Skip to content

فتویٰ

روز روز غیر معیاری کھانا کھانا کسے پسند تھا، مگر وہ لوگ تعلیم کی خاطر آئے ہو ئے تھے اور مقصد اتنا عظیم تھا کہ اس کی خاطر دنیاوی تکالیف برداشت کرنا معمولی سی بات تھی۔ کھانے میں جو سالن ملتا وہ اکثر پانی پر مشتمل ہوتا اور اس میں جو سبزی یا دال پکائی گئی ہوتی ، اس کے چند چھوٹے حصے بطور نمونہ تیر رہے ہوتے۔

صبر کی بھی آخر ایک حد ہوتی ہے، ایک دن تنگ آکر دو طالب علم دال کی پلیٹ لے  کر درس گاہ کے منتظم کے پاس جا پہنچے۔

اجازت لینے کے بعد ایک طالب علم یوں گویا ہوا، ’ جناب میں اور میرا دوست ایک مسئلے پر الجھ گئے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ آپ اپنی شفقت سے اس مسئلہ کاحل نکال لیں گے۔ وہ مسئلہ یہ ہے کہ میں کہتا ہوں کہ اس سالن کے پانی سے وضو ہو سکتا ہے،  میری دلیل یہ ہے کہ یہ پانی بہت سیال ہے، آرام سے بہ جاتا ہے، اور اس میں کسی قسم کی آلائش نظر نہیں آتی، پانی بد ذائقہ بھی نہیں ہے اور اگر اس میں کچھ نظر آتا ہے تو وہ اتناہی ہے جتنا کہ چشمے کے بہتے ہوئے پانی میں۔  جبکہ میرا دوست یہ کہتا ہے کہ نہیں، اس پانی سے وضو نہیں ہو سکتا ، کیونکہ یہ پانی استعمال ہو چکا ہے، اس میں غلے کی آمیزش ہو چکی ہے جس کا ثبوت دال کے چند تیرتے ہوئے دانے ہیں اور اس کا ذائقہ عام پانی سے مختلف ہے، گرچہ تھوڑا ہی سہی، مگر مختلف ہے، پھر اس کا رنگ بھی کافی تبدیل ہو چکا ہے۔

حضرت اب آپ تصفیہ فرمائیں اور ہمیں بتائیں کہ پلیٹ کے اس پانی سے وضو ہو سکتا ہے کہ نہیں۔‘

منتظم صاحب، جو کہ اپنی زندگی میں اس علاقے میں اخون صاحب کے نام سے جانے جاتے تھے، نے فورا صورت حال بھانپ لی، اور دونوں کو ذرا بہتر کھانا مہیا کر دیا گیا۔ انھوں نے لنگر والوں کو ہدایت کی کہ کھانے کے معیار کو بہتر بنائیں۔  اس کے بعد طالب علموں کے ساتھ کیا ہوا، راوی خاموش ہے۔

پشتو میں جو مشہور ہے اس کے مطابق اخون  صاحب نے لنگر والوں کو کہا کہ ذرا ایک مٹھی  دال اور ڈال دیا کرو نا۔

یہ واقعہ میرے والد صاحب نے کافی مرتبہ مجھے سنایا ہےأ طالب علموں کا تو پتہ نہیں، مگر والدصاحب بتاتے ہیں کہ یہ اخون صاحب ، در اصل اخوند عبدالغفور تھے جو کہ والی سوات میاں گل کے دادا تھے۔

ان سے بات پیری مریدی  سے شروع ہوئی تھی اورانھوں نے یہ واقعہ دوبارہ تازہ کر ڈالا۔ پہلے تو ہنسی کا کوئی سبب مل جاتا تھا اس واقعے میں مگر  جب سے ادھر ادھر سے پڑھنا شروع کیا تو احساس ہوا کہ یہ ایک ایسا طرز عمل ہے جو صرف مدرسوں تک محدود نہیں۔ دنیا کے ہر معاشرے میں فلاحی یا اجتماعی نوعیت کے اداروں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ مثلا چارلس ڈکنز کا ناول آلیور ٹوئسٹ لے لیں یا ایک اور کہانی جو ہم نے اپنی چھٹی جماعت میں پڑھی تھی، نکولس نکلبائی کے نام سے۔ ان سب میں ایک بات مشترک تھی کہ بچے جن کا پوچھنے والا کوئی نہیں تھا، استحصال کا شکار تھے۔ بے شک یہ کردار جن کا میں نے ذکر کیا افسانوی کردار تھے ، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ادیب اپنے معاشرے سے متأثر ہو کر ہی لکھتا ہے

مغرب میں شائد یہ بات اب نہ ہو، یا انھوں نے اپنے معاشرے کے اس ناسور پر پردہ ڈالنا سیکھ لیا ہو، مگر ہمارے معاشرے میں یہ بات بہت عام ہے، اور اس بات کاتکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ جن کا استحصال ہوتا ہے، انھی کے نام پر امداد مانگی جاتی ہے۔استثنائی حالتوں کے سوا، اکثر وہ لوگ جو کوئی ایک فلاحی ادارہ بناتے ہیں، کچھ عرصے بعد مالدار ہو جاتے ہیں۔ اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثریت یہ استحصال مذہب کے نام پر کر رہی ہے۔ چاہے یہ مذہبی رسومات ہوں ، مذہبی تہوار ہوں یا مذہب سکھانے کا معاملہ ہو یہ استحصال جاری ہے اور ہم عوام کو ایسے جکڑا گیا ہے، ہمیں اتنا ڈرایا گیا ہے منافقیں کےعذاب سے کہ ہم یہ پوچھنے کی جرأت نہیں کر سکتے کہ بھائی ہماری محنت کس ٹھکانے لگی؟ ہمارے پیسے کا کیا ہوا اور ہمارے بچوں کا کیا ہو رہا ہے جنھیں تم پڑھا رہے ہو۔  ایک خاص حلیے کا شخص اگر کوئی عجیب  بات کر دے تو ہم اس سے پوچھنے کی ہمت نہیں کر سکتے کہ شائدسوال پوچھنے پر  ہم دائرہ اسلام سے خارج ہو جائیں۔

11 thoughts on “فتویٰ”

  1. بھائی بالکل ٹھیک کہا آپ نے۔ اس طرح کے اداروں‌ میں بچوں کا حال کم وبیش ایسا ہی ہوتا ہے۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ لوگ کیسے اللہ کے نام لے کر اللہ کے کام کے لئے عطیات جمع کرتے ہیں اور پھر اُس کا حق ادا نہیں کرتے۔ حالانکہ یہ بڑی کڑی ذمہ داری ہے۔

    اگرچہ ہم لوگ تو اپنے ایمان کے جانے کے خوف سے ان حضرات سے سوال و جواب سے گریز کرتے ہیں پھر بھی کوئی نہ کوئی طریقہ تو احتساب کا ہونا چاہیے۔

  2. محمد احمد:
    اگرچہ ہم لوگ تو اپنے ایمان کے جانے کے خوف سے ان حضرات سے سوال و جواب سے گریز کرتے ہیں پھر بھی کوئی نہ کوئی طریقہ تو احتساب کا ہونا چاہیے۔

    ماضی میں ایسی کئی کوششیں ہوئی ہیں، مگر ہر دفعہ ان کوششوں پر سامراجیت کے زیر اثر ہونے یا اسی طرح کے دوسرے الزام لگا کر ان کوششوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اپنے ذاتی معاملات پر دین کا لیبل لگا کر ہمیں دھوکہ دیا جاتا ہے۔

  3. کیا پروگرام ہے جی ڈاکٹر صاحب آپ کا؟
    فتوی شتوی لگوانا ہے خود پر؟
    کہ منیر عباسی دائرہ اسلام سے چار فٹ باہر ہوگیا ہے؟؟؟
    اکثریت کا چلن وہی ہے جو آپ نے بیان کیا ہے، کچھ مستثنیات بھی ہیں لیکن آپ تو جانتے ہی ہیں کہ
    exception proves the rule
    پی ایس: آپ کا بلاگ اردو سیارہ پر ظاہر نہیں ہورہا۔۔۔ میرا بھی نہیں ہورہا۔۔۔ کہیں ہم بین تو نہیں ہوگئے؟؟؟؟؟

  4. جناب میں نے اردو سیارہ پر اپنا فارم دوبارہ بھر کر تو دیا تھا، شائد انھوں نے اس پر نظر نہیں کی۔
    دیکھیں کیا ہوا ہے۔

    پہلے ان کا مؤقف جان لوں پھر فیصلہ کروں گا کہ بیں ہوا ہوں یا اب مجھے باقا عدہ بین کرنا پڑے گا۔۔

    🙁

  5. بہت خوب تحریر ہے۔ دراصل جاہلوں یا کم تعلیم یافتہ لوگوں کو ایسے ہی مذہب کے نام پر پھانسا جاتا ہے۔ قرون وسطی میں پاپائیت کے شکنجے میں یورپ بھی اسی طرح گرفتار تھا۔
    افسوس کا مقام یہ ہے کہ وہ مذہب جو مردوں اور عورتوں پر یکساں تعلیم فرض قرار دیتا ہے اس کے پیروکار اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ناخواندہ ہیں۔
    البتہ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہم مذہب کو یورپ کی طرح اپنی سیاست اور زندگی سے نکال باہر کریں۔ اس مسئلے کا حل اس میں ہے کہ اسلام کو پاپائیت یعنی ملائیت کی قید سے آزاد کرایا جائے۔

  6. آپ کے کئی بلاگز اچانک سیارہ پر ظاہر ہوئے اس لیے دیر آید کی معذرت۔
    کلی اتفاق کہ کچھ چیزوں کو وقت کے ساتھ ساتھ شجر ممنوعہ کا درجہ دے دیا گیا ہے حالانکہ کئی برائیوں کا منبع وہی شجر اور اسکی جڑیں ہیں۔۔ جڑیں اکھاڑنا تو دور کی بات اگر آپ نے کچھ پتوں کی تراش خراش کی بات کی تو بھی آپ اچانک دنیا کی بہت ساری ایجنسیوں کے ملازم بن جاتے ہیں۔۔

  7. سب مدارس میں ایسے نہیں ہوتا ہو سکتا ہے دور دراز کے کسی پنڈ میں ایسا ہوتا ہو کراچی لاہور اور دیگر بڑے شہروں کے مدارس میں‌ ہزاروں طلبا پڑھ رہے ہیں خود میرے اپنے کچھ دوست مدارس میں‌ پڑھتے ہیں اور کچھ فارغ التحصیل ہیں ۔۔۔ کسی سے بھی ایسی کوی شکایت نہیں سنی بلکہ وہ اپنے مدارس کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے ۔۔۔۔ کسی نے کہا کہ ایسے لوگوں‌ سے پوچھتے بھی ڈر لگتا ہے ۔۔۔ یہ بھی غلط مفتی زرولی خاں صاھب کراچی جامعہ دارلعلوم کراچی جو کہ گلش اقبال میں ہے شاید ۔۔۔ خود ان سے میں‌نے کل تفسیر کے درمیان سنا کہ لاکھوں کے حساب سے خرچا صرف آٹے پر آتا ہے اور وہ کہہ رہے تھے کہ ہم (مروت) میں کسی کو نہیں بتاتے ورنہ مسلہ بہت ہے (یعنی پیسے کی کمی) کبھی آپ مدارس جائیں اور ان سے حساب کتاب وغیرہ پوچھیں‌۔۔۔۔ ویسے بھی سوال یہ ہے کہ مدارس کا زریعہ معاش تو کوی ہوتا ہے نہیں‌ہے ۔۔۔ اول تو وہ چندہ لینے گھر گھر جاتے نہیں ۔۔۔ اگر جائیں‌بھی تو آپ جیسے لوگ بھی اس پر پتا نہیں کیا کیا لکھنا شروع کر دیں گے ۔۔۔۔ میرے خیال سے دادا اور ابو کی کہانیوں کی بجاے خود مدارس کے لوگوں سے معلومات حاصل کریں ۔۔۔۔ مفتی صاحب سے اگر میری بات کی تصدیق کرنی ہو تو جامعہ احسن العلوم لکھ کر گوگل کریں اس کی سائیٹ نکل جاے گی فون نمبر نکال کر کال ملا لیں‌۔۔۔۔۔

  8. منیر عباسی

    انکل ٹام بہت شکریہ اس مراسلے کا۔ آپ کے جذبے کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ اب مدارس کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والے بھی انٹرنیٹ استعمال کرنے لگے ہیں۔

    مگر میں کیا کروں کہ شاہ فیصل کالونی کراچی کے ایک بڑے مدرسے میں میرا اپنا مشاہدہ یہ تھا کہ کھانا پکنے کے بعد ایک استاد صاحب آئے اور انھوں نے کھانے کی کوالٹی چیک کی۔ ان کے کمرے میں کھانا بھجوانے کو فورا بعد 16 کلو گھی والے دو کنستر پانی سے بھر کے سالن کی دیگ میں ڈال دئیے گئے۔ اور اس کے بعد طلبا ء کا کھانا شروع کر دیا گیا۔

    اب آپ کیا کہیں گے؟

  9. جب ایک خاص طبقے کی کسی شعبیہ زندگی پر اجارہ داری ہو جائے تو وہ اکاونٹےبیلیٹی سے تو بالاتر ہو جاتے ہیں ۔ مگر یہ قصورکس کا ہے۔۔۔ عام مسلمانوں کا، جو اسلام کے بنیادی احکامات اور مسائل کیلئے بھی مولوی صاحب کے ارشاد کے محتاج ہیں ۔ جس کی وجہ سے ملا حضرات بھی عام مسلامانوں سے متنفر ہو جاتے ہیں‌ ، اور ان کو منافق گردانتے ہوے حقارت سے دیکھتے ہیں ۔ اور اسکو میں ملا کی خراب نیت نہیں کہوں گا۔ یہ انسانی فطرت ہے۔ جب ایک آدمی دیکھتا ہے کہ وہ لوگوں کی ضرورت بن گیا ہے تو پھر ایسا سمجھنا شروع ہو جاتا ہے کہ جیسے دوسروں کے کام آ کر ان پہ احسان کر رہا ہو۔(اس طرح کی مثالیں تو معاشرے میں عام ہیں(/ خاص کر جب اس کام کا اسے کچھ صلہ بھی نہیں ملتا۔ وکیل اور ڈاکتر تو مشورے کی فیس لے لیتے ہیں ، مولوی نزرانہ بھی مانگے گا تو کتنا۔ نتیجہ : عوام سے دوری اور حقارت ۔ اور جب وہ اپنے آپ کو علیحدہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں تو نفرت پیدا ہوتی ہے۔ اور اس نفرت کا اظہار کرنے کیلے وہ اسلام کا سہارا لیتے ہیں، کیونکہ ملا سے تو آدمی جھگڑا کر لے، کسی کی اتنی ہمت کہاں کہ اللہ سے کرے/ ایک بڑی روشن مثال : طالبان

    ضرورت اس امر کی ہے ، کہ سب مسلمان دین کا علم سیکھیں اور ہر چھوٹی چھوٹی بات پر دوڑتے ہوئے مولوی کے پاس نہ جائیں اور دوسرا یہ کہ ان کو باور کروایا جائے کہ حضرت میں بھی مسلمان ہوں ۔

    میرے 2 آنے ۔

  10. ایک اور بات : میں نے آپ کو ٹیگ کیا ہے ، آپ چل کر میرے بلاگ پر دیکھ سکتے ہیں ۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں