Skip to content

قصہ بالغ درویشوں کا

سگریٹ کے دھوئیں سے آلودہ اس کمرے میں خاموشی سی چھاگئی تھی۔ پہلا درویش فیس بک پر مختلف لوگوں کی پروفائلوں میں موجود تصویریں دیکھ کر خاموشی سے آگے بڑھ جاتا۔ وہ کچھ دیر قبل ہی بقیہ دونوں درویشوں کی آمد سے جاگا تھا۔ اور جاگتے ہی فیس بک پہ اپنے اس مشغلے میں مصرو ف ہو چکا تھا۔ دوسرے درویش نے اپنے نوکیا موبائل میں ہیڈ سیٹ کی پن لگا کر مقامی ایف ایم ریڈیو سٹیشن پکڑا ہوا تھا اور ملے جلے گانے سن رہا تھا۔ تیسرا درویش جو کہ ان دونوں سے عمر میں بڑا تھا، سوفا کم بیڈ پہ لیٹا سرگزشت ڈائجسٹ کے تازہ ترین شمارے میں کھویا ہوا تھا۔

پہلے درویش نے تھوڑی دیر بعد ایک ٹھنڈی آہ بھری تو تیسرے درویش نے ڈائجسٹ سے نظریں اٹھائے بغیر تبصرہ کیا ۔ ” اب کس بچی کی پروفائل کھول لی تُو نے؟” وہ کھسیانی سی ہنسی ہنسا اور بولا۔” مرشد یہ تو مجھے بھی پتہ ہے کہ یہ سب دو نمبر پروفائلیں ہیں مگر کیا کریں تصویریں بہت کلاس کی لگائی ہوئی ہوتی ہیں ان لوگوں نے”۔

دوسرا درویش فورا اپنی جگہ سے اٹھ کر پہلے درویش کے پاس جا بیٹھا اور اس کے ساتھ تصویریرں دیکھنے لگ گیا ۔ کمرے میں پھر ایک خاموشی سی چھا گئی۔ موبائل کےسپیکر سے ایک انڈین گانے کی آواز آ رہی تھی اور تیسرا درویش اسی طرح اپنے مطالعے میں مصروف رہا ۔

اس خاموشی کا تسلسل اسی طرح جاری رہتا کہ اچانک دوسرے درویش کی آواز کمرے میں گونجی۔ “یار یہ لڑکیاں کہاں پہ پائی جاتی ہیں؟ میں نے تو آج تک ایسی لڑکیاں نہیں دیکھیں؟”۔
پہلاا درویش بولا ” تمھیں ملیں بھی تو کیونکر؟ تمھارے ماں باپ نے تو کافی عرصہ ہوا تمھارا حساب کر ڈالا ہے، اور تم اب بھی لڑکیوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہو؟ جاؤ اپنی بیوی کے پاس بیٹھا کرو”۔
دوسرے درویش نے گولڈ لیف کا ایک سگریٹ سُلگایا ، ایک گہرا کش لیا اور بولا” یار یہ لڑکیاں جب گرل فرینڈز ہوتی ہیں تو ان کا رویہ مختلف ہوتا ہے اور جب بیویاں بن جاتی ہیں تو مختلف، ایسا کیوں”۔
تیسرے درویش نے ٹکڑا لگایا، ” کیونکہ تُم میں آئیوڈین کی کمی ہے” اور اپنی جیب سے کیپسٹن کا سگریٹ نکال کر اسے سلگانے میں مشغول ہوگیا۔
پہلے درویش نے چڑ کر اس کی جانب دیکھا اور بولا ” مرشد آپ بس ایویں ہی طنز کرتے رہنا اس کا مسئلہ سیریس سا مسئلہ ہے۔ یہ بات واقعی سیریس ہے کہ ان لڑکیوں کا رویہ بہت مختلف ہوتا ہے”۔
تیسرے درویش نے ڈائجسٹ ایک طرف رکھ کر پہلے کی طرف دیکھا اور بھنویں اچکائیں جیسے وہ مزید جاننا چاہتا ہو۔ پہلے درویش نے اپنی بات جاری رکھی ،” اب دیکھو نا جب یہ گرل فرینڈز ہوتی ہیں تو بیڈ میں چیخیں مار رہی ہوتی ہیں اور جب بیویاں ہوتی ہیں تو خاموشی سے لیٹی رہتی ہیں جیسے انسان کے ساتھ کوئی مُردہ لیٹا ہوا ہے”۔
دوسرے اور تیسرے درویش نے حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر پہلے درویش کی جانب نظریں اٹھائیں۔ دوسرا درویش بولا ” ابے تو اپنے حواس میں بھی ہے کہ نہیں، بات تو ایسے کر رہا ہے جیسے تجھ سے بڑا ایکسپرٹ اس دنیا میں نہیں ہے؟”۔

پہلے درویش نے سر اور سے نیچے زور زور سے ہلایا، لیپ ٹاپ ایک طرف رکھا اور کمرے کی واحد کھڑکی کی طرف بڑھ گیا۔ ” آپ لوگوں کو یاد ہو گی وہ دو بچوں کی ماں جس نے مجھ پہ حملہ کیا تھا، بالکل پاگل ہو گئی تھی وہ ، یاد ہے نا اس نے کیا کہا تھا مجھے؟ میرے لباس کے بارے میں؟ کیا اب وہ باتیں دہراؤں میں؟”۔

دوسرا درویش جو کہ اب لیپ ٹاپ پہ قبضہ کر چکا تھا سر اٹھائے بغیر بولا ” ہاں ہاں اب تو دوبارہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر کہ تجھ سے بڑا پاک باز دنیا میں کوئی نہیں کہ جو اس مرحلے سے گزر گیا اور اس نے موقع ٹھکرا دیا”۔
پہلا درویش جھنجلا کر بولا، ” نہیں یہ بات نہیں ہے، بات یہ ہے کہ وہ غیر ازدواجی تعلق بنانا چاہتی تھی اور اس کے مزاج میں اتنی شدت تھی، اگر اس کے ازدواجی حالات ٹھیک ہوتے تو کیا وہ یہ کام کرتی؟”۔
کمرے میں تھوڑی دیر کو خاموشی چھا گئی۔ تیسرے درویش کو اب ڈائجسٹ کے مطالعے میں دلچسپی نہ رہی تھی اس لئے وہ اب اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔ سگریٹ کا ایک گہرا کش لگانے کے بعد وہ بولا” تو تم اس بات سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہو؟”۔
پہلا درویش پلٹا، اور زمین پر بچھے دوسرے بستر پر بیٹھنے کے بعد ایک فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا” یہی کہ ہمارے معاشرے کے اکثر شادی شدہ جوڑوں کی جنسی زندگی نا آسودگی کا شکار ہے”۔
دوسرے درویش نے ایک قہقہہ لگایا” لو جی، تھیوری پیش بھی کی تو کس نے؟ جس کو یہ بھی نہیں پتہ کہ اس کی شادی کب ہو گی ہا ہا ہا”۔
تیسرے درویش نے اس قہقہے میں دوسرے درویش کا کافی دیر تک ساتھ دیا اور پھر اس کے ذہن میں جو استعارے آ چکے تھے ان کو پیش کرنے کے بعد ایک بے ڈھنگے انداز میں دوبارہ ہنسنے لگا ۔۔

موضوع دلچسپ ہو چلا تھا، دوسرے درویش نے ریڈیو بند کیا، لیپ ٹاپ ایک طرف رکھا اور سگریٹ ڈھونڈنے لگا۔ تیسرے درویش نے پوچھا،” اچھا اگر اس کے حالات اچھے نہیں تھے تو اس کے دو بچے کیوں کر ہوئے؟ “۔
پہلے درویش نے ایک استہزایہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا” یہ تو آپ کو پتہ ہی ہے کہ اوویولیشن اور فرٹیلائزیشن کا سیٹیسفیکشن سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک مرتبہ سپرم اپنی منزل پر پہنچنے چاہییں، باقی کام بعد میں ہوتا رہتا ہے”۔ چونکہ دلیل جاندار تھی لہذا دونوں درویش خاموش رہے۔
“لیکن ایک سوال اٹھتا ہے” تیسرے درویش نے اپنی طرف سے ایک جاندار سوال اٹھایا۔ ” اگر وہ جنسی نا آسودگی کا شکار تھی تو اس نے یہ خطرناک رستہ کیوں اپنایا۔ تمھاری جگہ کوئی ایسا بھی تو ہو سکتا تھا جو اس کی دعوت قبول کر لیتا اور میدان میں اُتر آتا؟ وہ سیدھے سادے اپنے شوہر سے کہہ ڈالتی کہ مجھے ایسا پرابلم ہے اور شائد مسئلہ حل ہو ہی جاتا”۔
” وہ اس لئے کہ ” پہلا درویش اب مکمل طور پہ جاگ چکا تھا” ہمارے معاشرے میں ایسی بیوی کو اچھا نہیں سمجھا جاتا جو اپنی جنسی خواہشات کا اظہار اپنے شوہر سے کرے۔ وہ جانتی ہے کہ اگر اس نے اپنے شوہر سے اس بارے میں کچھ بھی کہا تو اس پر ایک گھٹیا عورت کا لیبل لگ جائے گا لہذا وہ خاموشی سے پڑی رہتی ہے۔ اور یہ معاملہ تقریبا ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے”۔
تیسرے درویش نے سر ہلایا” ہاں میں جانتا ہوں ایک شادی شدہ شخص کو جو کہ پرائی عورتوں کے پیچھے جاتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اپنے گھر میں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے انسان مُردے کے ساتھ سویا ہو”۔

دوسرا درویش خاموش ہوچکا تھا۔ اس نے کوئی تبصرہ نہ کیا اور پہلے درویش کی طرف دیکھا جو گولڈ لیف کی ایک اور ڈبیا کھول رہا تھا۔

“یہی تو میں کہہ رہا ہوں” ایک نیا سگریٹ منہ میں رکھنے کے بعد وہ بولا” ہمارا معاشرہ منافقت کا شکار ہے، وہی کام جو کہ وہ جائز طریقے سے کر سکتے ہیں ، ناجائز طریقے سے کئے جا رہے ہیں۔ مردوں کو اپنی بیویوں سے کچھ توقعات ہیں مگر وہ ان کو بتا نہیں پاتے، اور باہر منہ مارتے رہتے ہیں۔ یہی شادی شدہ عورتیں جب بیویاں ہوتی ہیں تو کچھ اور ہوتی ہیں اور جب گرل فرینڈز بنتی ہیں تو کچھ اور۔ منافقت نہیں ہے تو کیا ہے؟ کس کو دھوکہ دے رہے ہیں ہم؟”۔

“رکو ، میرے پاس شائد اس کا جواب ہے” تیسرا درویش بولا ” ایک تھیوری ہے میرے پاس ۔ چاہو تو مانو، چاہو تو نہ مانو۔”
“یہاں پہ دو مختلف مسئلے ایک ساتھ چل رہے ہیں۔ ایک کسی بھی میاں بیوی کا آپسی مسئلہ اور ایک معاشرتی مسئلہ۔ عورت کے دو روپ تم نے تو دکھانے کی کوشش کی، اور شائد اپنی طرف سے ایک دلیل بھی دے ڈالی کہ اس کو ڈر ہوتا ہے کہ اگر اس نے اپنے مرد کو اس بارے میں کوئی مشورہ دیا تو شائد اس پر کوَئی لیبل لگا دیا جائے، مگر کیا تُم نے سوچا کتنے فیصد مرد اس صورت حال کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کتنے فی صد لوگ اپنی بیویوں سے بات کر تے ہیں کہ ان کو اپنی بیویوں سے کیا چاہئے اور ان کی بیویوں کو ان سے کیا توقعات ہیں؟ میرا خیال ہے کوئی نہیں کرتا۔ مرد اپنی انا کے اسیر ہیں، اور عورتیں اپنی ریپپیوٹیشن نہیں خراب کرانا چاہتیں ۔ ایک انجانا خوف ہے کہ اگر کوئی ایسی بات کر بھی دی تو میرے شریک حیات کا جانے کیا رد عمل ہو؟ ایک تو یہ بات ہے”۔
“تم بتاؤ” اس نے دوسرے درویش کو مخاطب کیا ” تم نے کبھی اپنی بیوی سے ایسی بات کی؟ میں جانتا ہوں ایسی بات مجھے نہ کرنی چاہئے مگر یہ صرف ایک دلیل کے طور پر ہے”۔
دوسرا درویش خاموش رہا۔
“دوسرا مسئلہ ان توقعات کا ہے جو ہم ان معاملات میں عورتوں سے وابستہ کر لیتے ہیں اور ان توقعات کی جڑ ہمارے ذرائع ابلاغ ہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ ڈراموں اور سیریلز کی مد میں ہمیں جو کچھ دکھاتے ہیں وہ سب جھوٹ ہوتا ہے، کسی ایک انسان کے ذہن کی اختراع جو کہ پیسہ خرچ کر کے ایک خوش نما انداز میں ہمارے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ اس کا حقیقت سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا یہ تو مانتے ہو نا؟ حتی کہ ڈائجسٹ جو میں پڑھتا ہوں یہ بھی جھوٹ ہے، مگر چونکہ دلچسپ ہے اس لئے دل لگ جاتا ہے”۔

“تو؟” پہلا درویش بولا۔
“تو یہ کہ آپ نے بھی ٹوٹے دیکھے ہوئے ہیں اور آپ جن باتوں کا ذکر کر رہے ہیں وہ آپ نے ان ٹوٹوں سے ہی سیکھی ہیں مگر جس طرح عام ڈراموں کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں اس طرح ان ٹوٹوں کا بھی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ سب دھوکہ ہے، اور ان میں دکھائی جانے والی حرکتیں دیکھ کر، ان کے زیر اثر رہ کر اکثر لوگ بہت سی ایسی توقعات اپنے آس پاس کے لوگوں سے قائم کرلیتے ہیں جو کہ اکثر اوقات نا قابل عمل ہوتی ہیں۔ ان ٹوٹوں کو دیکھ کر اگر آپ یہ سمجھو کہ یہ سب کچھ عام زندگی میں ہونا چاہئے تو شائد ممکن نہ ہو”۔
“مگر وہ عورت” پہلا درویش بول اٹھا ” اس کو کس کھاتے میں آپ ڈالو گے مرشد؟ “۔

“اللہ تعالی نے ہر انسان کو مختلف بنایا ہے ” تیسرا درویش سکون سے بولا” میری اور تمھاری ضروریات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ روز مرہ زندگی کے معمولات کو ہی دیکھ لو، میں کیپسٹن پر بھی گزارہ کر جاتا ہوں جبکہ تم ایک خاص دکان سے ہی گولڈ لیف خرید کر پینے کو ترجیح دو گے۔ اسی طرح شائد اس کی اپنے شوہر سے ایڈجسٹمنٹ نہ ہو پارہی ہو۔ شائد دونوں کی ملازمت کے اوقات ایسے نہ ہوتےہوں کہ ان کو آرام سے بات کر نے کا موقع ملتا ہو، شائد گھر میں اور لوگ بھی رہتے ہوں۔۔ بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں پیارے ۔۔ اب میں اور کیا بتاؤں۔ اسی طرح عورتیں بھی مردوں سے مختلف ہیں، اس بات کا ادراک جتنا جلد ہو جائے اتنا اچھا ہےورنہ یہی ہوگا”۔

“مرد پرائی عورتوں کے پیچھے ” دوسرے درویش نے قہقہہ لگایا اور بولا ” عورتیں ہمارے معصوم مرشد کے پیچھے”۔
پہلا درویش ذرا جھینپا، مگر اس نے لیپ ٹاپ اٹھایا اور فیس بک کھولتے ہوئے بولا ” آ ذرا دیکھیں لوگوں نے کیسی کیسی تصویریں لگائی ہوئی ہیں” ۔

5 thoughts on “قصہ بالغ درویشوں کا”

  1. ارشاد علی

    درویشوں کے آلاتِ حرب (موبائل، لیپ ٹاپ اور ڈائجسٹ) سے اندازہ لگتا ہے کہ وہ اصل دنیا کی بجائے گلوبل ویلیج کے رہائشی تھے۔ یا شائد تخیلاتی دنیا کے۔ زیرِ بحث “درویشنوں” کے خیالات جاننا بھی بہت ضروری ہے، ہوسکتا ہے عوام کی عدالت میں کھڑے ہوتے ہی وہ مبالغہ آرائی کی شکایت کر ڈالے۔
    پہلے درویش کی پاکبازی کی داد دینی پڑیگی کیونکہ ایسا ہی ایک واقعہ قدیم مصر میں کنعان کے ایک چرواہے کے ساتھ بھی ہوا تھا، فرق صرف یہ ہے کہ وہ دو بچوں کی ماں نہیں تھی، اور وہ درویش اِس بات کا اِس طرح کھلے عام اظہار نہیں کر رہا تھا۔
    ہم پر اللہ کا بڑا کرم ہے کہ ہم اُس دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں تصویر کا دوسرا رخ بھی اپنی خواہشات کا اظہار کر سکتا ہے اور اُس پر بد چلنی کا لیبل بھی نہیں لگیگا۔ میرے خیال میں خواتین کو چاہئے کہ نامعلوم مقام سے ہی درویش بن کر ہمارے مرشد منیر عبباسی کے اِس فورم میں آکر اپنے اوپر لگے اِن الزامات کا جواب دے۔ امید ہے کوئی اِس پر ضرور سوچے گی۔

  2. درویش خُراسانی

    اسی طرح کا ایک واقعہ علم میں ہے کہ ایک عورت تھی ،اسکے بچے بھی تھے ۔اسکا شوہر بہت ہی قابل اور عزتدار آدمی تھا لیکنوہ کاروباری آدمی تھا لھذا وہ بچوں کی مان کو سیٹیسفائی نہ کر پاتا، اور بس پھر چڑیا کسی دوسرے گھونسلے میں بہنچ جاتی۔

    بے شمار داستانیں ہیں ایسی

    بیوی کو گھر باندھ کر آدمی دولت کیلئے 4 یا 5 سال تک باہر جاتا ہے، واپسی پر دولت ہوتی ہے لیکن عزت نہیں۔

    اگر ایم میچور کمنٹ لگے تو ڈیلیٹ کرو۔

  3. ’’ٹوٹوں‘‘ کے خلاف لڑنے والی تنظیم (www.pornharms.com)کی تحقیقات بھی یہی کہتی ہیں کہ جو کچھ ان میں دکھایا جاتا ہے وہ حقیقت نہیں ہے اور ان کو دیکھنے والا وہ سب کچھ اپنے بستر پر بھی دیکھنا چاہتا ہے اور اپنی بے جا،غیرحقیقی توقعات کو بہت بڑھا لیتا ہے اور ایسی توقعات پوری نہ ہونے کی وجہ سے تعلقات میں فرق پڑتا ہے۔ ایک دوسرا اثر جو ان کو دیکھنے سے ہوتا ہے وہ ’’بے حسی ‘‘ہے ۔ جس طرح آپ ایک نیا پرفیوم استعمال کرتے ہیں تو اس کی خوشبو کچھ دن تک تو آپ کو محسوس ہوتی ہے پھر اس کا احساس ختم ہو جاتا ہے۔

    اللہ تعالی ہم سب کو ہر قسم کی برائی اور گناہ سے محفوظ رکھیں۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں