يہ رات جس ميں اسرا ومعراج کا واقعہ پيش آيا اس كى تعيين کے بارہ ميں کوئي صحيح حديث وارد نہيں ہے اوراسی لیئے اس كى تعيين میں علماء کرام کے مختلف اقوال ہیں ، اور اگر اس كى تعيين ثابت بھی ہو جائے تو مسلمانوں کے لئے اس ميں كسى طرح کا جشن منانا يا اس کو كسى عبادت کے لئے خاص کرنا جائز نہيں ہے، کيونکہ نبی صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ کرام نےنہ تو اس ميں كسى طرح کا کوئی جشن منايا اور نہ ہی اسے كسى عبادت کے لئے خاص کيا، اور اگر اس شب ميں جشن منانا اور اجتماع کرنا شرعا ثابت ہوتا تو نبی صلی اللہ عليہ وسلم اپنے قول يا فعل سے اسے امت کے لئے ضرور واضح کرتے، اور اگر عہد نبوی يا عہد صحابہ ميں ايسی کوئی چيز ہوتی تو وہ بلا شبہ معروف ومشہور ہوتی اور صحابہ کرام اسے نقل کرکے ہم تک ضرور پہنچاتے
جناب عالی یہاں تو ہر مذہبی دن پر ڈھول تاشے لے کر نکل پڑتے ہیں۔ وہ کیا ہے کہ ہر معاملے میں ظاہر پرست اور انتہا پسند جو ہوتے جارہے ہیںہم۔
شاکر بھائی :؛بس افسوس کا مقام ہے۔ تقریبا ہر چیز کو ہم نے کچھ ایسے گورکھ دھندے میں لپیٹ ڈالا ہے کہ اب کسی کو درست بات بتائی جائے تو اسے بھی یقین نہیں آتا۔
Comments are closed.