Skip to content

فان لم تفعلو ولن تفعلو

بشکریہ ابو نجمہ سعید صاحب:

تین چار دنوں سے گرمی اپنے شباب پر تھی اور حبس وہ تھا کہ لو کی دعا مانگ رھے تھے لوگ ۔آج فجر کے بعد بارش شروع ہوئی اور میں بارش سے لطف اندوز ہونے کیلئے چھت پر چلا آیا۔ میں تو باہر آیا ہی میرے ساتھ مینڈک بھی باہر چلے آئے اور لگے ٹر ٹرانے ۔ ان کا ٹر ٹرانا ہماری کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ ہم نے نیٹ کھولا اور سیارہ پر چلے آئے یہاں بھی ایک میڈنک کو ٹر ٹراتے ہوئے دیکھا یہ ٹر ٹرا ہٹ بھی ہماری کچھ سمجھ نہ آئی اس لئے ہم بھی ٹر ٹرانے لگے۔ آئیے دونوں کی ٹرٹراہٹ سے لطف کی واٹ لگ وائیے

ابن الرواندی قرآن پر کہتے ہیں: ” اس میں کوئی ممانعت نہیں کہ فصاحت میں عرب کا کوئی قبیلہ دیگر قبائل سے بڑھ کر ہو، اور اس قبیلے کا کوئی ایک گروہ باقی قبیلے سے زیادہ فصاحت رکھتا ہو، اور اس گروہ میں کوئی ایک شخص باقیوں سے زیادہ فصیح ہو… اب فرض کریں کہ اس کی فصاحت کی شہرت سارے عرب میں پھیل گئی تو عجم پر اس کا کیا حکم ہے جو زبان نہیں جانتے اور ان پر اس کی کیا حجت ہے؟!

عجم پر ہی نہیں ابن الراوندی صاحب یہ عربوں پر بھی حجت تھا اور ہے،بلکہ عربوں پر پہلے حجت ہے اور صرف آج کے عربوں پر نہیں ، نزول قرآن کے وقت جزیر ۃ العرب میں بسنے والے عربوں پر بھی حجت تھا جن کا بچہ بچہ شاعری کر رہا تھا اور فصاحت و بلاغت میں اپنی مثال آپ تھا جن کا آج کے عربوں سے کوئی مقابلہ نہیں۔ آپ نے قرآن کے اس چیلنج کو صرف عجموں کے ساتھ کیوں خاص کیا ؟

ابن الرواندی آگے لکھتے ہیں: ” تمہارا دعوی ہے کہ معجزہ قائم اور موجود ہے جو کہ قرآن ہے، اور کہتے ہو کہ ” جسے انکار ہو وہ اس کے جیسا لاکر دکھائے ” تو اگر تم برتر کلام چاہتے ہو تو ہم بلغاء، فصحاء اور شعراء کے کلام سے اس کے جیسا ہزار لا سکتے ہیں جس کے الفاظ اس سے زیادہ رواں، معانی میں بے تحاشا مختصر، ادائیگی اور عبارت میں بلیغ اور تناسق میں باکمال ہوگا،

تو لاؤ نا ں ایسا کلام رواندی کے بیٹےاور قصہ ختم کرو! ہم بھی لا سکتے ہیں ہم بھی لا سکتے ہیں کی گردان کرنے کی کیا ضرورت ہے؟یہی جواب نزول قرآن کے وقت کے جہان دیدہ ، مہذب و متمدن ملکوں کی سیر کئے ہوئے روشن خیال نضر بن حارث نے بھی اپنی جماعت کے ساتھ دیا تھا جس کو قرآن نے نقل کیا ہے:و اذا تتلی علیہم آیاتنا قالو قد سمعنا لو نشاء لقلنا مثل ہذا ان ہذا الا اساطیر الاولین:جب انکے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہنے لگتے ہیں:بس ہم نے سن لیا، ہم چاہیں تو اس کے جیسا ہم بھی کہہ لائیں، یہ ہیں کیا سوائے اگلوں کی کہانیوں کے؟۔۔۔

نضر بن حارث بھی یونہی لولی پاپ دیتا دیتا مر گیا اب رواندی کا بیٹا بھی یہی لولی پاپ دے رہا ہے اور جو کرنے کا کام ہے وہ کر نہیں رہا۔

تو اگر تمہیں یہ منظور نہیں تو ہم تم سے وہی مطالبہ کرتے ہیں جو تم ہم سے کرتے ہو

یہ الزامی سوالات کرنے کی ضرورت نہیں۔ بس قرآن کے جیسا کلام پیش کرو اور قصہ ختم کرو۔ سامنے والا خود ہی ہار جائے گا۔ اسکی ہار آپ کے اس الزامی سوال کے جواب پر موقوف نہیں ہے۔

خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے

یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں

ابن الرواندی کی بات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ہر متن اور مصنف کا اپنا ایک اسلوبی پہلو ہوتا ہے جو اسے باقی لکھاریوں اور تخلیق کاروں سے ممتاز کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر شاعر یا مصنف کا اپنا ایک انداز ہوتا ہے جس کی نقل کرنا تقریباً نا ممکن ہوتا ہے،

تقریبا ناممکن ہوتا ہے سرے سے تو ناممکن نہیں ہوتا۔ اسی لئے فنکار اپنی کاوش کو لیکر غیرت کو للکارنے والا ایسا دعوی نہیں کرتا جیسا قرآن نے کیا ہے ۔ فان لم تفعلو ولن تفعلو: پس اگر تم ایسا نہ کرسکو اور تم ایسا کر بھی نہیں سکتے۔ حضور ﷺ کے مخالفین کی آپ سے دشمنی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی انہوں نے تلوار اٹھانے سے لیکر لڑکیوں کی پیش کش تک سارے کام کر ڈالے۔ بس نہیں کیا تو یہی کام نہیں کیا کہ ایک سورت کا مثل بنا کر لے آتے اور حضور ﷺ کو لاجواب کر دیتے باوجودیکہ انکی اور حضور ﷺ کی فصاحت و بلاغت میں اٹھارہ بیس کا ہی فرق تھا جبکہ آج تو کوئی مناسبت ہے ہی نہیں۔

میں کہتا ہوں کہ بلاگستان اردو میں بعض بہت اچھا اور اعلی پیمانہ کا لکھنے والے ہیں کہ انکی کاپی کرنا تقریبا ناممکن ہے، لیکن کیا وہ اپنے معاصرین بلاگروں کو اور قیامت تک آنے والے بلاگروں کو قرآن کا سا غیرت کو للکارنے والا چیلنج کرسکتے ہیں کہ ہماری پوسٹس میں سے چھوٹی سےچھوٹی کسی ایک پوسٹ کی نقل کر کے دکھاؤ، قیامت تک کوئی بلاگر ہماری پوسٹ کا مثل بنا کر نہیں لا سکتا۔

وہ ( ابو بکر رازی)مزید لکھتے ہیں: ” ہم اس سے بہتر شعر، بلیغ خطبے اور خوبصورت رسائل لا سکتے ہیں جو اس سے زیادہ فصیح اور باکمال ہوں گے،

یہاں بھی وہی بات نکالو ناں ان بہترین اشعار بلیغ خطبوں اور خوبصورت رسائل کو اور دنیا کے سامنے پیش کرو۔ انتظار کرتے کرتے ہماری ہڈیاں بوڑھی ہوگئیں اور نہ نضر بن حارث نے پیش کیا اور نہ آپ پیش کر رہے ہیں، خالی دھمکیاں دیتے چلے جارہے ہیں کہ ہم بھی کر سکتے ہیں ہم بھی کر سکتے ہیں۔ بھائی کرو گے کس دن؟

جلدی پیش کرو کہ زمانہ قیامت کی چال چل گیا

قرآنی معجزے کا تعلق دو معاملات سے رہا، ایک نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ان پڑھ ہونا اور دوسرا اسے تقدس کی چادر میں لپیٹ کر ایک اعلی فنی قیمت دینے کی کوشش کرنا تاہم امیت کا مسئلہ زیادہ اہم رہا کیونکہ اسے متن کی قدر یا ویلیو بڑھانے کے لیے ” استعمال ” کیا گیا تاکہ اسے انسانی تصنیف نہ کہا جائے تاہم اس زمانے میں امیت کا مطلب ان پڑھ ہونا نہیں تھا اور نا ہی ان پڑھ ہونا کوئی معجزے کی علامت ہے، بلکہ اس کے برعکس پڑھنا لکھنا بلیغ کلام کہنے کے لیے کوئی شرط نہیں ہے کیونکہ بلیغ باتیں پڑھنے لکھنے سے مشروط نہیں ہیں،

ٹھیک ہے جی کہ بلیغ باتیں پڑھنے لکنے سے مشروط نہیں ہیں لیکن قرآن متعدد آیات میں لوگوں کے دلوں میں چھپی ہوئی باتوں کی اطلاع دیتا ہے جنکو انہوں نے کسی کے سامنے ظاہر نہیں کیا ہوتا مثلا: اذ ہمت طائفتان منکم ان تفشلا ، اور :یقولون فی انفسہم لو لا یعذبنا اللہ بما نقول۔ اور ظاہر ہوجانے کے بعد متعلقہ لوگوں نے اس کا اظہار بھی کیا۔ انہی چھپی ہوئی باتوں کی اطلاع دینے کی وجہ سے بعض لوگوں نے حضور ﷺ کی منشاء کے خلاف کام کر نے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ اگر ہم یہ کام کریں گے تو محمد ﷺ کا خدا محمد ﷺ کو سب کچھ بتا دے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف فصاحت و بلاغت کے دم پر لوگوں کے دل میں چھپی ہوئی بات کی اطلاع دینا ممکن ہے ؟

ثانیا: یہودیوں کے مشورہ سے کفار مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو لاجواب کرنے کیلئے تاریخی سوالات کئے تھے کہ اصحاب کہف کون ہیں؟ کیا ان کا قصہ ہے؟ ذو القرنین کون تھے کیا ان کا قصہ ہے؟وغیرہ وغیرہ ۔جنکے آپ ﷺ نے نہ صرف جوابات دئیے بلکہ مخالفین کی بولتی بند کر دی۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف زبان دانی اور فصاحت و بلاغت کے دم پر اس طرح کے سوالوں کے جوابات دئیے جاسکتے ہیں؟اگر انکے جوابات بھی عرب ثقافت میں گردش کر رہے تھے تو کیا یہودیوں کو باؤلے کتے نے کاٹا تھاجو انہوں نے ایسے عام فہم سوالات دئیے، اور اگر انہوں نے دے بھی دئیے تو کیا کفار مکہ اندھے تھے کہ انہوں نے ایسے عام فہم سوالات حضور ﷺ سے حضور ﷺ کی حقانیت جانچنے کے طور پر پیش کر دئیے؟

یہ درست تاریخی معلومات آپ ﷺ کو کہاں سے حاصل ہوئیں؟

گوگل بھگوان سے یا اس راہب سے جس کی آپ ﷺ سے شام کے تجارتی سفر میں چند گھنٹوں کی ملاقات ہوئی تھی اور اس نے چند گھنٹوں میں ہی سارے علوم پلا دئیے تھے۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ حضور ﷺ اس تجارتی سفر سے واپس ہوتے ہوئے شام سے ایک لیپ ٹاپ بھی خرید لائے ہوں جس میں آپ ﷺ گوگل استعمال کر رہے ہوں؟ نعوذ باللہ من ذالک۔

17 thoughts on “فان لم تفعلو ولن تفعلو”

  1. میسلمہ کذاب نے جب الفیل والفیل والی بونگی ماری تو اپنی لونڈی سے کہا کہ یہ دے آو انکے چیلنج کا جواب اسکی لونڈی بھی بڑی شاعرہ اور ادیب تھی اسنے وہیں اسکی بینڈ بجا دی بلکل ایسا ہی ان جیسوں کے ساتھ ہونا

  2. دین سے ٹھٹھا کرنے والے ہر دور میں ذلیل و خوار ہوئے ہیں۔ خواہ متشرکین ہوں یا نام نہاد علم دانی کے ذاتی گھمنڈ میں رہنے والے۔

    ان بے وقوفوں کو تو یہ تک سمجھ نہیں آتی کہ اگر اسلام و قرآن من اللہ نہ ہوتا تو اسقدر مصائب و آلام کے باوجود دنیا میں پھیلنے والا مذھب اسلام نہ ہوتا۔ بلکہ یہ کبھی کا سکر گیا ہوتا۔ اور کب کا ناپید ہوچکا ہوتا۔ نعوذ باللہ ۔۔۔ اور یہ اسلام کی حقانیت کا ایک بین ثبوت ہے جو فی زمانہ الہامی مزاھب نصرانیت اور یہودیت پیش نہیں کر سکتے۔

    جب گمراہی کے اندھیرے کسی کو نگلنے لگتے ہیں تو اس کے دماغ میں ھذیان کے کیڑے کلبلانے لگتے ہیں۔اور وہ جامے سے باہر ہوکر اول فول بکنا شروع کر دیتا ہے۔اور یہ سلسلہ مسیلمہ کذاب سے لیکر آج تک جاری ہے۔ خزابوں اور ھذیان بکنے والے جہاں اگلے جہان اپنے کئیے کا پھل پائیں گے۔ وہیں ان پہ رہتی دنیا تک لعنتیں بیجھی جائیں گی۔

  3. الرواندی ایک آزاد خیال اور یونانی فلسفہ کا پرچارک تھا وہ وحی / رسالت کے تصور کو رد کرتا تھا اور کہتا تھا کہ عقل بغیر کسی آسمانی وحی کے جھوٹ اور سچ میں تمیز کر سکتی ہے۔
    بحوالہ مسلم فکر و فلسفہ صفحہ 124 از محمد کاظم

    1- اللہ تعالی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو امی و دقیقہ دانِ عالم بنا کر قرآن کریم عطا کیا اس کی حکمت یہ تھی کہ جو لوگ یہ اعتراض نہ کر سکیں کہ کسی استاد نے انہیں سکھایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تلمیذ الرحمن ہیں۔

    2 – قرآنی اسلوب اور اسلوب شاعری میں تفاوت ہے۔
    دیکھیے الفوز الکبیر فی اصول التفسیر
    سورتوں میں سنت اللہ یوں جاری ہے کہ وہ آیات پر منقسم ہوتی ہیں مگر آیات اور اشعار میں فرق ہے۔ آیات اور ابیات دونوں جو از قسم نشید ہیں ، متکلم اور سامع کے التذاذ نفس اور حظ طبعی کے لئے انشاء کی جاتی ہیں۔لیکن ابیات عروض و قافیہ کی پابند ہوتی ہیں جن کو خلیل نحوی نے مدون کیا ہے اور عام شعراء نےانہیں اسی سے حاصل کیا ہے اور آیات کی بنیاد ایک ایسے اجمالی وزن و قافیہ پر ہوتی ہے جو امر طبعی سے زیادہ تر مشابہ ہے اور عروضیوں کے افاعیل تفاعیل اور ان کے معین کردہ قوافی پر نہیں ہوتے جو محض مصنوعی اور اصطلاحی امور ہیں۔
    http://auraq.urdutech.com/2011/06/%D8%A7%D9%84%D9%81%D9%88%D8%B2-%D8%A7%D9%84%DA%A9%D8%A8%DB%8C%D8%B1-%D9%81%DB%8C-%D8%A7%D8%B5%D9%88%D9%84-%D8%A7%D9%84%D8%AA%D9%81%D8%B3%DB%8C%D8%B1/

  4. محمد سعید پالن پوری

    اس میں کوئی ممانعت نہیں کہ فصاحت میں عرب کا کوئی قبیلہ دیگر قبائل سے بڑھ کر ہو، اور اس قبیلے کا کوئی ایک گروہ باقی قبیلے سے زیادہ فصاحت رکھتا ہو، اور اس گروہ میں کوئی ایک شخص باقیوں سے زیادہ فصیح ہو

    یہ بھی غور کرنے کا مقام ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جس فصاحت و بلاغت کا ڈنکا بجا وہ وہ چالیس سال کے بعد ہی کیوں بجا؟ نبوت سے پہلے کے حالات میں ہمیں آپکی فصاحت و بلاغت کے تعلق سے کسی طرح کی کسی خدمت کا پتہ نہیں چلتا جبکہ بندہ میں اگر کوئی فن ہوتا ہے تو اس کے آثار بچپن سے ہی نظر آنے لگتے ہیں

  5. جناب کیا یہی کافی نہیں کہ اس وقت بھی یقینن ایسے بےوقوف تھے جیسے آج کل؟ اور وہی استدلال پیش کرتے چلے آ رہے ہیں؟

  6. اسی طرح کی بحث پر ميرے ايک ہمجماعت نے ايک لطيفہ قسم کی بات سنائی تھی ۔ جگہ خالد ہوسٹل ۔ انجنيئرنگ کالج لاہور ۔ سال 1959ء ۔
    ايک جاہل جو اپنے آپ کو بہت پہنچا ہوا کہتا تھا نے ايک ہندو جوگی کو مناظرے کی دعوت دے ماری ۔ فيصلہ ہوا کہ دونوں آدھا آدھا راستہ چل کر ايک خاص جگہ پر مليں ۔ وہاں پہنچ کر جوگی اپنی سواری سے اُترا اور جاہل کے پاس جا کر کہنے لگا ” مہاراج ۔ اِچرو”۔ يعنی حضور ۔ تشريف لايئے ۔ جاہل بولا ” اِچرو ۔ مِچرو ۔ کِچرو”۔جوگی نے حيران ہو کر کہا ” اے کی ؟ ” يعنی يہ کيا ؟ تو اس نے کہا ” اے کی ۔ ميکی ۔ ٹيکی”۔
    بس اس پر اُسکے مريدوں نے اُسے کندھوں پر اُٹھا ليا اور شور مچانے لگے کہ اُن کا پير جيت گيا ۔
    باقی لوگ جو وہاں کھڑے تھے پوچھنے لگے ” ابھی مذاکرہ تو شروع ہوا نہيں ۔ جيت کيسے گئے ؟ ”
    تو جواب ملا ” جوگی نے ايک لفظ کہا اور ہمارے پير نے تين جواب ديئے”

  7. بہت عمدہ جناب!
    بہت مدلل جواب ہے۔جزاک اللہ خیر۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر سعید صاحب ملک الشعراء لبید اور دوسرے عرب شعراء کےقرآن کریم کے بارے میں خیالات نقل فرمادیتے۔

  8. جواد بھائی، میں دیکھتا ہوں۔ اس فیڈ والے مسئلے نے تو بہت پریشان کیا ہوا ہے۔ اللہ کو منظور ہوا تو حل نکل آئے گا۔

  9. میں نے آپکا پوسٹ اردو پڑھنے میں دشواری والا پرھا۔ میرے فونٹس میں نستعلیق فونٹ انستال ہے اور میں اس کی مدد سے دیگر بلاگرز کے بلاگ پڑھ لیتا ہوں لیکن آپکا یہ کالم ،اسی طرح پچھلے کالم مجھے نستعلیق فونٹ میں نظر نہیں آرہے ۔

    وضاحت کر سکیں تو اچھا ہوگا ۔ شکریہ

    1. جناب درویش خراسانی صاحب: جب میں نے اردو سے متعلق وہ صفحہ بنایا تھا اس وقت میں نستعلیق فانٹ ہی استعمال کرتا تھا، بلاگ کا یو ار ایل بدلنے کے دوران کافی تھیمز مجھ سے ضائع ہو گئیں۔ اس تھیم میں بھی جلد ہی نستعلیق فونٹس کی سپورٹ شامل کر دوں گا ۔ شائد وقت لگے۔ فی الحال اس تھیم کا ڈیفالٹ فونٹ اردو نسخ ایشیا ٹائپ ہے۔

  10. خالد حمید صاحب گستاخی معاف لیکن آپکے اس تصویر کو دیکھ کر دجال کی آنکھ ذہن میں آجاتی ہے۔وہ بھی ایک اور ابھری ہوئی ہوگی۔ اگر برا نا مانیں تو مشورہ ہے کہ اس تصویر کو تبدیل کردیں۔

    یہ صرف ایک رائے یا مشورہ ہے ماننا ضروری نہیں ہے۔
    ایک بار پھر گستاخی معاف اور بے ادبی کرنے پر معذرت

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں