Skip to content

شہید جامعہ تعلیم القران

عزاداری زندہ باد
عزاداری زندہ باد
کیا یہی سنت حسینی ہے؟
کیا یہی سنت حسینی ہے؟

شہید جامعہ تعلیم القران

آج گھر آنے پر ابو کے ساتھ گپ شپ ہوئی تو اس دوران ایبٹ آباد اور بٹگرام میں ہونے والی جزوی ہڑتال کا ذکر میرے مُنہ سے نکل گیا۔ ابو کو علم نہ تھا کہ کل اخباروں کی چُھٹی تھی اور ہمارے گھر جو پی ٹی وی کی نشریات اتی ہیں وہاں سب کچھ حسب معمول ہوتا رہا ہے۔ ابو کو جب میں نے بتایا کہ جمعہ کو راولپنڈی میں جامعہ تعلیم القرآن کو تباہ کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ مارکیٹ جلا دی گئی ہے تو انھوں نے پوچھا کیا یہ مدرسہ راجا بازار میں واقع ہے؟ میں نے بتایا کہ جی ہاں وہی مدرسہ ہے۔

اس پر ابو نے بتایا کہ قرآن مجید کا ترجمہ انھوں نے اسی مسجد میں مولانا غلام اللہ خان سے پڑھا تھا۔ مولانا غلام اللہ خان اس مسجد میں انے سے پہلے قلعہ دیدار سنگھ میں امام تھے اور شیخ رشید احمد لال حویلی والے کے والد ان کے معتقد تھے اور انھوں نے مولانا کی کافی سپورٹ کی۔

مولانا جب قلعہ دیدار سنگھ میں امامت کرتے تھے تو وہ اس کی کوئی تنخواہ نہ لیتے تھے۔ بس انھوں نے اہل علاقہ سے کہا تھا کہ ان کو مستقل وہاں رہنے دیا جائے۔ مولانا غلام اللہ خان مرحوم کے وہاں رہنے سے کافی لوگ سُدھرے۔ بہت سے لوگوں کا قعیدہ درست ہوا اور پھر مولانا نے اس مدرسے کی بنیاد ڈالی۔ پہلے نچلی منزل پر مدرسہ تھا۔ مدرسے کا دفتر بھی نچلی منزل پر تھا۔ مولانا غلام اللہ خان نے مدرسے کا خرچہ پورا کرنے کے لئے نچلی منزل کو دکانوں میں تبدیل کیا اور مسجد اور مدرسے کا دفتر اوپر شفٹ کر دیا گیا۔ مولانا غلام اللہ خان ایک حق گو انسان تھے۔ چو این لائی کے دورہ پاکستان کے موقع پر  جب ایوب خان کی موجودگی میں چو این لائی کے سامنے کچھ لڑکیاں ناچیں تو مولانا نے ببانگ دہل اس پر تنقید کی۔

مجھے یہ اقعہ تفصیل سے نہیں بتایا گیا اس لئے اتنا ہی لکھوں گا۔

بہرحال، جیسا کہ ہوتا ہے، حکمرانوں نے مسجد، مدرسہ اور اس کے ساتھ کی تمام دکانیں قومیا لیں۔ ان سب کو محکمہ اوقاف کی ذمہ داری میں دے دیا گیا۔  مولانا غلام اللہ خان کی دوستی مولانا احتشام الحق تھانوی کے ساتھ تھی۔ اور اُن کی ایوب خان سے بھی اچھی خاصی چھِنتی تھی۔ مولانا احتشام الحق تھانوی نے جب ایوب خان سے مولانا غلام اللہ خان کی سفارش کی تو مولانا کو مسجد و مدرسہ واپس کر دیا گیا مگر دکانیں محکمہ اوقاف کے پاس ہی رہنے دی گئیں۔

یہ ایک بہت بڑی مارکیٹ تھی اور وہاں ہول سیل کا اربوں روپے کا کاروبار ہوتا تھا۔ اب تو شائد راکھ ہی ہو، جلے در و دیوار ہوں جو آنے جانے والوں سے پوچھتے ہوں کہ رواداری کیا صرف ایک فرقے کے لوگوں کے لئے لازمی قرار دی گئی ہے؟

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں