Skip to content

عالمگیریت کے اثرات: پاکستانی قوانین اور رسم و رواج پر تجزیہ

عالمگیریت کے اثرات: پاکستانی قوانین اور رسم و رواج پر تجزیہ
عالمگیریت کے اثرات: پاکستانی قوانین اور رسم و رواج پر تجزیہ

 عالمگیریت کے اثرات

عالمگیریت کے بڑھتے ہوئے اثرات کے پیش نظر، سب سے پہلے تو میں اُن قارئین سے معذرت کروں گا جن کے خیالات کو میں طالبانیت کا نام دینے جا رہا ہوں۔ مجھے امید ہے وہ تشبیہ دینے پر برا نہیں مانیں گے کیونکہ میں بارہا یہ کہہ چکا ہوں کہ اب ہمارے معاشرے میں اختلاف رائے کی شدت اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ مخاطب کی مختلف رائے کو بھی تسلیم نہیں کیا جا رہا اور اختلاف رائے کی اہمیت کو تسلیم کرنے کی بجائے مخاطب کو پہلے سے بنے کسی سانچے میں جھٹ سے ڈھال دیا جاتا ہے۔ عالمگیریت کے پس منظر میں، آپ میں سے جو قارئین میرے بلاگ کی تحریروں کو باقاعدگی سے ملاحظہ کرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ملالہ یوسفزئی پر جب حملہ ہوا تو میں نے ان سانچوں کو صرف دو گروہوں میں تقسیم کیا تھا: انتہائی دائیں بازو اور انتہائی بائیں بازو۔  یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کو مختلف ناموں سے پکارتے ہیں اور طالبان، ظالمان، لبرل فاشسٹ، امریکی پٹھو وغیرہ کے الفاظ ہمارے لئے یقینا نئے نہیں ہیں۔ اسی لئے وہ حضرات جو جدیدیت کے دلدادہ ہیں وہ اپنے مخالفین کو، جن میں سے ہر کوئی، چاہے وہ ایک معتدل رائے رکھنے والا ہی کیوں نہ ہو، طالبان قرار دینے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا اظہار نہ کریں گے۔ مجھے تو خود یہ سوچ کر ہنسی آ رہی ہے کہ میری یہ رائے خود بھی ایک قسم کی شدت پسندانہ سوچ ہے۔ شاید ایسا بالکل نہ ہو۔

  عالمگیریت کے تناظر میں، میں پاکستان میں رہنے والوں کی بات کروں گا۔ ہم لوگ ایک ناقص نظام کے سہارے چل رہے ہیں۔ یہ ناقص نظام ہمیں 1947 سے ورثے میں ملا تھا جب برصغیر کی تقسیم تو ہو گئی مگر ہمارے زعما اور قائدین بظاہر کسی قسم کے ہوم ورک کے بغیر ہی اس بار کو اٹھانے کے لئے سامنے آ گئے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کا آئین بنانے میں ہی کئی سال لگ گئے۔پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے دو سال بعد قرارداد مقاصد پیش ہوئی جس کو بعد میں کئی دساتیر کا حصہ بنایا گیا۔ اس قرارداد میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کیا گیا۔ مگر عملاً ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ اس کا اُلٹ ہیں۔ ہمارے ملک میں کم ہی قوانین ایسے ہیں جو اسلامی تعلیمات سے میل کھاتے ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم لوگ ایک کنفیوزڈ قوم بن چکے ہیں۔ ایسی کافی چیزیں آپ کو مل جائیں گی جو ملک کے آئین کی رُو سے ہم کر تو سکیں ، مگر مذہب کی رُو سے نہیں۔ ایک مثال دینا چاہوں گا۔ اگر آپ چار سال قبل شائع ہونے والی میری یہ تحریر پڑھ لیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔ اسی مثال کو لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کے آئین کی رُو سے جو کام قانونی ہوں، ضروری نہیں کہ وہ مذہب کی رُو سے بھی درست ہوں۔

یہ ساری تمہید اس لئے کہ کل میں نے ایک جُملہ سنا کہ، “عالمگیریت کے سمندر میں کوئی جزیرہ نہیں ہوتا”۔

ملک میں سزائے موت کے سینکڑوں قیدی کافی عرصے سے موت کی سزا کا انتظار کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے تو ان سزاؤں پر عمل در آمد کو ٹالا ہوا تھا، موجودہ حکومت نے آتے ہی ان پر عمل درآمد کا فیصلہ کیا جو کہ کچھ عرصے بعد ہی واپس لینا پڑا۔ سُننے اور پڑھنے میں تو یہ آیا تھا کہ حکومت کو ایسا اس لئے کرنا پڑا کہ کونسل آف یورپ کا رکن بننے کے لئے ایسا کرنا لازمی تھا۔ مگر مجھے یورپی یونین کی سفیر کی جانب سے شائع کی گئی تردید بھی پڑھنے کو ملی۔ اس لئے فی الحال کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ درون پردہ کیا اسرار چھپے ہوئے ہیں۔

بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے اقتباس کے مطابق

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان میں ستائیس ایسے جرائم ہیں جن کے لیے سزائے موت کے سزا دی جاتی ہے ان میں توہین رسالت، زنا، اغوا، ریپ، خواتین کے ساتھ زیادتی، منشیات سمگل کرنا، اسلحے کا کاروبار کرنا اور ریلوے سسٹم کو تباہ کرنا شامل ہے۔ ان میں سے کئی جرائم ایسے ہیں جو آئی سی سی پی آر کے آرٹیکل چھ کے مطابق سنگین جرائم نہیں ہیں۔

اگر ہم نے دنیا کے ساتھ چلنا ہے، اُن کے ساتھ کاروبار کرنا ہے تو پھر، ان میں سے کئی جرائم کی سزاؤں میں تخفیف کرنی ہوگی۔ شائد سزائے موت ختم کرنی ہی پڑے۔ ذرا سوچیں، اگر دنیا کہے کہ توہین رسالت کی سزا موت ختم کردی جائے ورنہ ہم آپ سے تجارت نہیں کریں گے۔ عالمگیریت کے سمندر نے آپ کو ڈبو دینا ہے۔ میرا یہ خدشہ اس وقت درست ثابت ہوا جب مجھے اس بیان کو پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ بیان  پاکستان سُنی تحریک علما بورڈ کی طرف سے آیا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ :

علامہ امانت علی حیدری، علامہ اعجاز رسول، علامہ صداقت علی ضیائی، علامہ محمدعاصم قریشی، علامہ عبدالحفیظ رضوی، علامہ سبیل احمد ہزاروی، علامہ بشیر نقشبندی و دیگر نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ سزائے موت پر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ مداخلت فی الدین ہے۔ اسلام نے قصاص کو زندگی قراردیا ہے، حکومت مغربی قوتوں کی خوشنودی کیلئے قصاص جیسے اسلامی قانون کامذاق اڑانے سے باز رہے۔ اسلامی قوانین پر بیرونی ڈکٹیشن قطعاََ قبول نہیں۔ سزائے موت پر عملدرآمد کو روکنے سے قاتلوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ اِس حکومتی اقدام سے اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے قتل وغارتگری میں ملوث سینکڑوں مجرموں کو سنائی گئی سزائوں پر بھی سوالیہ نشان لگ گیاہے۔جب تک جزا و سزا کے قانوں پر عملدرآمد نہیں کیا جاتاملک میں دہشتگرد دندناتے پھریں گے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ

علماء کرام نے کہا کہ سزائے موت کے قانون کا خاتمہ دراصل قانون ناموس رسالت کو غیرمؤثر بنانے کی سازش ہے۔ اسمبلیوں میں تحفظ نا موس رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم قانون کیخلاف باتیں کرنے والے عوامی مینڈیٹ کی توہین کر رہے ہیں۔ کسی نام نہاد مذہبی سکالر یا سیاستدان کو ناموس رسالت قانون میں ترمیم کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ حکومت قرآن و سنت کے مطابق بنائے گئے قونین پر مکمل طور پر عملدرآمد کروائے۔

جناب، اب تو معاملہ اور بھی پیچیدہ ہو گیا ہے۔ کل کو کسی اور مسلک کے علما سامنے آ جائیں گے۔ اور اگر طالبان نے بھی اس مؤقف کو اپنا لیا تو کیا “ہماری جنگ ” کے محاذوں میں ایک نئے محاذ کا اضافہ ہوجائے گا؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

ہم ایسے وقت میں جی رہے ہیں کہ دُنیا سے کٹ کے نہیں رہا جا سکتا۔ یہ میرا خیال ہے، شائد ایسا ممکن بھی ہو، مگر ہر کوئی اصحاب کہف کی طرح خوش قسمت بھی تو نہیں ہوتا نا۔ دنیا کو ایک گلوبل ویلج کا نام دینے والوں کے ذہن میں گلوبل ولیج کے ایک چوہدری کا نام بھی ہوگا۔،اس گلوبل ولیج میں رہنے والوں کے لئے وضع کردہ قوانین بھی ہوں گے اور یوں ایک ہوم ورک کے بعد یہ تصور سامنے لایا گیا ہوگا۔ جو لوگ کام کرنے والے ہوتے ہیں وہ پہلے مکمل تیاری کرتے ہیں اور پھر میدان میں اترتے ہیں، یوں، کامیابی بھی اُن کے قدم چومتی ہے۔

جذباتی نعرے صرف سپاہ کا خون گرمانے اور ان کو میدان میں کام آنے کے لئے استعمال کئے جا سکتے ہیں، ان کا کوئی دیرپا استعمال نہیں ہوتا۔ ہم لوگ جزباتی نعروں سے ہی کام چلا لیتے ہیں۔ ویسے بھی دنیا عارضی ٹھکانہ ہی تو ہے۔

گزتشتہ دنوں میں نے اوریا مقبول جان کے دو کالم پڑھے۔ ان میں انھوں نے موجودہ سُودی نظام پر کافی تنقید کی تھی۔ میں مانتا ہوں کہ بینکینگ کا موجودہ نظام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھا، مگر اب جب کہ اس نظام نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے، کیا آپ کے پاس اس کا کوئی متبادل ہے؟

اوریا مقبول جان صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے اس نظام کا متبادل تلاش کر لیا ہے اور اس کی تجاویز تیار کر کے وہ جلد ہی وفاقی شرعی عدالت میں اسی سلسلے میں چل رہے ایک مقدمے میں پیش کریں گے۔ اور اس کا مسودہ انھوں نے یہاں پر پیش بھی کر دیا ہے۔ کوئی صاحب علم اگر اس کا اردو میں ترجمہ کر سکے تو بہت بہتر ہوگا۔ اللہ کرے ہمیں سوُدی نظام سے چھٹکارا ملے۔ مگر اس کا فائدہ کیا ہوگا؟ اگر ہم اپنے ملک میں تو غیر سودی نظام چلائیں اور سرحد پار کرتے ہی سودی نظام سے دوبارہ ملاقات ہو جائے۔ اس سوال کا جواب شائد اس وقت بہت ہی مشکل سے ملے۔

عالمگیریت کا ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ دنیا میں ہم جنس پرستی کو قانونی شکل دی جا رہی ہے۔ آج نہ سہی، کل۔ کل نہ سہی، پرسوں، عالمگیریت کے دعوےٰدار ہمارے دروازے پر بھی آ پہنچیں گے اور مطالبہ کریں گے کہ اگر تجارت کرنی ہے، موسٹ فیورڈ نیشن کا درجہ پانا ہے تو ہم جنس پرستی کو قانونی شکل دینی ہوگی۔ پھر کیا کریں گے ہم لوگ؟

کیا پھرصرف کوئی سُنی یا شیعہ علما بورڈ اس بارے میں بیان دے گا اور ہمارے ملک کے باقی سارے دانش ور خاموش رہیں گے؟ صرف اس لئے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملک تباہ ہو جائے گا؟  کیا اُس وقت بھی عالمگیریت ، یا جدیدیت یا تہذیب کے حملوں کی مزاحمت کرنے والوں کو طالبان، ظالمان یا پتھر کے دور میں واپس لے جانے والے کہہ کر دھتکار دیا جائے گا؟

کیا اُس وقت کوئی ہوگا جو یہ کہہ سکے کہ اَلَیسَ مِنکُم رَجُل رَشیدُ۔ ؟؟؟ یہ فیصلہ کرنے سے پہلے سوچ تو لو کہ کیا کرنے جا رہے ہو۔

تحریر کے آخر میں آسان قرآن و حدیث سافٹوئر کی مدد سے تلاش کی گئی سورۃ بقرۃ کی آیت ایک سو بیس اور اس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔

آیت 120۔

1 thought on “عالمگیریت کے اثرات: پاکستانی قوانین اور رسم و رواج پر تجزیہ”

  1. آپ کا لکھا سر آنکھوں پر ۔ پوری تحریر کے متعلق اپنا خیال ملتوی کر رہا ہوں کہ کچھ روز سے مصروفیت نے گھیرا ہے اور شاید کچھ دن اور چلے گی پھر عید ۔ فی الحال صرف اتنا عرض کروں گا کہ پاکستان کے آئین کا پہلا مسؤدہ تیار ہو رہا تھا کہ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو ایک سازش کے تحت قتل کر دیا گیا جس سے کچھ تاخیر ہوئی ۔ جب مسؤدہ اسمبلی میں پیش کیا جانا تھا تو 1953ء میں وزیر اعظم خواجہ ناظم دین کو اُسی سازش کے تسلسل میں برخاست کر دیا گیا ۔ جب پہلی منتخب اسمبلی نے غلام محمد کی بات نہ مانتے ہوئے 1954ء میں وہی مسؤدہ بغیر نئے وزیر اعظم کی منظوری کےاسمبلی میں پیش کرنا چاہا تو اسمبلی ہی کو چلتا کر دیا گیا ۔ یہ حقائق جان بوجھ کر قوم سے چھپائے جاتے ہیں

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں