Skip to content

شہید کی تعریف اور سید منور حسن کا بیان

سید منور حسن کے بیان نے آج کل ہنگامہ برپا کیا ہوا ہے۔ ہر وہ شخص جس کو اس بیان پر تنقید سے کسی قسم کا کوئی فائدہ ہوسکتا ہے وہ اس پر تنقید کر کے نام کما رہا ہے۔ مگر کیا آپ نے سوچا کہ یہ بیان حقیقت میں تھا کیاِ؟ میں نے بھی نہیں سُنا تھا۔ مجھے تو آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے بعد اندازہ ہوا کہ بات کچھ بڑھ گئی ہے۔ اس پر سُنی علما کونسل جو کہ غالبا بریلوی مسلک کے علما کی تنظیم ہے، پردہ نہ اٹھاو فیم الطاف حسین اور اس قبیل کے دوسرے لوگوں کے بیانات پڑھے تو لگا کہ یہ لوگ حب علی میں نہیں بلکہ بغض معاویہ میں اس بیان پر تنقید کر رہے ہیں۔

بات مجھے پھر بھی علم نہیں تھی اور گزشتہ دنوں کافی سفر بھی کرنا پڑا، اس لئے بیان سُننے کا موقع تو مل ہی نہ سکا۔ سوچا سید منور حسن نے اپنے طور پر کوئی دو ٹوک بات کہہ دی ہوگی اور یوں ہنگامہ کھڑا ہو گیا ہوگا۔

مگر آپس کی بات ہے ، کوئی پولیس، فوج یا ایجنسی کا عہدے دار حادثے میں بھی ہلاک ہو جائے تو اخباروں میں شہید لکھا جاتا ہے، اس کے بر عکس عام کیڑے مکوڑے، معاف کیجئے گا ،عوام ، ہلاک قرار پاتے ہیں۔ شہید تو اب ایک سیاسی درجہ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو شہید ماننے والے اسے اب تک زندہ قرار دے رہے ہیں۔ ان زندہ پیروں میں بے نظیر بھٹو ” شہید” کا اضافہ ہو چکا ہے۔ میرا پیارا لیڈر جنرل ضیاءالحق تو شہید تھا ہی، شکر ہے محترمہ نصرت بھٹو کو شہیدوں کی فہرست میں نہیں ڈال دیا گیا۔ یہ سیاسی فہرست بہت لمبی ہے۔ شہید لیاقت علی خان، کچھ کے نزدیک شہید محمد علی جناح کہ لیاقت علی خان سے ان کے تعلقات اچھے نہ تھے آخری ایام میں، شہید مجیب الرحمان۔ سارجنٹ ظہور شہید جس کے مرنے کے بعد مشرقی پاکستان میں علیحدی پسند جذبات میں کافی اضافہ ہوا۔ شہید عمران فاروق، شہید عظیم احمد طارق، شہید ساجد ایم پی اے ، جن کے بارے میں اخباری اطلاعات آئیں کہ زمینوں پہ قبضے کے معاملات کے چکر میں متحدہ کی اعلیٰ قیادت نے ان کو ہلاک کروایا۔۔

اینٹ اٹھاو، شہید نکلے گا۔ اس اصطلاح کے ساتھ اتنا ——– ہوا ہے کہ اب شہید تو کانپ رہے ہوں گے اپنی قبر میں۔۔
آپ دیکھیں کہ سید منور حسن نے اصل میں کہا کیا ہے جس پر اتنا بڑا ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔اور خود فیصلہ کریں کہ کیا انھوں نے غلط کہاِ؟

اضافہ:۔

آج 14 نومبر کو میں ایک اور وڈیو اس پوسٹ میں شامل کر رہا ہوں۔ یہ سمیع ابراہیم کے پروگرام ٹاپ سٹوری کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جو گزشتہ ایک دو دنوں میں ہی نشر کیا گیا ہوگا۔ جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین سے جب سید منور حسن کے بیان کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا:۔

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں