Skip to content

شہید کی تعریف حدیث کی روشنی میں۔

اکتیسویں حدیث:۔

سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1851 حدیث مرفوع مکررات 9 متفق علیہ 0
عتبہ بن عبداللہ بن عتبہ، مالک، عبداللہ بن عبداللہ بن جابر بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن ثابت کی مزاج پرسی کو تشریف لائے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے اوپر مرض کا غلبہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو آواز سے پکارا انہوں نے جواب نہیں دیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اِنَّا ِللہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُون اور ارشاد فرمایا تمہارے اوپر ہم مغلوب ہوگئے اے ابوالربیع (ابوالربیع حضرت عبداللہ بن ثابت کی کنیت ہے) مطلب یہ ہے کہ تقدیر کا لکھا ہوا ہمارے ارادہ پر غالب ہوگیا ہم تو تمہاری زندگی کی خواہش رکھتے ہیں لیکن تقدیر ہمارے ارادہ پر غالب آگئی اور تمہاری تقدیر میں موت ہے۔ یہ بات سن کر خواتین نے چیخ ماری اور وہ رونے لگ گئیں۔ یہ دیکھ کر حضرت ابن عتیک ان کو خاموش کرنے لگ گئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم ان کو چھوڑ دو جس وقت(موت) لازم ہو جائے تو اس وقت کوئی بھی نہ رویا کرے۔ لوگوں نے عرض کیا لازم ہونے سے کیا مراد ہے؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ موت کا آنا یہ سن کر ان کی صاحبزادی نے فرمایا کہ مجھ کو توقع تھی کہ تم کو شہادت کا مقام حاصل ہوگا اس لئے کہ تم سامان جہاد کی تیاری کر چکے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ان کو نیت کے مطابق ثواب عطاء فرمایا تم کس چیز کو شہادت سمجھ رہے ہو؟ لوگوں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اللہ کے راستہ میں قتل کئے جانے کو۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ شہادت سات قسم کی ہوتی ہے اللہ کے راستہ میں قتل کئے جانے کے علاوہ (اور شہادت کی تفصیل یہ ہے) جو شخص طاعون میں انتقال کر جائے تو وہ شخص شہید ہے اور جو شخص پیٹ کے مرض میں مر جائے تو وہ شہید ہے اور جو شخص پانی میں غرق ہو کر مر جائے تو وہ شہید ہے اور جو شخص کسی عمارت وغیرہ میں دب کر مر جائے تو وہ شہید ہے اور جو کوئی مرض ذات الجنب میں مرے وہ شہید ہے جو شخص آگ سے جل کر مر جائے تو وہ شہید ہے اور جو خاتون بچہ کی ولادت میں مر جائے وہ شہید ہے یا بچہ کی ولادت کے بعد مر جائے تو وہ شہید ہے۔

بتیسیوں حدیث:۔

سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 2060 حدیث مرفوع مکررات 9 متفق علیہ 0
عبیداللہ بن سعید، یحیی، التیمی، ابوعثمان، عامر بن مللک، صفوان بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مرض طاعون (وبا) اور پیٹ کے مرض میں مر جانا اور پانی میں غرق ہو کر مرنا اور کسی خاتون کا بچہ کی ولادت کی تکلیف میں فوت ہونا اس کا شہید ہونا ہے۔ حضرت تیمی جو کہ اس حدیث شریف کے روایت کرنے والے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم سے یہ حدیث حضرت ابوعثمان نے کئی مرتبہ نقل کی اور ایک مرتبہ اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل کیا۔

تینتیسویں حدیث:۔

سنن نسائی:جلد دوم:حدیث نمبر 1076 حدیث مرفوع مکررات 48 متفق علیہ 17
یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، عبدالرحمن بن شریح، عبداللہ بن ثعلبہ حضرمی، حجیرہ، حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کی وفات ان پانچ حالتوں میں ہو تو وہ شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہید ہے (1) اللہ کے راستہ میں شامل ہو کر وہ قتل ہو جائے (2) غرق ہو جائے (3) یا پیٹ کے مرض میں وفات پا جائے (4) یا طاعون کے مرض میں اس کی موت واقع ہو جائے یا (5) کوئی خاتون حالت نفاس میں فوت ہو جائے ان سب کا درجہ شہادت ہے۔

چونتیسیوں حدیث:۔

سنن نسائی:جلد سوم:حدیث نمبر 403 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 3 متفق علیہ 0
عمرو بن علی، عبدالرحمن بن مہدی، ابراہیم بن سعد، وہ اپنے والد سے، ابوعبیدة بن محمد، طلحہ بن عبداللہ بن عوف، سعید بن زید سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے مال کے واسطے لڑے پھر وہ (مال وجان کی حفاظت کرتے ہوئے) قتل کر دیا جائے تو وہ شہید ہے اسی طریقہ سے جو شخص اپنی جان بچانے کے واسطے مارا جائے وہ شہید ہے اور جو شخص اپنے اہل و عیال کے واسطے لڑے تو بھی شہید ہے۔

پینتیسویں حدیث:۔

جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 1454 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 23 متفق علیہ 3
محمد بن بشار، ابوعامر، عبدالعزیز بن مطلب، عبداللہ بن حسن، ابراہیم بن محمد بن طلحہ، حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اپنے مال کی حفاظت میں قتل ہونے والا شہید ہے اس باب میں حضرت علی، سعید بن زید، ابوہریرہ، ابن عمر، ابن عباس اور جابر سے بھی روایات منقول ہیں عبداللہ بن عمرو کی حدیث حسن ہے اور ان کے متعدد سندوں سے مروی ہے بعض اہل علم نے جان ومال کی حفاظت میں لڑنے کی اجازت دی ہے ابن مبارک فرماتے ہیں کہ اپنے مال کی حفاظت میں لڑے اگرچہ دو درہم ہوں۔

چھتیسویں حدیث:۔

جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 1713 حدیث مرفوع مکررات 0 متفق علیہ 0
قتیبہ، ابن لہیعہ، عطاء بن دینار، ابویزید خولانی فضالہ بن عبید، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ شہید چار قسم کے لوگ ہیں ایک وہ مؤمن جس کا ایمان مضبوط ہو وہ دشمن سے مقابلہ کرے اور اس نے اللہ تعالیٰ سے کئے گئے وعدہ کو سچ کر دیکھایا یہاں تک کہ شہید ہوگیا۔ یہ وہ شخص ہے کہ قیامت کے دن لوگ اس کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے اور فرمایا اس طرح اس کے ساتھ سر اٹھایا یہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹوپی گر گئی۔ راوی کہتے ہیں کہ مجھے علم نہیں کہ ٹوپی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گری یا حضرت عمر رضی اللہ کی۔ دوسرا وہ مؤمن جس کا ایمان مضبوط ہو اور دشمن سے مقابلہ میں خوف کی وجہ سے اس کا یہ حال ہے گویا کہ اس کی جلد کو کانٹوں سے چھلنی کر دیا گیا ہے۔ پھر ایک تیر اسے آ کر لگے اور اسے قتل کر دے۔ تیسرا وہ مؤمن جس کے نیک اور برے اعمال خلط ملط ہوگئے ہوں اور دشمن سے ملاقات (یعنی مقابلے) کے وقت اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب کی امید رکھتے ہوئے قتل کر دیا جائے یہ تیسرا درجہ ہے۔ چوتھا وہ مؤمن جو گناہ گار ہوتے ہوئے دشمن سے مقابلے کے وقت اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے قتل کر دیا گیا اور یہ چوتھے درجہ میں ہے۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اس حدیث کو صرف عطاء بن دینار کی روایت سے جانتے ہیں۔ میں (امام ترمذی رحمہ اللہ) نے امام بخاری رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ سعید بن ابوایوب نے یہ حدیث عطاء بن دینار سے اور وہ شیوخ خولانی سے نقل کرتے ہیں لیکن اس میں یزید کا ذکر نہیں کرتے اور عطاء بن دینار کی روایت میں کوئی حرج نہیں۔

سینتیسویں حدیث:۔

جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 849 حدیث مرفوع مکررات 3 متفق علیہ 0
محمود بن غیلان، ابواحمد زبیری، خلاد بن طہمان ابوعلاء خفاف، نافع بن ابی نافع، حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص صبح کے وقت ( أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ) تین مرتبہ پڑھنے کے بعد سورت الحشر کی آخری تین آیتیں پڑھے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لئے ستر ہزار فرشتے مقرر کر دیتے ہیں۔ اور اگر وہ اس دن مر جائے تو اس کا شمار شہیدوں میں ہوتا ہے۔ نیز اگر کوئی شام کو پڑھے تو اسے بھی یہی مرتبہ عطاء کیا جائے گا۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

اڑتیسویں حدیث:۔

سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 937 حدیث مرفوع مکررات 2 متفق علیہ 0
عبیداللہ بن یوسف، قیس بن محمد، عفیر بن معدان، سلیم بن عامر، حضرت ابوامامہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ایک بحری جنگ دس بری جنگوں کے برابر (باعث اجروثواب) ہے اور سمندری سفر میں جس کا سرچکرائے وہ اس شخص کا مانند ہے جو اللہ سبحانہ وتعالی کی راہ میں خون میں لت پت ہو۔ نیز فرمایا بحری شہید دو بری شہیدوں کے برابر ہے اور سمندری سفر میں جس کا جی متلائے وہ خشکی میں خون میں لت پت ہونے والے کی مانند ہے اور ایک موج سے دوسری موج تک جانے والا ایسا ہے جیسے طاعت اللہ میں تمام دنیا قطع کرنے والا اور اللہ نے ملک الموت کے ذمہ لگایا ہے کہ تمام ارواح قبض کرے سوائے بحری شہیدوں کے کہ ان کی ارواح قبض کرنے کے انتظام اللہ خود فرماتے ہیں اور بری شہید کے سارے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں سوائے قرض کے اور بحری شہید کے گناہ اور قرض سب بخش دئیے جاتے ہیں ۔

انتالیسویں حدیث:۔

مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 931 مکررات 0 متفق علیہ 0
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ ) سے پوچھا کہ تم اپنے آپ میں سے کس کو شہید شمار کرتے ہو ؟” صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! جو شخص اللہ کی راہ میں مارا جائے وہ شہید ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس صورت میں میری امت کے اندر شہیدوں کی تعداد کم ہو جائے گی جو شخص اللہ کی راہ میں مارا جائے وہ تو (حقیقی شہید ہے ) لیکن جو شخص اللہ کی راہ (یعنی جہاد ) میں (بغیر قتل وقتال کے خود اپنی موت سے ‘) مر جائے وہ بھی شہید ہے جو شخص وباء میں مرے وہ بھی شہید ہے اور جو شخص پیٹ کی بیماری (یعنی استسقاء اور اسہال وغیرہ) میں مرے وہ بھی شہید ہے۔

چالیسویں حدیث:۔

مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 928 مکررات 0 متفق علیہ 0
اور حضرت سہل ابن حنیف کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جو شخص سچے دل (یعنی طلب صادق کے جذبے سے ) اللہ تعالیٰ سے شہادت کا طالب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے شہیدوں کے درجہ پر پہنچاتا ہے اگرچہ وہ اپنے بستر پر مرے (یعنی صدق نیت اور طلب صادق کی وجہ سے شہیدوں جیسا ثواب پاتا ہے ۔” (مسلم )۔

اللہ بارک و تعالیٰ ہم سب کو شہادت نصیب فرمائے۔ آمین۔

Pages: 1 2 3 4

3 thoughts on “شہید کی تعریف حدیث کی روشنی میں۔”

  1. ماشاء اللہ ۔ بہت محنت کر کے اچھے طریقہ سے نپٹایا ہے سوال کو ۔ اللہ مزید علم عطا فرمائے ۔ اور اللہ قارئین کو پڑھنے بلکہ سمجھ کر پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے

  2. علی فواد

    ما شا اللہ خوب لکھا لیکن کیونکہ معاملہ فرمودات مقدسہ کا ہے اس لئے تھوڑا سا انتباہ
    آپ نے احادیث کا ذکر کر کے لکھا ہے کہ کیا رکھا ہے ان میں
    اردو معاورہ میں اسکا مطلب ہے کہ ان میں کچھ نہیں رکھا، عموما یہ الفاظ sarcasticaly
    بولے جاتے ہیں
    میں جانتا ہوں آپ کا یہ مطلب نہیں لیکن بہرحال مزید احتیاط مطلوب ہے کیونکہ یہ بارگاہ بہت عالی ھے

    1. وہ آئیں ہمارے بلاگ پہ خدا کی قدرت ہے۔

      آپ کا یہ تبصرہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔ میں ابھی ترمیم کر دیتا ہوں۔ دراصل خیالات کی روانی جو کبھی کبھی ہی میسر ہوتی ہے، کچھ بھی لکھوا دیتی ہے ۔۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں