Skip to content

سی پی ایس پی کے وفد کا دورہ

کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز کے وفد نے کل ہمارے ہسپتال کا دورہ کیا۔ دورے کا مقصدغالبا ان یونٹس کا جائزہ لینا تھا جو اب پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ کے لئے منظور ہو جائیں گے۔ ان میں نفسیات اور نیوروسرجری شامل ہیں۔

 

ہمیں تو یہی پتہ چل سکا۔

لطف اس وقت آیا جب راولپنڈی میڈیکل کالج کے پروفیسر اور سی پی ایس پی کے کونسلر ، ڈاکٹر شعیب شفیع نے ہمارے یونٹ کا دورہ کیا۔ اُن کو یونٹ میں کام کرنے والے تمام ٹرینی ڈاکٹرز سے ملاقات کا موقع ملا۔ اور اُنھوں نے کوشش کی کہ اپنے شیڈول میں سے وقت نکال کر ہم سے بات چیت کریں۔

اُن کو صوبہ سرحد میں کام کرنے والے ٹرینی ڈاکٹرز کی حالت کے بارے میں جان کر بہت حیرانی ہوئی۔ اور ہمیں حیرانی اس وقت ہوئی جب انھوں نے بتایا کہ صوبہ پنجاب میں اس وقت ہاؤس آفیسر ڈاکٹرز کا وظیفہ اٹھارہ ہزار روپے اورپوسٹ گریجویٹ ٹرینی ڈاکٹرز کا وظیفہ بائیس ہزار روپے ہے۔ ہمارے ہاں پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹرز کا وظیفہ وہاں کے ہاؤس آفیسرز سے بھی اتنا کم ہے کہ بتاتے ہوئے شرم آتی ہے۔

ڈاکٹر شعیب شفیع سے بہت سے مسائل پر کُھل کر بات چیت ہوئی اور اس بات پر اتفاق ہوا کہ جب تک حکومتی انتظام درست نہیں ہوتا ، ڈاکٹروں کی اعلی تعلیم کا یہی حال رہے گا۔ ان سے پی جی ایم آئی اور ٹریننگ کے مسائل پر بھی بات چیت ہوئی، اور ان کو بتایا گیا کہ اگرچہ ایف سی پی ایس پارٹ وَن کا سال میں دو سے تین مرتبہ امتحان ہوتا ہے، ڈاکٹرز کی با وظیفہ ٹریننگ کے لئے انٹرویو ایک ہی دفعہ ہوتے ہیں، نتیجہ یہ کہ بہت سے ڈاکٹرز کو اپنی ٹریننگ کے لئے ایک سال تک کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ہم نے ان سے درخواست کی کہ صوبہ سرحد میں ڈاکٹروں کے لئے یہ مسئلہ ہے اور اس کا حل نکالا جائے۔

ہم اُس وقت بھی حیران ہوئے جب انھوں نے بتایا کہ اُن کے ہسپتال میں ، حکومت پنجاب کے انتظامات کی وجہ سے نوے فیصد تک ادویہ مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ جب کہ یہاں تو اُلٹا حساب ہے۔ اور جس حساب سے وہاں صحت کے شعبے میں ترقی ہو رہی ہے، جلد ہی پنجاب ہم سے بہت آگے نکل جائے گا۔

کل ہمیں احساس ہوا کہ اب بھی اگر ہم نے اپنے حقوق کے لئے آواز بلند نہ کی تو پھر شائد کبھی بھی نہ کرسکیں۔

4 thoughts on “سی پی ایس پی کے وفد کا دورہ”

  1. میرے 5 ماموں زاد ڈاکٹر ہیں. صوبہ پنجاب میں ہاؤس ڈاکٹر کا معاوضہ کسی صورت درست نہیں بتایا گیا. آپ کو اگر کچھ مل جاتا ہے تو پنجاب میں صرف سفارش پر کچھ ملتا ہے ورنہ مفت کی سروس دینی پڑتی ہے. حتی کہ میرا ایک کزن سندھ تک میں ہاوس جاب کر کے آیا ہے. پنجاب سے باہر اکثر لوگ پنجاب کے بارے غلط باتوں پر یقین کر لیتے ہیں.

  2. آپ کو کس حکیم نے کہا تھا ڈاکٹر بننے کو
    سیاستدان بن جاتے تو آج تمام ڈاکٹر آپ کے رحم وکرم پر ہوتے…
    اس سے بھی بڑھ کو کسی لندن بیسڈ مافیا کے رکن بن جاتے تو
    سیاستدان بھی آپ کے رحم و کرم پر ہوتے…
    اور اگر سیدھے سی آئی اے میں بھرتی ہوجاتے تو وہ مافیا والے آپ کے رحم وکرم پر ہوتے …
    رہنا پاکستان میں اور پڑھ لکھ کر ترقی کرنے کے خواب دیکھنا…..ہاہ…

  3. منیر عباسی

    یہاں صوبہ سرحد میں بھی یہی حال ہے، بدتمیز بھائی۔

    خود مجھے گیارہ ماہ مفت سروس دینی پڑی تب جا کر کچھ ملنا شروع ہوا۔

    ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کی ویب سائٹ پر حکومت پنجاب کے احکامات کی فوٹو کاپی موجود ہے جس کے مطابق مندرجہ بالا وظیفہ ڈاکٹرز کو دیا جا رہا ہے۔

    ہمارے لئے مسئلہ اس وقت گھمبیر ہوجاتا ہے جب پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے گریجویٹ بھی انھی پہلے سے متعینہ سیٹوں پر ہمارے ساتھ انٹرویو دیتے ہیں۔ پرائیویٹ میڈیکل کالجز کو منظوری ہی اس شرط پر دی جاتی ہے کہ ان کا اپنا ہسپتال ہونا چاہئے۔
    مگر ہوتا یہ ہے کہ گریجویشن کے بعد وہ آکر ہمارے ہی سیٹوں پر ہمارے ساتھ مقابل،ے میں شریک ہو جاتے ہیں۔ لہذا اپنا وقت بچانے کی خاطر کچھ لوگ مجبورا مفت سروس دیتے ہیں تا کہ مقابلے کی دوڑ میں شریک رہ سکیں اور پیچھ نہ رہ جائیں۔
    یہ لوگ ایک طاقتور گروپ کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور اب تو انھوں نے پی ایم ڈی سی کا بھی بازو مراڑنا شروع کر دیا ہے،

    مسئلہ ٓخر کار ہمارے لئے ہی پیدا ہوتا ہے۔

    جعفر، اب لکیر پیٹنے کی بھی ہمت نہیں رہی ۔۔۔

  4. DuFFeR - ڈفر

    نہیں نہیں ابھی بھی دیر نہیں ہوئی
    ہے جذبہ جنون تو ہمت نا ہار
    ابھی تو آپ کی سیاست کی عمر ہوئی ہے
    اگر باپ دادا سیاست میں نا ہوں تو
    بچہ تو سیاست میں خراب ہو جاتا ہے

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں