Skip to content

قانون اور جوتے کی نوک.

قانون اور جوتے کی نوک.

قریبی شہروں میں کریمین کانگو ہیمرجیک بخار اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات کے بارے میں آج علم ہوا۔ آج میں نے پورا دن کچھ نہیں پڑھا۔ گھر کے کام جو کہ کچھ کل سے آج پر چھوڑے تھے، وہ کرنے تھے اور شائد آرام بھی کرنا تھا۔
میرا سٹڈی پارٹنر کل رات ہی ایک سیکنڈ کے فیصلے کی بنیاد پر گھر بھاگ چکا تھا۔ اور آج کچھ کرنے کو بھی نہ تھا۔ لہذا سوچا پڑھائی سے چھٹی۔ ابو نے گندم چکی پر لے جانے کو کہا تو میں نے صاف کی ہوئی گندم گاڑی میں رکھی اور چکی چلا گیا۔ ڈیزل انجن سے چلنے والی اس چکی کی واحد خصویصیت جو اسے دوسری ایسی دکانوں سے ممتاز کرتی تھی وہ اس کا بجلی کی موجودگی پر انحصار نہ کرنا تھا ، اور اسی خوبی کی وجہ سے ہم آج تک اس دکان کو ہی ترجیح دیتے چلے آئے ہیں۔

اس چکی کے پاس حکومت کی طرف سے مقرر ایک مذبح خانہ بھی ہے۔ جب میں وہاں کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا تو ایک عدد سوزوکی پک اپ آئی اور اس میں سے دس یا اس سے کم مینڈھے یا بھیڑیں اتاری گئیں اور ایک طرف بنے دروازے کے ذریعے جس پر حکومت مہر نہیں لگی تھی، مذبح خانے کے اندر لے جائی گئیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ بات اس وقت کچھ عجیب سی لگی۔ میرے پاس کیمرے والا موبائل بھی تھا، تصویر اس لئے نہ لے سکتا تھا کہ معمول کی بات تھی، مذبح خانے میں جانور نہ لے جائے جائیں گے تو کیا انسانوں کو لے جایا جائے گا؟ اور پھر اس وقت میں ایک مریض کے رشتہ دار سے بھی بات کر رہا تھا۔ اس مریض کا کل آپریشن ہوا تھا اور چونکہ میں آپریشن کے بعد عیادت کو نہ جا سکا تھا اس لئے فون پر خیریت پوچھنا مناسب سمجھا۔ بہر حال جب انتظار کچھ طویل ہوا تو میں مذبح خانے کی طرف چلا گیا کہ دیکھوں کتنے جانوروں کا کام “تمام” ہوا۔ مگر ایک حیرت کا جھٹکا اس وقت لگا جب مذبح خانے کے سامنے والے دروازے پر ایک عدد نوٹس چپکا دیکھا کہ بحکم سرکار، تا حکم ثانی یہ مذبح خانہ بند رہے گا۔ تب یاد آیا کہ ضلع ایبٹ اباد کی حدود میں جمعرات کے دن تک تمام جانوروں کی قربانی پر پابندی لگادی گئی ہے۔ اور اس کی وجہ کریمین کانگو ہیمرجیک بخار ہے۔ خیال آیا کہ کاش میں جانوروں کی تصویر لے ہی لیتا ۔ مگر اس وقت فون پر بات چیت کو روکنا مناسب بھی نہ تھا۔ اور مجھے اندازہ نہ تھا کہ صورت حال اس قدر پیچیدہ ہوگی۔ بہر حال اپنے آپ کو کوستا واپس چلا آیا۔ ؎اس کے بعد میں جتنی دیر وہاں رہا میری توجہ مذبح خانے کی طرف رہی مگر میں کسی قسم کی سرگرمی کو محسوس نہ کر سکا۔ مینڈھوں کی تازہ تازہ گری میگنیا ں اس دروازے تک جا رہی تھیں جہاں ایک تالا تو لگا ہوا تھا، مگر اس پر حکومتی سیل نہیں لگی ہوئی تھی۔ شائد حکومتی اہلکار سامنے والا تالا ہی سربمہر کر کے مطمئن تھے کہ اب قانون نافذ ہو چکا ہے۔

1 thought on “قانون اور جوتے کی نوک.”

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں