ولی اللہ مکہ میں کچھ عرصہ گزار کر واپس ہندوستان تشریف لائے اور انھوں نے اپنے اساتذہ کی اجازت سے صحاح ستہ کی تعلیم شروع کر دی. صحیح بخاری اور دیگر کتب احادیث کی ہندوستان میں تعلیم در اصل شاہ ولی اللہ کی خدمات کی مرہون منت ہے. ان کے بعد شاہ عبدالعزیز، پھر شاہ اسحٰق، پھر شاہ عبدالغنی، پھر مولانا احمد علی لاہوری پھر مولانا قاسم نانوتوی جو کہ دارالعلوم دیوبند کے بانی تھے، پھر مولانا یحییٰ ، ان کے بھائی مولانا الیاس جنھوں نے تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھی، مولانا ذکریا جن کی فضائل اعمال تبلیغی جماعت کے ہر رکن کے پاس رہتی ہے اور دوسرے علما شامل ہیں. اس سب فہرست میں مولانا انور شاہ کشمیری کا ذکر کہاں کرنا ہے، میں بھول رہا ہوں. ہندوستان میں صرف یہ علما ہی نہیں تھے. اور بھی بہت سے گرامی قدر علما تھے، مگر اِن کا تذکرہ شروع والے قصے کی نسبت سے آ گیا.

شروع والی روایت در اصل ان علما کے ہاں زیادہ پائی جاتی ہے جو خیر آبادی سلسلے سے نزدیک ہیں. یہاں ایک اور بات بتاتا چلوں کہ وفاق المدارس پاکستان کے قیام سے پہلے مدارس کی تعلیم درجات پر مبنی نہیں تھی. یعنی مدارس کی تعلیم میں سکولوں کی طرح ایک کلاس سے پاس ہو کر دوسرے کلاس میں جانے والا چکر تھا ہی نہیں. بس ایک درجہ بندی کر دی گئی تھی کہ، فلاں فلاں کتب پڑھنے کے لئے فلاں فلاں کتب کا پڑھنا ضروری ہے. اور یہ درجہ بندی اصل درس نظامی میں تھی. اُس درس نظامی اور موجودہ درس نظامی میں اب بہت فرق آ چکا ہے. یہ اور بات کہ مُلا اور مدرسہ پر تنقید کرنے والے تنقید ہی کریں گے.
دوپہر کے بعد واپسی ہوئی تو حسب عادت کمپیوٹر کھولا اور براؤزر میں سب سے پہلے فیس بک ڈاٹ کام لکھا. وہ تو ایک پلگ ان کے ذریعے فیس بک کو کل بلاک کر دیا تھا ورنہ آج دوبارہ فیس بک پر سٹیٹس اپڈیٹ ہو گیا ہوتا.
🙂
شام کو لائیبریری جا کر کتابیں کھولیں اور پڑھنا شروع کیا تو ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن ایبٹ آباد کا رکن ہونے کی حیثیت سے ہسپتال میں آئندہ ماہ ہونے والے الیکشن کی حکمت عملی طے کرنے کے لئے ایک اجلاس میں شرکت کا حکم ملا. اجلاس پاکستانی اور بولیوین وقت کے مطابق شروع ہوا اور 11 بجے رات کو کھانے پینے پرختم ہوا. اور یوں شروع کے دن میری پڑھائی کی شروعات ہوئی.

3 thoughts on “قصہ شروع کے دن کا”

  1. یہاں تو اکثر لوگوں کو پیر اور جمعرات کا دن کسی کام کی شروعات کے لیے اچھا سمجھتے ہوئے دیکھا۔ کبھی اس پر خود تو عمل شاید نہیں کیا، لیکن لوگوں کو کرتے اور کامیاب ہوتے ضرور دیکھا ہے۔

    وفاق المدارس کے متعلق آپ کی بات بہت حد تک درست ہے۔ تمام مدارس کو رجسٹر کر کے ایک دھارے میں لانے کے لیے وفاق المدارس نے بہت کام کیا۔ اس کے علاوہ بہت سے اصلاحات کا پیش خیمہ بھی یہی تنظیم ثابت ہوئی۔ اب اللہ کرے یہ دینی تعلیم کی طرف بھی رجحان کو بڑھائیں تاکہ وفاق المدارس سے فارغ طلبہ دیگر تعلیمی اداروں کے طلبہ کے ساتھ چل سکیں۔
    .-= محمداسد´s last blog ..ناکام بم سازش کے اثرات =-.

  2. اب اللہ کرے یہ دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کی طرف بھی رجحان بڑھائیں تاکہ وفاق المدارس سے فارغ طلبہ دیگر تعلیمی اداروں کے طلبہ کے ساتھ چل سکیں۔
    (اوپر والے تبصرہ میں درستگی)
    .-= محمداسد´s last blog ..ناکام بم سازش کے اثرات =-.

  3. بچپن ميں سُنا تھا “منگل پاوے سنگل ۔ بدھ کم سُدھ” ميں جوانی ميں لوگوں کو جتا کر جان بوجھ کے منگل کے دن کام شروع کرتا مگر اللہ کے فضل سے کبھی پريشانی نہ ہوئی ۔ يہ دراصل توہم پرستی کا ہی شاخسانہ ہے ۔
    .-= افتخار اجمل بھوپال´s last blog ..چالاک مگر بيوقوف شخص =-.

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں