Skip to content

عدم تشدد , بودھ, اور مسلمان

عدم تشدد , بودھ, اور مسلمان

بدھ مت اور تشدد ایسی دو متضاد اصطلاحات ہیں کہ ان کا ایک جملے، یا ایک حالت میں جمع ہونا محال تصور کیا جا سکتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک تو ایسا ممکن تھا ، مگر اب نہیں۔ اور جب میں اس تحریر کے لئے انٹرنیٹ کنگھال رہا تھا تو اندازہ ہوا کہ بدھ مت کے پروکار تو گزشتہ صدی کی آخری دو یا تین دہائیوں سے پر تشدد کارروائیوں میں مصروف تھے ، مگر کسی کو اندازہ نہ تھا۔ یا اگر اندازہ بھی تھا تو یار لوگ جان بوجھ کر اس دلچسپ پیشرفت کو نظر انداز کئے ہوئے تھے۔ لیکن یہ گزشتہ تین دہائیوں کی بات نہیں۔ دوسری صدی قبل مسیح میں سری لنکا کے ایک بدھ حکمران کے بارے میں ایک دلچسپ واقعہ مہا ومسا میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ مہاومسا میں بیان کئے گئے ایک واقعے کے مطابق جب وہ ایک غیر بدھ حکمران کے ساتھ جنگ کے لئے روانہ ہوا تو اس نے اپنے نیزے میں بدھ مت کی ایک مذہبی علامت کو پرویا اور اپنے ساتھ قریبا ۵۰۰ سادھو بھی لے گیا۔ خون خرابے کے بعد اس نے جنگ جیتی تو اس کے ایک درباری نے اس کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ہلاک شدگان تو بس جانور تھے، آپ مہاتما بدھ کے مذہب کو روشن کرو گے (1) گویا بدھ مت کے ماننے والے تشدد کے حامی بھی تھے۔

بدھ مت کے اصولوں میں سے ایک لازمی اصول عدم تشدد کا ہے۔ ہم سب اس اصول سے کافی حد تک واقف ہیں۔ ہم بدھ مت کے پیروکاروں کو بے ضرر قسم کے انسان سمجھتے ہیں اور اگر کسی بودھ کا ذکر آ بھی جائے تو ذہن میں سب سے پہلے زعفرانی یا گیروے رنگ کی چادریں اوڑھے ایک ایسے گنجے انسان کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے جس کے چہرے پر مسکینیت طاری ہے اور وہ ہاتھ باندھے آپ کے سامنے کھڑا ہے۔ بعض روایات کے مطابق عدم تشدد کا یہ تصور اتنا مضبوط ہے کہ بدھ مت میں کسی بھی جانور کو ہلاک کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ کسی اور مذہب کے مقابلے میں بدھ مت میں یہ تصور اتنا راسخ ہے کہ جب ہم اخبارات یا انٹرنیٹ پر بدھ مت کے ماننےوالوں کے ہاتھوں انسانوں کی ہلاکت کے بارے میں پڑھتے ہیں تو یک گونہ حیرت ہوتی ہے۔ مثال کے طورپر برما میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف بودھوں کی پر تشدد کارروائیاں اور اب سری لنکا میں مسلمانوں کی مساجد پر حملے۔ ۱۱ اگست ۲۰۱۳ کو کولمبو میں ایک مسجد پر بوھوں کے ایک گروہ نے پتھراو کیا اور اس حملے میں پانچ افراد زخمی ہوئے۔ (2) یہ بودھ مطالبہ کر رہے تھے کہ مسجد کو اس علاقے سے کہیں اور منتقل کیا جائے۔ مسلمانوں کا اصرار تھا کہ حکومت نے ان کو اسی جگہ پر عبادت کی اجازت دی ہوئی ہے۔ جبکہ بودھ اس کی مخالفت کر رہے تھے۔ بی بی سی کی متذکرہ بالا رپورٹ کے مطابق انتہا پسند بودھوں کی طرف سے مسلمانوں کو رمضان کے اختتام تک کی مہلت بھی دی گئی تھی کہ وہ اپنی مسجد کہیں اور منتقل کر لیں۔

دنیا صرف مسلمانوں کے لئےنہیں ہے۔  برمی سادھو۔ فوٹو اے ایف پی۔
دنیا صرف مسلمانوں کے لئےنہیں ہے۔ برمی سادھو۔ فوٹو اے ایف پی۔

عام طور پر بدھ مت کو برصغیر پاک و ہند تک محدود رہنے والا ایک ایسا مذہب تصور کیا جاتا ہے جو اپنا عروج دیکھ چکا۔ اشوکا کے زمانے میں یہ ایک سرکاری مذہب تھا، مگر ہندو مت نے بالآخر اس کوشکست دے ڈالی اور بدھ مت کے زیر اثر علاقوں میں نفوذ کرتا چلا گیا۔ جین مت کے ساتھ بھی کچھ اس طرح ہوا۔ آج کل بدھ مت کے زیر اثر علاقوں میں ہندوستان کے کچھ علاقے، نیپال، برما، تھائی لینڈ، سری لنکا، لاوس، کمبوڈیا، چین، جاپان، کوریا، سنگاپور اور تائیوان شامل ہیں۔ ان ممالک کے علاوہ بدھ مت کے ماننے والوں کی قابل ذکر تعداد منگولیا اور تبت میں آ باد ہے۔ (3) دلائی لامہ کا ذکر ہم سب نے سُنا ہوگا۔ تبت پر چینی تسلط کے خلاف دلائی لامہ کے بیانات، اقوام متحدہ کی نامرد جنرل اسمبلی سے خطابات اور نئی دہلی میں رہائش ان کی جدوجہد کے چیدہ نکات ہیں۔
بدھ مت کی دو قابل ذکر شاخیں ہیں۔ تھیراوادا بدھ مت سری لنکا، برما ، تھائی لینڈ ، کمبوڈیا اور ہمسایہ ممالک میں موجود ہے۔ اور دوسری قابل ذکر شاخ مہایانہ بدھ ازم چین، جاپان، کوریا سنگاپور وغیرہ میں اکثریت میں پایا جاتا ہے۔ وکی پیڈیا ہی کے مطابق بدھ مت کے ماننے والوں کی تعد ۳۵۰ ملین سے لے کر ایک اعشاریہ چھے ارب کے درمیان ہے۔
عدم تشدد بدھ مت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ (3) ہم اسی اصول کو لے کر آگے چلیں گے اور دیکھیں گے کہ بودھوں نے اس اصول کی کتنی پاسداری کی ہے۔ تاریخی بحث شائد لمبی ہو جائے اس لئے میں صدیوں قبل وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی بات نہیں کروں گا اور گزشتہ صدی کی آخری دہائیوں میں سری لنکا میں ہندو تاملوں کی علیحدگی پسند تحریک اور برما اور تھائی لینڈ میں ہونے والے واقعات کی طرف آوں گا۔سری لنکا میں بودھوں کی جانب سے ۱۹۸۰ کی دہائی میں تامل ٹائیگرز کے خلاف باقاعدہ مسلح مہم کی حمایت سے پہلے ۱۹۷۰ میں ایک تھائی بدھ سادھو پھرا کٹی وٹھو نے کمیونسٹوں کے قتل عام کو جائز قرار دیا تھا۔ ۲۰۰۴ میں تھائی لینڈ کے شورش زدہ جنوب میں مالے مسلمانوں کی علیحدگی پسند مسلح تحریک کے خلاف کچھ ایسا ہی رد عمل دیکھنے کو ملا جب تھائی حکومت نے بدھ مت کی خانقاہوں کو فوجی چیک پوسٹیں بنا دیا اور فوج کی مدد کے لئے بدھ سادھووں کو تربیت اور اسلحہ دیا۔ (4) برما میں ۱۹۹۲ سے مسلح بدھ تنظیمیں کام کر رہی ہیں اور اب تو تازہ ترین ۹۶۹ تنظیم ہے جس کا ذکر آگے چل کر آئے گا۔ اس تنظیم کا سربراہ وراتھو نامی ایک سادھو ہے جو مسلمانوں سے اپنی نفرت چھپانے کا تکلف بھی نہیں کرتا اور اس کے بقول ۔۔

“Muslims are like the African carp. They breed quickly and they are very violent and they eat their own kind. Even though they are minorities here, we are suffering under the burden they bring us,” (5)

یہ بات قابل غور ہے کہ برما کی صرف پانچ فی صد آ بادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کے خلاف اس پیمانے پر کارروائیاں کی جارہی ہیں جیسے مسلمان اس ملک پر قبضہ کیا ہی چاہتے ہیں۔ سری لنکا میں بودھو بالا سینا یا بی بی ایس نامی بودھ تنظیم کی پشت پناہی سری لنکا کے ایک صدر مہندرا راجاپکسا کے بھائی گوتبھیا راجاپکسا کر رہے ہیں (6)۔ یہ مہندرا راجپکسا وہی ہیں جن کے دور صدارت میں ایل ٹی ٹی ای نامی تنظیم کا صفایا کر کے سری لنکا میں ۱۹۸۳ سے جاری خانہ جنگی کو ختم کیا گیا۔ سننے میں یہ آیا تھا کہ پاکستانی فوج نے اس آخری معرکے میں سری لنکن فوج کی کافی مدد کی تھی، اور اسی وجہ سے سری لنکن کرکٹ ٹیم نے بھی ۲۰۱۰ میں پاکستان کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ اور بات کہ تاملوں کی جدوجہد کا صفایا کرنے کے بعد ان جزبات کا رخ دوسری اقلیتوں کی جانب ہو گیا جن میں مسلمان اور عیسائی فی الحال سر فہرست ہیں۔امریکی محقق مائکل جیری سن کے مطابق تھائی لینڈ میں بودھ عبادت گاہوں کو اسلحہ جمع کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور ان جگہوں کو باغیوں سے تفتیش کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ (6) گویا ایک تیر اور دو شکار۔ اگر باغی ان جگہوں پر حملہ کر کے فوجی اسلحہ لوٹیں یا تباہ کریں تو میڈیا میں یہ خبر پھیلائی جائے کہ مسلح مسلمان باغیوں نے بودھ عبادت گاہ پر حملہ کیا۔ اگر آپ غور کریں تو اس سے ملتی جلتی حکمت عملی آپ کو وطن عزیز کے کچھ علاقوں میں عمل پذیر ہوتی نظر آئے گی۔

برما کا بن لادن۔ سادھو اشین وراتھو (Htoo Tay Zar/GlobalPost) فوٹو
برما کا بن لادن۔ سادھو اشین وراتھو
(Htoo Tay Zar/GlobalPost) فوٹو

برما میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ برما کبھی بھی ایک پُر امن ملک نہیں رہا۔ داخلی طور پر اس سے پہلے بھی کئی پر تشدد بودھ تحریکیں برما میں چلتی رہی ہیں، مثلا شمالی برما میں شان بودھوں کی علیحدگی پسند تحریک، کاچن علیحدگی پسند تحریک جس میں اکثریت عیسائیوں کی ہے ، اور پھر کارین بودھوں کی علیحدگی پسند تحریک جو کہ کافی عرصے سے مرکزی حکومت سے لڑ رہے ہیں۔ یہ اور بات کہ مسلمانوں کے خلاف رد عمل سب سے زیادہ ہی پیدا ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق برما میں دنیا کی سب سے طویل خانہ جنگی کارین لوگوں اور حکومت کے درمیان چل رہی ہے اور اس کو ترسیٹھ برسوں سے کچھ زیادہ ہی ہو گئے ہیں۔ (7) ان تمام واقعات کا زکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ میں آپ کو بودھ مت کے علاقائی کشمکش میں کردار کے بارے آگاہ کر سکوں۔
بجا کہ عدم تشدد بودھ مت کا ایک اصول ہے، مگر یہ ایک ایسا غیر حقیقی اصول ہے کہ جس پر عملی دنیا میں کاربند نہیں رہا جا سکتا۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپانیوں کے ہاتھوں دشمن کے حال کو سامنے رکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ شائد مہاتما بدھ کہیں غلطی کر گئے تھے۔ اس اصول کے ماننے والے جب اس اصول کو توڑتے ہیں تو پھر وہ حدیں عبور کر جاتے ہیں۔ میں یہاں پہ ہر گز یہ نہیں کہنا چاہتا کہ بودھوں کو عدم تشدد کے اصول کی طرف رجوع کرتے ہوئے اپنے تمام ہتھیار پھینک دینے چاہئیں۔ ان کو اپنے اس اصول پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔

بودھو بالا سینا کا اپریل ۲۰۱۳ میں کولمبو میں ایک مظاہرہ۔ فوٹو :: تہلکہ ڈاٹ کام
بودھو بالا سینا کا اپریل ۲۰۱۳ میں کولمبو میں ایک مظاہرہ۔ فوٹو :: تہلکہ ڈاٹ کام

سری لنکا میں مسلمانوں اور کسی حد تک عیسائیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے بودھ تشدد کے محرکات تلاش کئے جا سکتے ہیں۔ ایک محرک تو تین دہائیوں پر مشتمل خانہ جنگی ہے جس میں ہندو تامل اقلیت کو بھارت کی پشت پناہی حاصل تھی اور سری لنکا میں قومیت کا جذبہ اس حد تک بڑھ گیا کہ ان کے خلاف سرکاری فتح کو سنہالہ بودھوں کی فتح سمجھا گیا۔ اس کے نتیجے میں جو جذبات پیدا ہوئے ان کو تعمیری رخ موڑنے کی بجائے سیاسی فائدہ لینے کی کوشش کی گئی اور اب اس کا نشانہ دوسری اقلیتیں ہیں۔ بی بی ایس نامی تنظیم نے کولمبو میں سب سے پہلے حلال اشیا کے خلاف مہم چلائی ۔بی بی ایس نے استعمال کی اشیا پر حلال کے سرٹیفیکیٹ کے خلاف یہ کہہ کر مہم چلائی کہ اس سرٹیفیکیٹ سے غیر مسلموں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ (8) پھر انھوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ مسلمان بچوں کو سکولوں میں زیادہ توجہ ملتی ہے۔ پھر جانوروں کے ذبیحے پر اعتراضات شروع ہوئے اور یہ بھی کہا گیا کہ مسلمان بہت زیادہ مساجد تعمیر کر رہے ہیں اور بودھوں کو زبردستی مسلمان بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ یہ تک کہا گیا کہ مسلمان زیادہ بچے اس لئے پیدا کر رہے ہیں کہ عددی اعتبار سے سری لنکن معاشرے میں فوقیت حاصل کر لیں۔ (8) حال آنکہ مسلمان صرف ۱۰ فیصد ہیں اور سنہالہ لوگ سری لنکا کی آبادی کا قریبا ۷۵ فیصد بنتے ہیں۔ سنہالہ ایکو نامی ایک بدھسٹ تنظیم کے سربراہ اکمیمانہ دیارتنا نے کہا کہ سری لنکا صرف سنہالہ لوگوں کے لئے ہے۔ دنیا پر نظر دوڑائیں، ملائیشیا، پاکستان، انڈونیشیا، افغانستان اور دوسرے ممالک کو دیکھیں، یہ سب بودھ ممالک تھے، مگر مسلمان آئے اور انھوں نے بودھ کلچر کو تباہ کیا اور ان ممالک پر قابض ہوگئے۔ ہمیں ڈر ہے کہ یہ سب یہاں پر بھی ہوگا۔ (8) تہلکہ ڈاٹ کام کے مطابق خانہ جنگی کے چار سال بعد بی بی ایس کا سامنے آن کوئی اچھی بات نہیں۔ لوگ توقع کر رہے تھے کہ خانہ جنگی کے ختم ہونے بعد سری لنکا میں امن اور خوشحالی کا ایک نیا دور سامنے آئے گا۔ مگر جو کچھ ہو رہا ہے اس کی توقع ہر گز نہ تھی، کرپشن اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث لوگوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے اور اس کا فائدہ بی بی ایس جیسے شدت پسند لے رہے ہیں ۔ نو پیدا بنیاد پرستی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شدت پسندوں نے لوگوں میں موجود غصے اور بے چینی کو کسی دوسرے کے خلاف مہم میں تبدیل کر دیا ہے اور بدقسمتی سے اس وقت یہ کسی دوسرا مسلمانوں کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ (9)
بی بی ایس کے ہتھکنڈے کسی بھی فاشسٹ تنظیم کے ہتھکنڈوں سے چنداں مختلف نہیں ہیں۔ سب سے پہلے تو انھوں نے مسلمانوں کے کلاف ایک نفرت انگیز مہم چلائی جس کا بیشتر مواد افواہیں تھیں۔ دوسرے قدم میں انھوں نے اپنے ٹارگٹ کے مذہبی عقائد، رسومات اور ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا۔ اپریل ۲۰۱۲ میں سادھووں کی قیادت میں ۲۰۰ سے زیادہ افراد نے کولمبو کی ایک مسجد پر حملہ کیا۔ اور اس کے بعد سے مساجد پر حملے زیادہ ہو رہے ہیں، کم نہیں ۔گزشتہ اٹھارہ ماہ کے دوران ۲۰ سے زیادہ مساجد پر حملے ہو چکے ہیں۔ حلال اشیا کے خلاف مہم تو صدر راجاپکسا کے بھائی کی قیادت میں بغیر کسی مخالفت کے چلتی رہی۔ تیسرا حملہ اقتصادی ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے کاروبار کو نشانہ بنایا گیا ۔ ان کی دکانوں پر پتھراو کیا گیا، اور مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ حکومت اس سب کو رکوانے کی کوشش کیوں نہیں کر رہی، یہ ایک معمہ ہے۔

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ سب کرنا حکومت کی مجبوری ہے کہ ایل ٹی ٹی ای کی شکست کے بعد اب کوئی نیا دشمن چاہئے جس کا ہوا کھڑا کر کے عوام کو یقین دلایا جا سکے کہ حکمران ان کے تحفظ کے لئے اب بھی موجود ہیں۔

ممتاز امریکی محقق مائیکل جیری سن نے اسی ماہ دئیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ

Yes, in the 1980s, respected Sri Lankan monk Walpola Rahula clearly urged J R Jayewardene (despite his initial refusal) to wage war against Tamil nationalism on the island. Influential Buddhist communities were hugely involved in mobilising opinion for military action against the mostly Hindu Tamil minority. I would argue that the brutal Eelam War IV, in which the Tamil Tigers were finally defeated by the Lankan army (which resorted to gravely unethical tactics) has its roots here — that part of such unadulterated fury comes from religious motivation. Religion can help construct a necessary duality in such cases, of good and evil, of right and wrong, of non-attachment, and the need to defend a tradition under threat. We’re seeing this in Myanmar now (where Muslim Rohingyas are being targeted), and have seen it again and again in Thailand. It’s very important to carefully look at the religious dimensions of conflict where they exist. (10)

جہاں تک برما کی بات ہے، وہاں بھی حالات اس سے چنداں مختلف نہیں۔ وہاں جو سیاسی کشمکش چل رہی ہے اس کا فائدہ ۹۶۹ جیسی تنظیمیں لے رہی ہیں۔ سادھو وراتھو نے تو اپنے آپ کو برما کا بن لادن تک قرار دے دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کی دلچسپی کے بغیر وراتھو یہ کام کر رہا ہے؟

۹۶۹ گروپ کا لوگو Photo: http://www.vice.com/
۹۶۹ گروپ کا لوگو
Photo: http://www.vice.com/

ایک برمی انسانی حقوق کے کارکن کے مطابق یہ ۹۶۹ گروپ جو کہ وراتھو کی قیادت میں مسلم مخالف جذبات کو ہوا دے رہا ہے ، دراصل برما کے نیونازی ہیں۔ اس کے مطابق :

I use the word neo-Nazi because their intent is genocidal in the sense that the Muslims of Burma—all of them, including the ethnically Burmese—are considered leeches in our society the way the Jews were considered leeches and bloodsuckers during the Third Reich when Nazism was taking root.
There is a parallel between what we saw in Nazi Germany and what we are seeing today in Burma. The 969 movement and its leading spokespersons call for attacking the Muslims of Burma—not just the Rohingyas in western Burma who were incorrectly framed as illegal migrants from Bangladesh, but all Muslims from Burma. Buddhist people who try to help Muslims or buy groceries from Muslim businesses are either beaten up or intimidated or ostracized by other Buddhists.
Also, the military is involved with this movement. At best, the military authorities are tolerating the message of hatred coming from the Buddhist preachers. At worst, and I believe this to be true, elements within the military leadership are passively backing this movement. Over the past 50 years since the military came to power, there has been a consistent pattern of the military leadership using proxy organizations within Burmese communities across the country to incite violence against targeted groups, be they dissidents, Chinese, or now, Muslims.(11)

ایک برمی مسلمان روہنگیہ مہاجر عورت  فوٹو: رایٹرز
ایک برمی مسلمان روہنگیہ مہاجر عورت
فوٹو: رایٹرز

ان کے مطابق برما میں جاری مسلم مخالف مہم سے برما کی حکومت کو تین فوائد حاصل ہوں گے۔
پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ برما کے فوجی حکمرانوں نے تازہ تازہ وردی اتاری ہے اور گو کہ ملک میں جمہوی اصلاحات نافذ کر دی گئی ہیں، مگر یہ عمل کافی سست ہے ۔ اور فوجی حکمران اس سے خوش نہیں دکھائی دیتے۔ اس عمل کو روکنے کا ایک راستہ تو یہ ہے کہ معاشرے کے استحکام کو خراب کر دیا جائے۔ انارکی پھیلا دی جائے۔ اور جب حالات خراب ہو جائیں تو یہ کہہ کر اصلاحات کے عمل کی بساط لپیٹ دی جائے کہ ، عوام تو تیار ہی نہیں تھے، یہ آزادی ٗاظہار، اور آزادی عمل ان کے لئے بہت زیادہ تھی، اس لئے انھوں نے اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور ملک کو تباہی کی طرف دھکیل دیا۔ لہذا ہمیں مداخلت کرنی پڑی تا کہ لوگ ایک دوسرے کو نہ قتل کریں۔

دوسرا فائدہ یہ ہے کہ گزشتہ برس ہونے والے انتخابات میں فوج اور اس کی کٹھ پتلی پارٹی کو شکست ہوئی تھی۔ اور انتخابات میں شکست کے بعد ان کی حالت خراب تھی۔ انھوں نے انتخابات میں شکست کے دو ماہ کے اندر اندر یہ کھیل رچایا۔ اور اب مسلم مخالف جذبات اتنے طاقت ور ہو چکے ہیں کہ آنگ سان سو کی کو بھی اس صورت حال کا سامنا کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ کیونکہ وہ انسانی حقوق کی زبان استعمال کرے گی اور یہ زبان قومیت اور مذہب کے نظرئیے کے سامنے اکثر ہیچ ثابت ہوتی ہے۔
تیسرا فائدہ یہ نظر آتا ہے کہ ۲۰۱۵ میں الیکشن ہونا ہے۔ اور ۹۶۹ نیو نازی تنظیم کی مدد سے آنگ سان سو کی کو الیکشن میں قابو کیا جا سکتا ہے اور یہ اسی صورت ہو سکتا ہے جب یہ تنظیم طاقت ور ہو۔ (11)
جہاں تک تھائی لینڈ کی بات ہے، ہم نے سرسری طور پر دیکھا کہ تھائی حکومت بودھ عبادت گاہوں کو استعمال کر رہی ہے۔ مگر تھائی لینڈ میں اکثریت بھی تو بودھوں کی ہے۔ جنوبی تھائی لینڈ میں گزشتہ ایک عشرے سے چلے آ رہے تصادم کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ علاقی ملاے مسلمانوں کی اکثریت پر مشتمل ہے۔ کسی زمانے میں یہ ایک آزاد ریاست ہوا کرتی تھی۔ ۱۹۰۹ میں تھائی لینڈ کے ساتھ اس کا زبردستی الحاق کر دیا گیا۔ یہ علاقہ ملائیشیا کے ساتھ جغرافیائی طور پر متصل ہے۔ آج کل جو مہم چل رہی ہے وہ منتشر سی ہے۔ بہت سے فریق ہیں ۔ کچھ آزادی چاہتے ہیں، کچھ ریاست پٹنی کا احیا چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ (12) مگر کوئی واضح مطالبات اب تک سامنے نہیں آئے ہیں۔

بودھ مذہب کے ماننے والے اس وقت متشدد ہوئے جب مذہب کو سیاسی طور پر استعمال کیا گیا۔ یہ استعمال اکثر حکمرانوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لئے کیا۔ جیسا کہ دور حاضر میں سری لنکا اور برما کی مثالوں سے واضح ہوا۔ بودھ مذہب کے ماننےوالوں کی دسترس سے مظلوم مسلمانوں کو بچانے کا حل بھی سیاسی ہی ہے۔ کسی قسم کی لشکر کشی یا جہادی طرز کا قدم ان لوگوں کے لئے اور زیادہ مشکلیں کھڑی کرسکتا ہے اور اس سوچ کا نقصان سراسر مسلمانوں کو ہی ہونا ہے۔

اس پر بات پھر کبھی کہ بودھ مذہب کے ماننےوالوں کو کیا کرنا چاہئے۔

مآخذ::۔

1. Alan Strathern. Why are Buddhist monks attacking Muslims?: BBC; 2013 [cited 2013 Aug 11]. Available from: URL:http://www.bbc.co.uk/news/magazine-22356306.

2. British Broadcasting Corporation. ‮آس پاس‬ – ‭BBC Urdu‬ – ‮بدھ متوں کا مسجد پر حملہ، کرفیو نافذ‬ [cited 2013 Aug 11]. Available from: URL:http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2013/08/130810_lanka_mosque_attacked_rh.shtml.

3. Buddhism – Wikipedia, the free encyclopedia; 2013 [cited 2013 Aug 11]. Available from: URL:https://en.wikipedia.org/wiki/Buddhism.

4. Buddhism and violence – Wikipedia, the free encyclopedia; 2013 [cited 2013 Aug 11]. Available from: URL:https://en.wikipedia.org/w/index.php?oldid=564923592.

5. Tin Aung Kyaw. Buddhist Monk Wirathu Leads Violent National Campaign Against Myanmar’s Muslims; 2013 [cited 2013 Aug 11]. Available from: URL:http://www.huffingtonpost.com/burma-journal/buddhist-monk-wirathu-lea_b_3481807.html.

6. Deutsche Welle (www.dw.de). Violence in the name of Buddhism | Asia | DW.DE | 04.07.2013: Deutsche Welle (www.dw.de); 2013 [cited 2013 Aug 12]. Available from: URL:http://www.dw.de/violence-in-the-name-of-buddhism/a-16929981.

7. Patrick Winn / GlobalPost. Myanmar: ending the world’s longest-running civil war; 2012 [cited 2013 Aug 12]. Available from: URL:http://www.post-gazette.com/stories/news/world/myanmar-ending-the-worlds-longest-running-civil-war-635657/.

8. Palash Ghosh. Hardline Buddhist Nationalists Targeting Muslim Minorities In Sri Lanka; 2013 [cited 2013 Aug 12]. Available from: URL:http://www.ibtimes.com/violent-monks-hardline-buddhist-nationalists-targeting-muslim-minorities-sri-lanka-1160753.

9. Subha Wijesiriwardena. The Lankan monks that believe in violence; 2013 [cited 2013 Aug 12]. Available from: URL:http://www.tehelka.com/the-lankan-monks-that-believe-in-violence/.

10. Praveen Dass. Buddhists display the same emotions of anger, violence: Michael Jerryson; 2013 [cited 2013 Aug 12]. Available from: URL:http://articles.timesofindia.indiatimes.com/2013-08-04/all-that-matters/41056649_1_tamil-tigers-buddhism-muslim-rohingyas.

11. Ray Downs. Is Burma’s Anti-Muslim Violence Led by “Buddhist Neo-Nazis”?: VICE; 2013 [cited 2013 Aug 11]. Available from: URL:http://www.vice.com/read/is-burmas-anti-muslim-violence-led-by-buddhist-neo-nazis.

12. South Thailand insurgency – Wikipedia, the free encyclopedia; 2013 [cited 2013 Aug 12]. Available from: URL:https://en.wikipedia.org/w/index.php?oldid=567699911.

5 thoughts on “عدم تشدد , بودھ, اور مسلمان”

  1. بلاگستان یا اُردو سیّارہ پر آپ کی تحریر کے عنوان پر کلک کیا جائے تو آپ کا بلاگ نہیں کھلتا کچھ اور کھل جاتا ہے ۔ میں نے مندرجہ ذیل یو آر ایل لکھ کر کھولا ہے
    https://inspire.org.pk/

  2. سری لنکا کا صدر ایک آمرانہ مزاج رکھنے والا حکمران ہے جس نے اپنے مخالف کو قید کروا دیا۔ وہ سابق فوجی سربراہ تھا، اس نے وردی اتار کر اس کے خلاف الیکشن لڑا اور اس کے بھائی (جو جنگ کے وقت وزیر تھا) پر آخری معرکے میں ماورائے عدالت قتل کا الزام لگایا آج وہ خود سڑ رہا ہے۔ صدر اقتدار کو طول دے رہا ہے اور اقلیتوں کی بینڈ بج رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں وہاں صوبائی انتخابات ہوئے ہیں، تاملوں کو نام نہاد حقوق دئیے گئے ہیں لیکن صوبائی کونسلوں کے اختیارات اور کم کر دئیے گئے ہیں۔ سارا چٹنی مال کولمبو کے ہاتھ میں ہے۔ جیسے ہمارے اضلاع صوبوں کے محتاج ہیں۔
    تھائی لینڈ کے انتہائی جنوب کے تین صوبوں میں ایک نہیں کئی گروہ برسرِ پیکار ہیں۔ حکومت نے ایک کے ساتھ جنگ بندی اور مذاکرات شروع کیے تھے دوسرے ناک میں دم کیے ہوئے ہیں۔ وہاں اسکول کے اساتذہ کا قتل، اور موٹر سائیکل سوار افراد کے فائرنگ سے قتل ہمارے خودکش حملوں جتنے ہی مقبول ہیں۔ اکثر اوقات خبروں میں مرنے والے عام شہری بتائے گئے، ماں باپ کو چار پانچ سالہ بچے کے سامنے گولیوں سے اڑا کر موٹر سائیکل سوار نکل لیے۔ اب اللہ جانے یہ حکومتی ایجنٹ تھے یا سچ میں عام شہری ہی۔
    برما میں دوہری بے غیرتی ہے۔ ایک روہنگیا کے خلاف اور دوسری وہاں کے نسلی مسلمانوں کے خلاف (ملائی، برمی ہیں یا کوئی اور۔۔۔علاوہ روہنگیا)۔ روہنگیا تو بچے چارے کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں ہی، اب دیگر مسلمانوں پر بھی عرصہ حیات تنگ ہو رہا ہے۔ جاپان، چین اور مغربی ممالک کے تجارتی مفادات وابستہ ہیں اس لیے وہ لب سیے ہوئے ہیں۔ حتی کہ آنگ سان سُو کی، کی بھی بولتی بند ہو جاتی ہے جب مسلمانوں کا معاملہ آئے تو۔ پچھلے دنوں جاپان کے دورے پر آئی تو منتظمین نے روہنگیا مسلمانوں کو ملاقات ہی نہیں کرنے دی سُو کی سے۔
    اللہ ہی خیر کرے۔

  3. یہ بہت اچھی تحقیقاتی تحریر ہے۔
    اگر ہم اس کا انگریزی میں ترجمہ کرکے دوبارہ شایع کرنا چاہیں تو کیا اس کی اجازت ہے ؟

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں