Skip to content

قتل مرتد اور فریق ثانی کا مؤقف

جب میں دوبارہ اُس مجلس میں پہنچا تو میں نے اعلان کیا کہ میں نے قتل مرتد بارے وہ مضمون اپنے بلاگ پر اپنے قارئین کے لئے شائع کر دیا ہے جس میں قتل مرتد کے خلاف قرآن کی آیات سے استنباط کئے گئے دلائل شامل تھے۔ اس پر مجھے ڈاکٹر پروفیسر حافظ دین محمد قاسمی کی کتاب ” عقوبات قرآن اور مفکر قرآن جناب غلام احمد پرویز” دی گئی اور ہدایت کی گئی کہ اس کا باب چہارم اب جواب الجواب کے طور پر اپنے بلاگ پر شائع کرنا ہے کہ اس باب میں غلام احمد پرویز کے دلائل کا مدلل جواب دینے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ میں نے سر تسلیم خم کیا اور کتاب اٹھا لی۔ کتاب کا متذکرہ بالا باب میں نے ایک دو مرتبہ پڑھا اور پھر میرے ذہن میں کچھ سوالات اٹھے جو میں نے اُس وقت پوچھے بھی۔ بہر حال ۔۔ ڈاکٹر قاسمی صاحب نے اپنے تئیں کوشش تو اچھی کی کہ غلام احمد پرویز صاحب کے اعتراضات کا جواب دیا جائے۔ انھوں نے ایک علمی قسم کا رد پیش کیا مگر میں مطمئن نہ تھا۔ میرے مطمئن ہونے نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ جمہور علماء کا جو مؤقف ہے وہ درست ہی ہوگا۔

قاسمی صاحب نے اوائل اسلام کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا اور خلفائے راشدین کے طرز عمل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مرتد کا قتل جائز ہے۔ ان ہستیوں کے سامنے میرے فہم دین کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان میں سے اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین تو عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔ اگر انھوں نے اپنی زندگی میں مرتدین اسلام کو قتل کرایا اور کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا تو ہم کون ہوتے ہیں اس پر اعتراض کرنے والے۔

البتہ ایک بات جو مجھے بُری طرح کھٹکی وہ یہ کہ اس تحریر میں جا بجا غلام احمد پرویز صاحب کی کلاس لی گئی۔ اور ظاہر ہے پرویز صاحب کوئی جید عالم تو تھے نہیں۔ انھوں نے اپنے طور پر ایک رائے پیش کی ، ضروری تو نہیں کہ وہ رائے درست ہو۔ اور ضروری تو نہیں کہ اس رائے سے لوگوں کا اتفاق بھی ہو۔ کلاس لینا ضروری تو نہیں۔ اگر اسی طرح ہر ایک کی کلاس لی جاتی رہی تو پھر ہو گئی بحث ۔ بہر حال ، اس “کلاس ” سے قطع نظر قاسمی صاحب جو بات گول کر گئے وہ قرآن مجید کی اُن ایات پر بحث تھی جو مخالفینِ قتل مرتدین اپنے دعویٰ کے ثبوت میں قرآن سے پیش کرتے ہیں۔ مثلا صفحہ 85 پر قاسمی صاحب کہتے ہیں کہ ” قتل مرتد کے خلاف، ان آیات سے استدلال کیا جاتا ہے، جو اس سزا کے نفاذ سے قبل نازل ہوئی تھیں اور جن میں صرف اخروی سزا مذکور ہے ” اور اس کے بعد انھوں نے مختلف آیات اور ان کا ترجمہ پیش کیا ہے جن میں سورۃ آل عمران کی آیات 85 تا 86 اور ایت 89 اور آیت 90 شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سورۃ النساء کی آیت 137 اور اس کا ترجمہ اور سورۃ النحل کی ایک آیت اور اس کا ترجمہ بھی پیش کیا گیا ہے۔

قاسمی صاحب کہہ تو جاتے ہیں کہ سزا کے نفاذ سے قبل یہ آیات نازل ہوئی تھی۔ مگر وہ بعد میں پورے مضمون میں یہ بات نہیں بتا پاتے کہ سزا کے نفاذ کا حکم کن ایات میں دیا گیا تھا اور وہ کب نازل ہوئی تھیں۔ یہ ایک بہت اہم نکتہ ہے۔ اگر واقعی ایسی کوئی آیت ہوتی تو اس کو سامنے لا کر لوہے کو لوہے سے کاٹ ڈالا جاتا۔
غلام احمد پرویز ہی کے قرآنی دعوٰے کو قرآنی آیت سے باطل قرار دے دیا جاتا۔ آسان سی بات تھی۔ مگر پورے مضمون میں ایسا نہیں ہوا بلکہ ڈاکٹر قاسمی صاحب نے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور خلفا کے طرز عمل سے بات ثابت کی کہ مرتد کا قتل جائز ہے۔ گویا اس مضمون سے یہ تاثر ابھرا کہ بے شک ان آیات میں مرتد کی دنیوی سزا کا زکر نہیں ہے، مگر بعد میں یہ حکم دیا گیا تھا۔ اب دل چسپ نکتہ تو یہ سامنے اتا ہے کہ وہ حکم جو منسوخ ہوا وہ تو اس دعوٰے کے مطابق قرآن میں موجود ہے، مگر ناسخ موجود نہیں۔

نعوذ باللہ میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ میں یہ ثابت کروں کہ یہ سب کام کلام اللہ میں بیان کئے گئے احکام کی مخالفت میں ہوئے۔ استغفراللہ ربی من ذالک۔ مگر یہ بات میرے جیسے طالب علم کے لئے جاننا ضروری ہے کہ آخر وہ کونسی دلیل تھی جس کو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین نے سامنے رکھا۔ اللہ ان پاک ہستیوں کو اپنے انعامات سے نوازے اور ان کے درجات بلند کرے۔

قاسمی صاحب یہ بات بھی واضح نہیں کرتے کہ اگر ان آیات سے غلام احمد پرویز وغیرہ کا استدلال غلط ہے تو پھر ان آیات کا مقصد کیا ہے؟ ان آیات کے سیاق و سباق میں کیا واقعات شامل ہیں اور اگر یہ ایات مرتدین کے بارے میں نہیں ہیں تو پھر کن کے بارے میں ہیں؟؟ اس بارے میں پورا مضمون بالکل خاموش ہے اور ان آیات کی تشریح کے سلسلے میں کسی بھی تفسیر سے کسی قسم کا کوئی استفادہ نہیں کیا گیا۔ جبکہ ایک اور مقام پر موسیٰ علیہ السلام کے ایک فعل کی تشریح کے لئے وہ کئی تراجم کا متن شامل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

سورۃ آل عمران کی آیت 85 تا 91 کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے۔

85. اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگاo

86. اﷲ ان لوگوں کو کیونکر ہدایت فرمائے جو ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے حالانکہ وہ اس امر کی گواہی دے چکے تھے کہ یہ رسول سچا ہے اور ان کے پاس واضح نشانیاں بھی آچکی تھیں، اور اﷲ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتاo

87. ایسے لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر اﷲ کی اور فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت پڑتی رہےo

88. وہ اس پھٹکار میں ہمیشہ (گرفتار) رہیں گے اور ان سے اس عذاب میں کمی نہیں کی جائے گی اور نہ انہیں مہلت دی جائے گےo

89. سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے بعد توبہ کر لی اور (اپنی) اصلاح کر لی، تو بیشک اﷲ بڑا بخشنے والا مہربان ہےo

90. بیشک جن لوگوں نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا پھر وہ کفر میں بڑھتے گئے ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گے، اور وہی لوگ گمراہ ہیںo

91. بیشک جو لوگ کافر ہوئے اور حالتِ کفر میں ہی مر گئے سو ان میں سے کوئی شخص اگر زمین بھر سونا بھی (اپنی نجات کے لئے) معاوضہ میں دینا چاہے تو اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، انہی لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہو سکے گا۔

یہ ترجمہ اس ربط سے کاپی کیا گیا۔

بہر حال یہ ایک پیچیدہ بحث ہے۔ یقینا کوئی شقی القلب بدقسمت انسان ہی ہوگا جو دین اسلام کو چھور کر گمراہی کے رستے کا انتخاب کرے گا۔
آپ ڈاکٹر پروفیسر حافظ دین محمد قاسمی صاحب کا تفصیلی جواب زیل میں مطالعہ کر سکتے ہیں۔

مجھے امید ہے اس بحث کا کوئی نتیجہ سامنے آئے گا اور یہ بحث حسب معمول کفر کے فتووں پر منتج نہ ہوگی۔

والسلام۔

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں