جب بھی کسی آبادی کی برائی پڑھنے کا موقع ملا، ایک جملہ ضرور لکھا پایا، کہ ، وہاں جنگل کا قانون نافذ تھا، یا ہو چکا تھا یا اس پر عمل کیا جا رہا تھا۔
جنگل کے قانون کی تعریف مختصر الفاظ میں یوں کی جا سکتی ہے کہ ” جس کی لاٹھی اُس کی بھینس”۔
” زبردست کا ٹھینگا سر پر” اور اس طرح کی کئی اور تمثیلات۔
خالد مسعود خان، اُن گنے چُنے کالم نگاروں میں سے ہیں کہ جن کا کالم میں مکمل پڑھنے کی سعی کرتا ہوں۔
ان کے دو کالم ایسے ہیں کہ جن کو پڑھنے کے بعد مجھے یوں لگا کہ شاَئد جنگل کسی ایسی جگہ کانام ہے جو ہمارے ملک سے اچھی ہے۔
یہ واقعہ اتنا گھناونا ہے کہ مجھے اس کی تلخیص کرنے میں تاءمل ہے۔
یہ واقعہ کیا ہے اس کی تفصیل جاننے کے لئے مندرجہ ذیل ربط موجود ہیں۔
اور دوسرا کالم خوف خدا اور میرٹ کا مردہ
میری دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو ایسے موذی لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے۔
تدوین:: خالد مسعود صاحب کی تحریروں کے عکس شامل کر دئیے ہیں۔
پڑھ لوں تو فیر تبصرہ کرتا ہوں
.-= ڈفر – DuFFeR´s last blog ..ڈیل کر لیتے ہیں =-.
ہمارے ملک کا جو حال ہے اسے اب جنگل کہنا جنگل کٰ توہین ہے ۔ جنگل کا بادشاہ شیر کو کہتے ہیں ۔ میں نے صرف سناہی نہیں دیکھا بھی ہے کہ شیر بھوکا نہ ہو تو شکار نہیں کرتا اور انسان اسے تنگ نہ کرے تو انسان کو کھاتا نہیں
.-= افتخار اجمل بھوپال´s last blog ..چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ بُزدلی اور بہادری =-.
رہیے اب ایسی جگہ چل کر’ جہاں کوئی نہ ہو
Comments are closed.