Skip to content

“فان لم تتعقلوا و لن تتعقلوا”

ہم جب امیہ بن ابی الصلت کے بارے میں حاصل کردہ معلومات آپ تک پہنچا چکے تو خیال آیا کہ محمد علی مکی نے اسی مراسلے میں ہی اپنے قارئین سے استفسار کیا تھا کہ اگر کسی اور نے پنگا لینا ہے تو سامنے آئے۔ واقعات کچھ اس ترتیب سے ظہور پذیر ہو رہے ہیں کہ پنگا بھی ہمیں ہی دوبارہ لینا پڑا۔ اب آپ اس پنگے لینے کو ٹھیک سمجھتے ہیں یا غلط، تحریر کے اختتام پر ہمیں ضرور مطلع کیجئے گا۔ ویسے بھی غور خوض کے بعد ہمیں یہ احساس ہو چلا کہ صرف امیہ بن ابی الصلت کے بارے میں موصوف کو جواب دینا کہیں ان کو اس غلط فہمی میں مبتلا نہ کردے کہ اب کسی میں پنگا لینے کی ہمت ہی نہیں۔ الحمدللہ ہم میں اتنا تکبر ابھی تک نہیں آیا کہ کسی کو اتنی‌‌ حقارت سے سیکھیں کہ اس کے استفسار کا جواب دینا بھی مناسب نہ سمجھیں۔ مگر جب یہ بات سب کے سامنے عیاں ہو کہ معترض صرف فتنہ کی نیت سے ہی اعتراض کر رہا ہے تو پھر اس کے شر سے پناہ ہی مانگنی چاہئے۔

ہماری دلی خواہش تھی کہ اس بحث سے کچھ سیکھیں، مگر افسوس، فان لم تفعلو و لن تفعلو والے قرآنی چیلنج کا بزعم خود کرارا جواب دے کر اپنی انا کے ہاتھوں مجبور ہو موصوف نے جو حرکت کی ہے، اس نے ایک مرتبہ پھر ہمیں یہ سوال پوچھنے پر مجبور کیا ہے کہ انسانی عقل کس حد تک قابل اعتبار ہے؟

بہر حال، موضوع کی طرف پلٹتے ہیں اور پہلے کی طرح محمد علی مکی کے اٹھائے ہوئے اعتراضات کا جواب دیکھتے ہیں۔

ابو نجمہ سعید صاحب کا شکریہ کہ انھوں نے اتنی محنت کی۔ حسب سابق ہم اپنے باقی ساتھیوں کے ممنون ہیں جنھوں نے گاہے بگاہے اپنا قیمتی وقت ہمیں ہدیہ کیا اور اچھے مشورے دئیے۔

ابتدا ایک جملے سے جو کہ محمد علی مکی کا ہے:

تاہم کچھ لوگ تہذیب کے وہ تمام ضابطے – جو شاید ان کا مذہب انہیں نہیں سکھاتا – توڑ کر ذاتیات، گالم گلوچ اور استہزاء پر اتر آتے ہیں

بالکل صحیح کہا۔ اور یہ کام سب سے زیادہ میرے فاضل دوست ہی کرتے ہیں کہ وہ اپنے نقطہ نظر سے اختلاف رکھنے والوں کو کئی القابات سے نوازچکے ہیں جنکو ساری دنیا جانتی ہے علاوہ سیارہ والوں کے۔ اس تازہ ترین پوسٹ میں بھی دیکھئے:

ایسی جاہلانہ باتیں وہی کر سکتا ہے جسے عربی ادب کے بارے میں ذرا بھی علم نہ ہو

ان کے خیال میں اس کی ضرورت ہی کیا ہے، محض قرآن کا بلیغ ہونا کافی ہے، باقی سارے عربی ادب کو کچرے میں ڈال دینا چاہیے

اور اسی ایک کتاب کو نسل در نسل طوطے کی طرح رٹتے رہنا چاہیے بھلے اس زبانِ غیر کے بے سمجھ رٹے سے ذہن پراگندہ ہوجائیں اور قوم پستی کی گہرائیوں میں جاگرے.

ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ وہی امیہ بن الصلت ہے جس کا میرے حریف نے زندگی میں کبھی نام تک نہیں سناہوگا ..!!

قارئین کیا میں نے یہ باتیں کہیں کہی ہیں جن کو بنیاد بنا کر میری عزت افزائی کی جارہی ہے۔ معلوم نہیں میرے فاضل دوست کو اتنی درست معلومات کہاں سے حاصل ہوگئیں کہ میں عربی ادب کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور میرے خیال میں عربی ادب کی ضرورت نہیں ہے اسکو کچرے میں ڈال دینا چاہئے اور بے سمجھے قرآن کو رٹتے رہنا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ اس پیراگراف کے ذریعہ انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انکا حریف مسجد کے مکتب کا مولوی ہے جسے اپنے حلوہ سے مطلب رہتا ہے اور بس۔ غالبا میرے فاضل دوست کے نزدیک یہ استہزاء نہیں ہے بلکہ یہ توسامنے والے کو عزت کے عرش پہ بٹھانا ہے

کیا ہی اچھا ہو کہ میرے فاضل دوست دوسروں کو اسباق اخلاق پڑھانے سے پہلے ایک بارخود بھی پڑھ لیں کہ مسئلہ ذاتیات کا نہیں ہے ۔ مسئلہ محبوب شئے پہ چوٹ کرنے کا ہے کہ آدمی اپنے محبوب پہ چوٹ برداشت نہیں کر پاتا ، اگر آپ اپنی ذات معبود و محبوب بنائے ہوئے ہیں تو کچھ لوگ اللہ و رسول کی ذات معبود و محبوب بنائے ہوئے ہیں، اگرآپ اپنی بات کہتے ہوئے ( جس کا آپ کو حق ہے) ہمارے معبود و محبوب پر چوٹ نہیں کریں گے تو دوسرا بھی اپنی بات کہتے ہوئے آپ کے معبود پہ چوٹ نہیں کرے گا۔

موصوف کی خردمندی پر کیا کہیے کہ اتنی سادہ سی بات ان کے پلے نہیں پڑی، عجم پر قرآن کیوں حجت ہو؟ میری دیگر زبانیں جاننے والے قارئین سے گزارش ہے کہ وہ کسی ایک زبان کی کوئی غزل قصیدہ وغیرہ اردو میں ترجمہ کر کے دیکھیں، مثال کے طور پر اگر آپ کو پشتو آتی ہے تو پشتو زبان کی کسی غزل کا اردو میں ترجمہ کردیں پھر دیکھیں کہ وہ غزل جو اپنی زبان پشتو میں بڑی فصیح وبلیغ تھی اس کا اردو میں ترجمہ ہوجانے کے بعد کیا حشر ہوتا ہے، اب یہ ترجمہ کسی ایسے شخص کو پیش کریں جسے صرف اردو آتی ہو اور اسے کہیں کہ یہ بڑا فصیح وبلیغ کلام ہے پھر اس کا رد عمل دیکھیے، آپ کو ساری بات سمجھ آجائے گی جو میرے فاضل دوست کی عقل دانی میں نہ سما سکی.

قارئین ! میرے فاضل دوست نے یہ تبصرہ میرے ابن الراوندی کے اقتباس کے جواب پہ کیا ہے۔ آپ راوندی کے بیٹے کا اقتباس دوبارہ دیکھئے جس کو ان کے وکیل ہمارے فاضل دوست نے پیش کیا تھا۔

اس میں کوئی ممانعت نہیں کہ فصاحت میں عرب کا کوئی قبیلہ دیگر قبائل سے بڑھ کر ہو، اور اس قبیلے کا کوئی ایک گروہ باقی قبیلے سے زیادہ فصاحت رکھتا ہو، اور اس گروہ میں کوئی ایک شخص باقیوں سے زیادہ فصیح ہو… اب فرض کریں کہ اس کی فصاحت کی شہرت سارے عرب میں پھیل گئی تو عجم پر اس کا کیا حکم ہے جو زبان نہیں جانتے اور ان پر اس کی کیا حجت ہے؟

کیا اس اقتباس کی آخری سطر سےیہ تاثر نہیں ابھر رہا کہ راوندی کا بیٹا یہ کہہ رہا ہے کہ قرآن نے یہ چیلنچ عجمیوں کو دیا ہے جنکی زبان عربی ہے ہی نہیں۔ اگر یہی تاثر ابھر رہا ہے تو پھر مرے فاضل دوست نے جو بات کہی ہے اس کی کیا تک رہ جاتی ہے۔

دلوں کے حال کوئی جان سکتا ہے؟ کوئی بھی نہیں، تو اگر میں آپ سے کہوں کہ

” یقولون لو فعلنا لیکتشفنہ ”
” وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے (ایسا) کیا تو وہ جان لے گا ”

تو آپ کے پاس یہ جاننے کا کوئی پیمانہ ہے کہ میں دلوں کے حال جانتا ہوں؟ یقیناً نہیں،

قارئین !پہلی بات تو یہ کہ میرے فاضل دوست نے میری پیش کی ہوئی تین میں سے دو مثالوں پہ کوئی کلام نہیں کیا ہے ایک اصحاب کہف والی دوسری ذو القرنین والی۔ انکی خاموشی کو میں کیا نام دوں؟اور اس تیسری مثال کے جواب میں انہوں نے عربی جملہ کے ذریعہ سے اندھیرے میں تیر مارا ہے جبکہ میں پہلے ہی لکھ چکا تھا کہ قرآن دلوں کا حال اتنے درست طور پر بتا رہا تھا کہ کچھ لوگوں نے اس اندیشہ سے کہ محمد کا خدامحمد کو سب بتادے گا کام کرنے سے انکار کیا تھا۔ اگر اندھیرے میں تیر مارنے والی بات ہوتی تو اتنے خوف کی وجہ کیا تھی؟

قرآن بلاغی لغویاور تکراری غلطیوں سے اس قدر پُر ہے کہ اسے خدائی کلام قرار دینا خود خدا کی توہین ہے، مثلاً اگر میں عربی میں آپ سے کہوں کہ: قال الکاتب انہ ملحد، کیا یہ جملہ آپ کو منطقی لگتا ہے؟ اگر آپ کو واقعی عربی آتی ہے تو آپ کا جواب یقیناً انکار میں ہوگا کیونکہ بولنے والا یعنی ” المتحدث ” میں ہوں اور ” قال ” میں ضمیر کو اپنی طرف موڑ رہا ہوں جیسے میں کسی اور کاتب کے بارے میں بات کر رہا ہوں، اصولاً مجھے یوں کہنا چاہیے کہ: انا ملحد، ناکہ: قال الکاتب انہ ملحد… اب نمونے کے طور پر یہ آیت دیکھیے جس میں بظاہر خدا ابلیس سے مخاطب ہے:

” قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ” سورہ اعراف آیت 12

یہاں ” قال ” میں ضمیر کس کی طرف ہے؟ خدا نے اس کا ذکر اس طرح کیوں کیا جیسے وہ کسی اور کے بارے میں بات کر رہا ہو؟

یہ تو وہ بات ہوئی کہ نکو نکٹوں میں جاکے اپنی ناک پہ شرمندہ ہونے لگا۔میرے فاضل دوست جس کو عیب قرار دے رہے ہیں یہ بلاغت کا ایک حسن ہے جس کا نام التفات ہے( التفات میں دوران کلام” میں” سے “تو” کی جانب یا اس کا برعکس،”میں” سے “وہ’ کی جانب یا اس کے برعکس کی جانب رخ کیا جاتا ہے) اور قرآن اس حسن سے بھرا پڑا ہے ۔قارئین اس کو سورہ کوثر سے سمجھ سکتے ہیں:انا اعطیناک الکوثر فصل لربک و انحر: بلیقین ہم نے آپ کو کوثر عطا کی ہے پس آپ اپنے پروردگار کیلئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے۔ اب اگر یہاں کوئی کہنے لگےکہ متکلم( کوثر عطا کرنے والے )نے ابہام پیدا کیا ہے کہ کوثر تو اس نے ہی دی ہے مگر عبادت وہ اپنی نہیں کسی اور(تیرا پروردگار) کی کرنے کا حکم دے رہا ہے۔ مطلب کوثر عطا کرنے والا کوئی اور ہے اور جس کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے وہ کوئی اور ہے۔ دونوں ایک نہیں ہیں اگر ایک ہوتےتو کوثر عطا کرنے والے کو اپنی ہی عبادت کا حکم دینا چاہئے تھا اور الفاظ یوں ہونے چاہئے تھے : انا اعطینا ک الکوثر فصل لنا و انحر: ہم نے آپ کو کوثر عطا کی ہے سو آپ ہمارے لئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے۔
نہیں صاحب! متکلم نے کوئی ابہام پیدا نہیں کیا۔ عربی سے آپ کی ناواقفیت کی وجہ سےآپ کو یہاں ابہام لگ رہا ہے۔کوثر عطا کر نے والا بھی وہی ہے اور جس کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے وہ بھی وہی ہے اور یہاں بلاغت کا یہی قاعدہ (التفات )استعمالا گیا ہے کہ متکلم” ہم” (اعطینا) سے “غیبت” کی جانب(ربک) چلا آیا ہے
واضح رہے کہ عربی میں اسم ظاہر کو از قبیل غیبت مانا گیا ہے

میرے فاضل دوست کی جانب سے پیش کردہ مثال میں بھی یہی قاعدہ استعمالا گیا ہے کہ اللہ نے کلام کا آغاز تکلم (ہم) سے کیا ہے(و لقد خلقناکم ثم صورناکم ۔”ہم” نے تم کو پیدا کیا اور” ہم” نے تمہاری صورتیں بنائیں) پھر آگے چل کر اللہ نے تکلم (ہم) کو چھوڑ کر غیبت (قال ۔اس نے کہا) کا رخ کر لیا ۔ سیاق کے مطابق جملہ وہی آنا جاہئے تھا جو ہمارے فاضل دوست کہہ رہے ہیں یعنی قلنا (ہم نے کہا)تاکہ سب جملوں میں یکسانیت رہتی۔ مگر اللہ نے سیاق کی مطابقت سے آگے کی چیز التفات کو استعمالتے ہوئے قلنا کو چھوڑ کو قال کہا ہے اور اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ قال میں قائل (کہنے والا) وہی ہے جو خلقنا میں خالق اور صورنا میں مصور ہے۔

ایک مربہ پھر قران مجید کو انسانی تصنیف ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے محمد علی مکی کچھ یوں گویا ہوتے ہیں:

قرآن کہتا ہے ” اننی لکم منہ نذیر وبشیر ” ؟ یہاں ” اننی ” میں ضمیر کس کی طرف ہے؟ زیادہ ٹینشن نہ لیں، میں بتاتا ہوں کہ ” اننی ” میں ضمیر کس کی طرف ہے، یہاں ” اننی ” میں ضمیر محمد ﷺ کی طرف ہے، اوپر بھی وہی خدا اور ابلیس کا قصہ سنا رہے تھے اور یہاں بھی وہی یہ وعظ کر رہے ہیں، کیا اب بھی یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ قرآن خدائی پیغام ہے یا انسانی تصنیف؟

استغفراللہ العظیم ۔ جن کی مادری زبان ہی عربی تھی، وہ بے چارے تو اس راز کو نہ پا سکے اور 1432 تک گمراہ رہے۔ اچھا ہوا کہ ایک با عمل مسلمان نے اس راز کو فاش کر دیا۔

قارئین! یہاں ضمیر اللہ کی طرف ہے۔ اسی حساب سے ہم ترجمہ کرتے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے۔
الا تعبدوا الا اللہ
نہ عبادت کرو تم مگر اللہ کی۔ یعنی غیر اللہ کی عبادت سے بچو
اننی لکم منہ نذیر و بشیر
بلاشبہ میں(یعنی اللہ) تمہیں اس سے ( یعنی غیر اللہ کی عبادت سے)ڈراتا ہوں اور خوشخبری سناتا ہوں۔ یعنی جو غیر اللہ کی عبادت کرے گا اس کو میں وارن کرتا ہوں اور جو غیر اللہ کو چھوڑ کر میری عبادت کرے گا اس کو میں خوشخبری سناتا ہوں

اس کے علاوہ قرآن میں بہت ساری تعبیری، نحوی اور بلاغی غلطیاں موجود ہیں جس سے بجا طور پر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ ایک انسانی خرافت کے سوا کچھ نہیں، مثلا خدا کہتا ہے: ” اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسۡتَحۡیٖۤ اَنۡ یَّضۡرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوۡضَۃً فَمَا فَوۡقَہَا ” (سورہ بقرہ آیت 26) جبکہ بلاغت کا تقاضا یہ ہے کہ یوں کہا جائے: ” بعوضہ فما اصغر ” کیونکہ یہ کہنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ خدا دقیق مثالیں استعمال کرتا ہے نا کہ برعکس! ورنہ یوں کیوں نہیں کہتا کہ: ” فیلاً فما قوق ”

قارئین آیت کا تحت اللفظ ترجمہ یہ بنتا ہے: اللہ مکھی اور” اس سے اوپر “کی مثال دینے سے نہیں شرماتے۔ یہاں لفظ اوپر یا فوق سنتے ہی ہمارے فاضل دوست اوپر چلے گئے جبکہ ترقی ،فوقیت اور اوپر ہونا دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک تو اوپر ہی کی طرف جسکو سب جانتے ہیں اورایک نیچے کی طرف ہوتا ہے جیسے کہا جاتا ہے : فلاں کھلاڑی نے ٹیسٹ میں عمدہ پرفامنس دی جس کی وجہ سے اسکی دو درجے ترقی ہوئی اور وہ چھ سے چار پر آ گیا۔ اب کوئی کہے کہ بھئی یہ تو غلط لکھا ہے۔ جب دو درجے ترقی ہوئی ہے تو چھ سے چار پر نہیں آٹھ پر جانا چاہئے۔ نہیں صاحب یہی صحیح لکھا ہے ۔ یہ وہ ترقی اور فوقیت ہے جو نیچے کو جاتی ہے
آیت کریمہ میں ترقی کی اسی قسم کو استعمالا گیا ہے اور حقارت اور ذلت میں ترقی دکھائی گئی ہے کہ اللہ مکھی اور(نیچے کو جاتے ہوئے) اس سے اوپر کی چیز کی مثال دینے سے نہیں شرماتا۔

جیسے کہا جاتا ہے کیا تم اسے بخیل سمجھتے ہو؟
جواب: بخیل نہیں اس سے بھی بڑھ کر سمجھتا ہوں۔
یہاں “بڑھ کر” سنتے ہی اگر آپ اوپر کو جاتے ہوئے اسے حاتم طائی سمجھنے لگیں تو ہم آپ کو کیا سمجھیں؟

ایک اور مثال سیاق کے عدم تسلسل کی ہے جیسے: ” اِلَیۡہِ یَصۡعَدُ الۡکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الۡعَمَلُ الصَّالِحُ یَرۡفَعُہٗ ” (سورہ فاطر آیت 10) جبکہ بلاغی تقاضا یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ ” الیہ یصعد الکلام الطیب والعمل الصالح” کیونکہ ” یرفعہ ” زیادہ یا فالتو ہے جس کی ضرورت نہیں،

یہ تو وہی ہوا کہ بڑھیا کے ہاتھ عقاب لگا تو اس کے بڑھے ہوئے ناخن اور ضرورت سے زیادہ لمبی چونچ بڑھیا کو غیر فطری لگی اور اس نے قینچی لیکر عقاب کو “فطرت “کے مطابق کر دیا۔ ہمارے فاضل دوست نے بھی آیت کی اصلاح کچھ اسی طرح کی فرمائی ہے کہ اصلاح فرما کر قرآن میں مذکور دو مفہوموں سے ایک مفہوم کو سرے سے اڑا ہی دیا۔
ہمارے فاضل دوست کے اصلاح شدہ متن کا تر جمہ یہ ہوگا: اللہ کی جانب صاف ستھرا کلام اور عمل صالح چڑھتا ہے۔ محمد علی مکی کی اصلاح شدہ “آیت” سے ایک ہی بات پتہ چل رہی ہے کہ اللہ کی جانب دو چیزیں چڑھتی ہیں ایک صاف ستھرا کلام اور دوسرا عمل صالح ۔
جبکہ اللہ کے بیان کردہ متن سے دو باتیں پتہ چل رہی ہیں۔ ایک:اللہ کی جانب صاف ستھرا کلام چڑھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کو چڑھاتا کون ہے؟ اس کا جواب اگلے ٹکڑے میں ہے کہ عمل صالح صاف ستھرے کلا م کو چڑھاتا ہے یعنی مقبول بارگاہ الہی بنا تا ہے۔

یا پھر یہ دیکھیے: ” وَّ لَا تَسۡتَفۡتِ فِیۡہِمۡ مِّنۡہُمۡ اَحَدًا ” (سورہ الکہف آیت 22) یہاں ” فیہم منہم ” کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ خدائی منطق ہے!؟ نحوی طور پر تو بات ہی مت کریں

کیونکہ ہمارے فاضل دوست نے یہاں اپنے پتے نہیں کھولے اور ہم ٹھہرے بے سمجھے رٹا مارنے والے، اس لئے اپنی طرف سے کوئی بات متعین نہ کرسکے۔

اور یہ ایک چلتے چلتے ہے: ” وَ قَالُوۡا لَنۡ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدَۃً ” (سورہ بقرہ آیت 80) جو کہ غلط ہے، نحوی طور پر ” ایاماً معدودات ” درست ہے ! بلاغت تو اپنی جگہ رہی ریت کے خدا کو تو یارو نحو بھی نہیں آتی۔

میرے فاضل دوست اپنے اعتراض کی وضاحت کرتے ہوئے اپنی یاوہ گوئی پر اپنے اہی ایک تبصرہ میں کہتے ہیں۔

میں نے اوپر بھی آپ پر واضح کردیا تھا کہ آپ بات نہیں سمجھے، میرا اشارہ اس طرف ہے ہی نہیں، سورہ بقرہ کی آیت 80 میں قلت مراد تھی مگر جمع کثرت کردی گئی جبکہ اسے جمع قلت کرتے ہوئے ” ایاماً معدودات ” لکھنا چاہیے تھا ناکہ ” ایاماً معدودہ…. اس کے بالکل برعکس سورہ بقرہ کی آیت 183-184 میں جمع قلت کردی گی جبکہ کثرت مراد تھی، یہاں جمع کثرت ہونی چاہیے تھی کیونکہ مراد جمع کثرت تھی جس کی عدت تیس دن ہے چنانچہ ” ایاماً معدودہ ” لکھنا چاہیے تھا نا کہ ”
ایاماً معدودات ”.

میرے فاضل دوست کا مطلب میں یہ سمجھا ہوں کہ اگر جمع میں قلت دکھانی ہو تو اس کی صفت بھی جمع لانی چاہئے۔ اور اگر جمع میں کثرت دکھانی ہو تو جمع کی صفت مفرد لانی چاہئے۔ اگر وہ یہی بات کہنا چاہتے ہیں تو میرا فاضل دوست کو مشورہ ہے کہ انکو عربی گرامر میں بھی کتاب لکھنی چاہئے کہ جس مسئلہ کو نحویوں نے بری طرح الجھا رکھا ہے اس کو میرے فاضل دوست نے چٹکیوں میں حل کیا ہے کہ جمع قلت بنانے کیلئے جمع کی صفت جمع لے آؤ اور جمع کثرت بنانے کیلئے جمع کی صفت مفرد لے اؤ۔ جبکہ نحویوں نے اس سلسلہ میں کوئی لگا بندھا قاعدہ نہیں بتایا بلکہ جمع قلت کیلئے الگ اوزان دئیے اور جمع کثرت لانے کیلئے الگ اوزان دئیے۔ اب ان اوزانوں کو یاد کرتے رہو اور ذہن میں بٹھاتے رہو۔ کسی نے ہمارے فاضل دوست والی سیدھی سیدھی بات نہیں بتائی۔ فاضل دوست سے پر خلوص گذارش ہے کہ وہ اس قاعدہ کا حوالہ بھی عنایت فرمائیں تاکہ ہم اس کو آگے چلاسکیں۔

قارئین جب ایک قاعدہ مل ہی گیا ہے تو کیوں نا اس پہ مشق کی جائے تاکہ وہ یاد ہوجائے۔ متنبی کا ایک شعر دیکھئے جس مین وہ بدر بن عمار کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے

وصفتک فی قواف سائرات @ و قد بقیت و ان کثرت صفات
میں نے آپ کی تعریف ایسے اشعار میں کی ہے جو بہہ رہے تھے( گویا آپ کی تعریف کرتے وقت اشعار کی بہتی آئی تھی جس میں بکثرت اشعار نکلے)اشعار اگر چہ میں نے بہت کہے لیکن خوبیاں آپکی پھر بھی باقی ہیں۔

ماہرین بھی اس کا یہی مطلب نکال رہے ہیں۔ انکے الفاظ دیکھ لیجئے:
وصفتک بقصائد کثیرۃ لکن مع کثرتھا بقیت صفات لک لم احط بھا

ارے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ یہ تو ہمارے فاضل دوست کے قاعدہ کے حساب سے مطلب ہی کچھ اور ہو رہا ہے۔ کس طرح؟
بتاؤں؟
پہلے مصرع میں شاعر قواف( جوکہ قافیہ کی جمع ہے) کی صفت کس شکل میں لایا ہے ؟ جمع کی شکل میں سائرات۔
اور جب جمع کی صفت جمع کی شکل میں لائی جائے تو قلت مراد ہوتی ہے یا کثرت؟ قلت مراد ہوتی ہے؟ پھر تو شعر کا مطلب ہی بگڑ گیا۔ کس طرح؟ گویاشاعر یہ کہہ رہا ہے کہ میں نے بہت تھوڑے اشعار میں آپ کی تعریف کی ہے جن کی بہتی آئی تھی۔ تو اس میں اعتراض والی بات کیا ہے؟ یار جب بہتی آئے ہے تو پھر قلت کا کیا کام؟ پانچ دس اشعار کا کیا مطلب؟ اس کو تو بہتی نہیں کہیں گے۔ بہتی کا تو مطلب یہ بنتا ہے کہ اشعار کی سیکڑوں کی تعداد میں آمد ہوئی ہو۔ جبکہ وہ قواف کی صفت سائرات کی شکل میں لاکر قلت دکھا رہا ہے۔

چلو آگے چلو۔ وقد بقیت و ان کثرت صفات۔ اشعار اگر چہ بہت کہے مگر اے میرے ممدوح آپکی خوبیاں پھر بھی باقی رہیں۔ اشعار بہت کہاں کہے بھائی تم نے؟ سائرات جمع کی شکل میں صفت لا کر ابھی تو تم نے قلت دکھا ئی ہے۔ اوپر سے ممدوح کو چونا لگا رہے ہو کہ میں نے اشعار بہت کہے ہیں؟

میرے فاضل دوست اپنے قاعدہ کے حساب سے اس شعر کا مفہوم ہم جاہلوں کو سمجھا نے کی زحمت گوارا فرمائیں گے؟؟

قارئین آئیے میں آپ کو صحیح قاعدہ بتاؤں۔

جمع تکسیر غیر ذوی العقول کی صفت آپ مفرد بھی لاسکتے ہیں اور جمع بھی

اسی قاعدہ کو ماہرین کی زبان میں دیکھئے۔

يذهب أبو حيان إلى أن صفة الجمع الذي لا يعقل تأتي على وجهين؛ فالجمع تارة يعامل معاملة الاسم المؤنث المفرد، فتأتي صفته بـ ( التاء ) المربوطة؛ وتارة يعامل معاملة جمع المؤنث السالم

قرآن کے دیگر جھولوں میں ایک ہی سورت میں ایک کہانی کو بیان کرنے والے الفاظ کو دوسری کہانی بیان کرنے کے لیے استعمال کرنا ہے جسے کہانی کا ٹیمپلیٹ کاپی کرنا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، مثال کے طور پر سورہ اعراف دیکھیے:

آیت 60 جس میں قوم نوح کا بیان ہے:
قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِہٖۤ اِنَّا لَنَرٰىکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۶۰﴾

آیت 66 جس میں قوم ثمود کا بیان ہے:
قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖۤ اِنَّا لَنَرٰىکَ فِیۡ سَفَاہَۃٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّکَ مِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۶۶﴾

آگے میرے فاضل دوست نےایک جیسی آیات کی لمبی فہرست دی ہے۔

بیشک اللہ نے ایک جیسی آیات قرآن میں بار باربیان کیں ہیں ۔ اس کی وجہ بھی بتا ئی اور ساتھ ساتھ ایک شکایت بھی کی ۔سورہ بنی اسرائیل کی آیت اکتالیس دیکھئے:
ولقد صرفنا فی ھذا القرآن
اس قرآن میں ہم نے پھیر پھیر کر سمجھا یا ہے
لیذکروا
تاکہ لوگ اچھی طرح سمجھ لیں
وما یزیدھم الا نفورا
اور نہیں بڑھایا اس پھیر پھیر کر بیان کرنے نے مگر ان کا بدکنا۔

یعنی ان ایک جیسی آیات کے بار بار بیان کرنے کا مقصد(ہمارے فاضل دوست کی زبان میں کاپی پیسٹ کا مقصد) لوگوں کو بات اچھی طرح سمجھانا تھا ۔اب جن حضرات کو سمجھنا تھا وہ تو اچھی طرح سمجھ گئے اور جن کی قسمت میں سمجھ نا تھی وہ بات کو سمجھنے کے بجائےان آیات پہ اسی طرح بدکتے تھے جیسی ہمارے فاضل دوست بدکے ہیں۔ اگرچہ قرآن کی اس آیت کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی مگر میں یہاں پر شاہ ولی اللہ
رحمۃ اللہ علیہ کی کچھ باتوں کی تلخیص بیان کرنا چاہوں گا۔ آپ فرماتے ہیں :

مخاطب کے سامنے جو کلام پیش کیا جاتا ہے اس کے دو مقصد ہوتے ہیں کبھی کلا م اس لئے پیش کیا جاتا ہے کہ وہ جو بات نہیں جانتا اس کو جان لے چنانچہ جب ایسےمخاطب کے سامنے کلام پیش کیا جاتا ہے تو وہ اس بات سے واقف ہوجاتا ہے جس سے وہ ناواقف تھا۔ اور کبھی مخاطب کے سامنے کلام اس لئے پیش کیا جاتا ہے کہ جو بات اس کو بتائی جا رہی ہے وہ اس کے ذہن میں مستحضر ہوجائے، اس کے دل و دماغ میں اچھی طرح جم جائے اور مخاطب اس کے رنگ میں رنگ جائے ۔ چنانچہ اس مقصد کے پیش نظر ہم کبھی جانا پہنچانا شعر بار بار دھراتے ہیں اور ہر بار نیا لطف اٹھاتے ہیں ۔مذکورہ دو مقصدوں کی وجہ سے قرآن میں آیات و واقعات کا تکرار ہوا ہے یعنی ناواقف کو واقف کرانے اور واقف کو ان کے رنگ میں رنگنے کے مقصد سے ۔یہی وجہ ہے کہ اللہ نے قرآن کریم کی بکثرت تلاوت کا حکم دیا ہے محض سمجھ لینا کافی نہ سمجھا ۔البتہ احکام شرعی پہ مشتمل آیا ت کو بار بار نہیں لایا گیا کیونکہ وہاں دوسرا مقصد مطلوب نہیں ہے صرف پہلا مقصد مطلوب ہے۔

قارئین کے علم میں یہ بات ضرور ہوگی کہ قرآن سارا کا سارا ایک دم نازل نہیں ہوا ہے ۔ حسب حال اور حسب ضرورت نازل ہوا ہے ۔مشرکین نے مسلمانوں پہ ایک طرح کے الزام بار بار لگائے ہیں جن کی وجہ سے انکا دل بار بار دکھتا تھا اور وہ پریشان ہوتے تھے۔چنانچہ جب جب مسلمان اور رسول پریشان ہوئے اللہ نے ایک طرح کی آیات اور واقعات کے ذریعہ انکی تسلی کی اور ڈھارس بندھائی ۔ اور یوں پریشانی دور کرکے ان کوکام پہ لگایا ۔

امیہ بن الصلت نامی ایک شاعر کا کلام پیش کرنا چاہوں گا، شعراء تو بہت ہیں بلکہ شعراء کا ایک انبار ہے تو پھر امیہ بن الصلت ہی کیوں؟ بھئی اس کی بڑی قوی وجہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یہ وہی امیہ بن الصلت ہے جس کے بارے میں آپ نے کہا تھا کہ ” کاد ان یسلم ” (وہ مسلمان ہونے والا تھا).. بھئی ہوا تو نہیں تھا نا، آپ کیوں یہ بات کر کے اس کے کلام کو کاپی کرنے کا جواز پیدا کرنا چاہتے ہیں؟!… اور یہ وہی امیہ بن الصلت ہے جس کا …. ارے بھئی ساری باتیں میں ہی بتاؤں گا یا آپ اپنے دل پر بھی کچھ زخم کھائیں گے؟ میرے لہو سے بہار کب تک! ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ وہی امیہ بن الصلت ہے جس کا میرے حریف نے زندگی میں کبھی نام تک نہیں سنا ہوگا..!!

اس کے تفصیلی جواب کا مطالعہ آپ گزشتہ دنوں ہی اس ربط پہ کر چکے ہیں۔

ساتھ ساتھ قارئین کو میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ صرف ایک امیہ ہی نہیں ہے جس کو لیکر مستشرقین قرآن پر چوری کرنے کا الزام لگاتے ہیں اور بھی بہت سارے حضرات ہیں جن کے اقتباسات چوری کرنے کا الزام قرآن پر لگایا جاتا ہے۔ جن کے جوابات سے صفحات کےصفحات کے سیاہ کئے گئے ہیں، جن کو بلاگ کی محدود سپیس کی وجہ سے ذکر نہیں کیا جاسکتا اور پھر ان میں زبان بھی اصطلاحی اور ٹیکنکلی استعمال ہوگی جو ظاہر ہے ہر کسی کے سمجھ میں نہیں آئے گی۔ امیہ بن ابی الصلت کی ترجمہ والی جو پوسٹ ہے اس میں ہمیں اپنے قارئین کو سامنے رکھتے ہوئے کئی سارے نکات چھوڑنے پڑے تھے کہ ان میں اصطلاحی الفاظ پہ مشتمل گفتگو کی گئی تھی ۔کل ملاکر یہ گڑے مردے ہیں جن کو دوسرے گاڑ گئے ہیں اور وہ ہمارے فاضل دوست کے ہاتھ لگ گئے ہیں۔ ہمارے “فاضل ” دوست نے خود سے یہ اعتراضات یقینا نہیں دریافت کئے ہوں گے۔

قارئین کیلئے اس طرح کے تمام الزامات کے جواب میں میں مختصرا مندرجہ ذیل دلائل کو دہرایا جا رہا ہےیہ دلائل امیہ والی پوسٹ میں موجود ہیں۔

اول: قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھنے والوں میں ایک شاعر صاحب ابو محجن بھی ہیں جو شراب کے عادی تھے ۔کئی مرتبہ ان پہ اس سلسلہ حد بھی جاری ہوئی ۔ حضرت عمر نے انکو جلا وطن بھی کیا تھا یہانتک کہ جنگ قادسیہ ہوئی جس میں ان کا واقعہ بڑا مشہور ہے کہ دوران جنگ انہوں نے شراب پی تھی ،اس جنگ میں مسلمانوں کے سپہ سالار سعد بن ابی وقاس کے پاس حد جاری کرنے کی فرصت نہیں تھی تو فرصت تک انہوں نے ابو محجن کو قید میں ڈال دیا تھا۔ دوران جنگ وہ سپہ سالار کی اہلیہ سے بیڑی کھولنے کو لے کر اصرار کرتے ہیں تاکہ وہ بھی جہاد میں شریک ہوسکیں ۔جب انہوں نے یہ وعدہ کیا کہ جنگ کے بعد میں بھاگوں گا نہیں بلکہ واپس آکر اپنے پاؤں میں خود بیڑیاں ڈال لوں گا تو اہلیہ نے بیڑیاں کھول دیں ۔چنانچہ انہوں نے جنگ میں شرکت کی اور حق ادا کر دیا ۔ جنگ کے بعد واپس آکر وعدہ کے مطابق انہوں نے اپنے آپ کو قید میں ڈال دیا ۔ انکی حسن کارکردگی سے خوش ہوکر سپہ سالار سعد بن ابی وقاص نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ ان پر کبھی حد جاری نہیں کریں گےجس کے جواب میں ابو محجن نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ کبھی شراب نہیں پئیں گے اور یہ بھی کہا کہ میں شراب اس سے پہلے چھوڑ سکتا تھا مگر اس وقت لوگ یہ کہتے کہ میں نے سزا کے ڈر سے شراب چھوڑی مگر اب کوئی یہ بات نہیں کہے گا ۔ دین اسلام میں شراب کی حرمت کے بغاوت کے طور پر ابو محجن کا دیوان انگور کی بیٹی کی تعریف سے بھرا پڑا ہے۔فتح مکہ کے بعد جب مسلمانوں نے طائف کا محاصرہ کیا تو مدافعت کرنے والوں میں سے ایک ابو محجن بھی تھے اور ان کا ایک تیر حضرت ابو بکر کے بیٹے کو لگا تھا ۔ (الزركلى/ الأعلام/ ط3/ 5/ 243، ودائرة المعارف الإسلامية/ الترجمة العربية/ 2/ 597- 598، وديوان الشاعر، وبهجة عبد الغفور الحديثى/ أمية بن أبى الصلت/ 42- 43).
سوال یہ ہے کہ اگر حضور ﷺ نے ان کے قبیلہ کے ایک شاعر کے اشعار چرائے ہوتے تو ابو محجن جیسے شاعرنے اس بارے میں کچھ گفتگو کیوں نہیں کی؟
2دوم: حضور ﷺ کی وفات کے بعد بہت سے قبائل مرتد ہوئے تھے۔اور ہر قبیلہ کے پاس اپنے ارتداد پر لنگڑےاعذار تھے جن کے ذریعہ سے انہوں نے اپنے ارتداد کو جواز کی شکل دینے کی کوشش کی تھی ۔ لیکن ہم نے کبھی نہیں سنا کہ مرتد ہونے والے قبیلوں میں سے کسی قبیلہ نے مشابہت والے موضوع کو چھیڑا ہو،بلکہ قبیلہ ثقیف نے بھی ارتداد کا ارادہ کیا تھا اگر عمرو بن العاص نے انکو اس گھٹیا کام پر نفرت نہ دلائی ہوتی تو ان میں سے کوئی ہدایت کی طرف نہ لوٹتا لیکن وہ نہ صرف لوٹے بلکہ ان میں سے اکثر نے پورے اخلاص کے ساتھ مرتدین سے جنگ کی۔سوال یہ ہے کہ قبیلہ ثقیف نے ارتداد کے اردہ کے وقت اور عمرو بن العاص کے سمجھانے کے وقت چوری والی بات کو بہانہ کیوں نہیں بنایا جبکہ یہ بہانہ بڑا معقول تھا
دہم : سوم: ایک صاحب یوحنا دمشقی بھی ہیں جنکا تذکرہ ڈاکٹر جواد نے اپنی کتاب میں کیا ہے(“المفصَّل فى تاريخ العرب قبل الإسلام”/ 6/ 493) یہ ان اولین عیسائیوں میں سے ہے جنہوں نے اسلام پر حملہ کرتے ہوئے کتابیں لکھیں۔حکومت بنو امیہ کا زمانہ اس کا زمانہ ہے ۔ اگر قرآن کو اشعار امیہ سے ذرا بھی تشابہ ہوتا تو یہ متعصب پادری اور وہ لوگ جو اسلام کو بیچ چوراہے پہ ڈھادینا چاہتے ہیں اور اپنے پورے وسائل کے ساتھ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ محمد بر حق نبی نہیں تھے ایسے لوگ یہ نادر موقعہ ہاتھ سے جانے دیتے؟

اس ساری تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ نہ امیہ نے ،نہ اس کے بیٹوں میں سے کسی نے ،نہ اس کے رشتہ داروں نے، نہ اس کے قبیلہ نے، نہ عرب میں سے کسی نے ،عرب ہی نہیں بلکہ ان یہود و نصاری میں سے بھی کسی نے نہیں ،جنہوں نے حضور کا زمانہ پایا ہے یا حضور کے تھوڑے بعد آئے ہیں ،ان سب میں سے کسی نے بھی کسی بھی اسٹیج پہ قرآن کی اشعار امیہ سے مشابہت رکھنے والے معاملہ کو نہیں اٹھا یا۔ بلکہ دس کے دس نکات سمجھنے والوں کیلئے بہت ہیں۔ اور جن کو سمجھنا نہیں ہے انکے لئے ہزار بھی ناکافی ہیں۔

یعنی امیہ کو پتہ ہے کہ خدا کا نام ” اللہ ” ہے!! جس سے ثابت ہوتا کہ لفظ ” اللہ ” دورِ جاہلیت میں بھی مستعمل تھا اور موحدین تب بھی موجود تھے.

اللہ کا استعمال دور جاہلیت میں بھی ہو رہا تھا اس بات کااگر آج ہمارے فاضل دوست کو امیہ کے اشعار سے پتہ چلا تو وہ اتنے ایکسائٹڈ ہوئے کہ وہ اس کو اپنی ایک دریافت کے طور پہ پیش کر رہے ہیں ۔یہ تو ایسا ہے جیسے مجھے آج پتہ چلے کہ کمپیوٹر پہ اردو لکھنا ممکن ہے تو میں مارے خوشی کے اپنے اس کارنامہ سے بلاگستان اردو کو واقف کراؤں اور بلال و نبیل جیسے ماہرین کو میل بھیج بھیج کے اپنی پوسٹ پڑھنے کی دعوت دوں۔ ان حضرات کا تو مارے غصہ کے ہاسا نکل جانا ہے ۔

میرے فاضل دوست کو یہ بات (یعنی امیہ کو پتہ ہے کہ خدا کا نام ” اللہ ” ہے!! جس سے ثابت ہوتا کہ لفظ ” اللہ ” دورِ جاہلیت میں بھی مستعمل تھا)کہتے ہوئے کم از کم حضور ﷺ کے والد محترم کا نام ہی ذہن میں لے آنا چاہئے تھا۔دور جاہلیت میں لفظ اللہ کے استعمال ہو نی والی بات اتنی واضح ہے کہ تاریخ کا ادنی طالب علم بھی اس سے واقف ہوتا ہے۔

قارئین یاد کیجئے جب حضور ﷺ پہ پہلی وحی نازل ہوئی ہے اور آپ گھبرائے ہوئے گھر میں داخل ہوئے ہیں تو اس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان الفاظ سے حضور کو تسلی دی تھی:
فو اللہ! لا یخزیک اللہ ابدا،انک لتصل الرحم و تقری الضیف و تحمل الکل
و تعین علی نوائب الحق
۔”اللہ پاک کی قسم!اللہ تعالی آپ کو کبھی ضائع نہیں فرمائیں گے کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں،مہمان نوازی کرتے ہیں،بے سہارا کو سہارا دیتے ہیں اور آفات سماوی میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں”۔

آج تو پہلی وحی نازل ہوئی ہے اتنی جلدی حضرت خدیجہ کو کس نے اللہ کا پتہ دے دیا؟
بلاگ کی محدود سپیس مانع نہ ہوتی تو اور بھی مثالیں پیش کی جاتیں۔

ہمارے فاضل دوست کا یہ استدلال بڑا شاندار ہے۔ کم از کم مجھ جاہل کیلئے تو نیا ہے

۔۔۔۔۔”لفظ ” اللہ ” دورِ جاہلیت میں بھی مستعمل تھا اور موحدین تب بھی موجود تھے”

یعنی صرف لفظ اللہ استعمال کرنے سے آدمی موحد ہوجا تا ہے۔ کاش حضور ﷺ کو یہ بات معلوم ہوتی تو وہ خواجہ ابو طالب کے غم میں ساری زندگی نہ گھلتے۔ خواجہ ابو طالب نے حضور کا حضرت خدیجہ سے نکاح خود پڑھا یاہے۔ اس نکاح میں انہوں نے جو خطبہ پڑھا ہے وہ یہاں سے شروع ہوتا ہے:

الحمد للہ الذی جعلنا من ذریۃ ابراہیم و زرع اسماعیل
حمد و ثنا اس اللہ کیلئے ہے جن نے ہمیں ابراہیم اور اسماعیل کی اولاد میں بنایا
اور ختم یہاں ہوتا ہے:
و ہو و اللہ بعد ھذا لہ بناء عظیم و خطر جلیل
اس (محمد)کا مستقبل اللہ کی قسم عظیم الشان اورجلیل القدر ہے

خواجہ جی تو بہت بڑے موحد ہیں بھائی! شروع میں بھی اللہ کا نام اور آخر میں بھی اللہ کا نام۔حضور نے خوامخواہ ان کے پیچھے اتنی محنتیں کیں۔

اور اب میں اپنے فاضل دوست کی اس للکار کی طرف آتا ہوں کہ:

” یہ الزامی سوالات کرنے کی ضرورت نہیں۔ بس قرآن کے جیسا کلام پیش کرو اور قصہ ختم کرو۔ سامنے والا خود ہی ہار جائے گا ” صدقے جاؤں اپنے یار کی اس للکار پر، لیجیے آپ کی یہ خواہش بھی پوری کیے دیتا ہوں

میرے فاضل دوست میری توقع سے کہیں زیادہ قابل نکلے۔ زبردست جناب زبردست۔آپ نے اتنا بڑا کام کیا ہے اور ابھی تک اس کو چھپا کر رکھ رکھا ہے۔ ہم تو بقول آپ کے گدھے ہیں ہم زعفران کی قیمت کیا جانیں۔ میری آپ سے پر خلوص گزارش ہے کہ آپ اپنا یہ عظیم الشان کام جو ہریوں کے پاس لیجائیں اور پاکستان و عرب میڈیا میں بالخصوص اور عالمی میڈیا میں بالعموم شائع و نشر کروائیں تاکہ ایک تیر سے آپ کو کئی شکار حاصل ہوسکیں۔اپنے مخالفین کو لا جواب بھی کیجئے عالمی شہرت بھی پائیے اور گھر سے معاشی بد حالی کو بھی بھگائیے۔

6 thoughts on ““فان لم تتعقلوا و لن تتعقلوا””

  1. میرا اس عظیم اور باعمل اور عربی کے عالم و فاضل دوست اور پتہ نہیں‌کیا کیا سے اب ایک ہی سوال ہے۔۔۔
    ہن ارام ای؟
    ابونجمہ سعید کا اجر اللہ کے پاس ہے۔ وہی اللہ، جس کے نام پر ہمارے ‘فاضل’ دوست چڑجاتے ہیں۔ یہاں‌فاضل سے مراد تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔۔

  2. منیر بھائی!
    اللہ تعالٰی آپ کو اور ابو نجمہ سعید بھائی کو جزائے خیر دے ۔ آپکی ، ابو نجمہ سعید بھائی ! اور ہر وہ شخص جس نے اس بارے‌آپکی مدد کی آپکے لئیے نیک تمناؤں کی دعا دی۔ اللہ تعالٰی سب کے لئیے آپ کی محنت روز قیامت شفاعت کا وسیلہ بنائے۔

    اسقدر پر مغز دلائل کے بعد مکی کے بارے میں سوائے دعا کرنے کے میں کچھ کہہ کر منہ کا ذائقہ خراب نہیں کرنا چاہتا۔ اللہ اسے ہدائت نصیب کرے۔

  3. بہت ہی جلدی میں تھا۔ آپکا یہ کالم ایک نظر دیکھا ۔ان شاء اللہ تفصیلی طور پر بعد میں دیکھونگا۔

    ویسے آپ نے اور ابو نجمہ ساحب نے جو محنت کی ہے ۔ تو دل سے دعاء کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ یہی محنت آپکے بخشش کا ذریعہ بنا دے۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں